ممبئی ۔ 2 جون (سیاست ڈاٹ کام) تبت کے مذہبی رہنما دلائی لامہ نے آج کہا کہ انہیں انسانوں کے ساختہ مسائل پر زیادہ فکر ہے جیسے کہ کرپشن جو آفات سماوی سے زیادہ تباہ کن ہے۔ وہ سومیا کالج کے طلبہ سے خطاب کررہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ وہ ہندوستان کی موجودہ صورتحال پر مطمئن نہیں ہیں۔ تشدد میں کمی آئی ہے لیکن استحصال اور کرپشن حد سے زیادہ ہوگیا ہے۔ انہیں آفات سماوی سے زیادہ ان انسانی ساختہ تباہیوں کی فکر ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستان میں کئی انسانی ساختہ مسائل ہیں۔ خواتین کی اجتماعی عصمت ریزی ان میں سے ایک ہے چونکہ یہ مسائل ہماری اپنی تخلیق ہیں۔ اس لئے ہم ان مسائل کا خاتمہ کرسکتے ہیں۔ انسانی ساختہ مسائل صرف دعائیں کرنے سے حل نہیں ہوں گے۔ اگر ایسا ہوتا تو سب سے پہلے ایسے مسائل ہی پیدا نہ ہوتے۔ مذہبی رہنما نے طلبہ کو خبردار کیا کہ وہ خودساختہ روحانی افراد کے شکار نہ بنیں۔ انہوں نے کہا کہ خودساختہ ’’دھرم راجہ‘‘ کثیر تعداد میں ہیں۔ وہ صرف نقد رقم اور نفسانی خواہشات کی تکمیل چاہتے ہیں۔ ان کے عقیدتمندوں کو بحیثیت مذہبی رہنما ان کی اہلیت سے واقف ہونا چاہئے۔ ایک ارب 20 کروڑ ہندوستانی خدا پر عقیدہ رکھتے ہیں۔ پھر کرپشن کیسے ہوسکتا ہے۔ اگر بدعنوان عقیدتمندوں کو مذہبی رہنماؤں کی جانب سے مسترد کردیا جائے تو کرپشن کی گنجائش ہی باقی نہیں رہے گی۔ خواتین کی مساوات کے بارے میں انہوں نے کہا کہ تعلیم مساوات لاتی ہے۔ خواتین کو زیادہ تعلیم حاصل کرنے اور سماج کی زیادہ خدمت کرنے کی کوشش کرنا چاہئے۔ جو خواتین خاموش رہتی ہیں اور عدم مساوات قبول کرلیتی ہیں انہیں بھی زیادہ طاقت کے ساتھ لین دین اور جہیز کے نظام کے خلاف آواز اٹھانا چاہئے۔ دلائی لامہ کے اداروں کے مستقبل کے بارے میں سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جس کا انحصار تبت کے عوام پر ہے۔ 1969ء میں انہوں نے اپنے ایک سرکاری بیان میں کہا تھا کہ دلائی لامہ کے اداروں کو تبت کے عوام کے بھروسہ نہیں چھوڑا جاسکتا۔ انہیں جاری رہنا چاہئے۔ اگر عوام کی اکثریت یہ سمجھتی ہیکہ یہ ادارے اب کارآمد نہیں رہے تو انہیں بند کردیا جانا چاہئے۔ ایک رسالہ کے نامہ نگار نے ان سے سوال کیا تھاکہ کیا مستقبل قریب میں کسی خاتون دلائی لامہ کا امکان ہے۔ انہوں نے فوری اثباتی جواب دیتے ہوئے کہا تھا کہ ہاں ایسا ممکن ہے۔امیروں اور غریبوں کے درمیان معاشی خلیج میں اضافہ پر دلائی لامہ نے تنقید کرتے ہوئے کہا کہ پرتعیش شادیاں اور غریبوں کو کھلانے اور بے گھروں کو رہائش گاہ فراہم کرنے کے بجائے شادیوں میں فضول خرچی پیسے کا زیاں ہے۔ اسے بے سہارا بچوں کیلئے استعمال کیا جانا چاہئے۔ شادیاں کفایت شعاری سے کی جانا چاہئیں۔