اندھے کو اندھیرے میں نظراب آنے لگاہے

کیابی جے پی ایک بارپھر اقتدار حاصل کرپائے گی؟

محمد جسیم الدین نظامی
کہتے ہیں کہ تقلید ہو یا وفاداری اندھی نہیں ہونی چاہئے کیونکہ’’ اندھی وفاداری‘‘ کا نتیجہ’’ اندھیرا ‘‘ہی نکلتا ہے… سال 2014 کے عام انتخابات میں مذہبی جنونیت کے شکار جن ’’بھگتوں‘‘ کو بی جے پی کی حکمرانی ’’اندھیرے میںروشنی‘‘ کی کرن نظرآرہی تھی،اب انہیں نہ صرف اپنا بلکہ ملک کا مستقبل بھی ’’تاریک‘‘ نظرآرہا ہے …. کیونکہ حیرت انگیز طورپر جن جن مسئلوں کو بی جے پی نے انتخابی موضوع بناکر اقتدار حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کی تھی، انہی مسئلو ں سے نمٹنے میں وہ زیادہ ناکام ہوئی ہے… نتیجہ یہ ہے کہ زعفرانی قیادت کی چرب زبانی ،کارپوریٹ گھرانوںکی مہربانی اور میڈیا کی زہرافشانی کے بدولت، جن کے دل ودماغ پر ’’تبدیلی ‘‘ کا نشہ سوار ہوچکا تھا ، اب بی جے پی کی محض چارسالہ حکمرانی نے انکے سروں پر ایک بار پھر تبدیلی کا نشہ چڑھا دیاہے….اور اب کی بار وہ ’’بی جے پی کو ہی تبدیل‘‘کرنے کیلئے کمربستہ نظر آرہے ہیں….کم از کم حالیہ حالیہ سروے سے تو یہ صورتحال صاف نظرآرہی ہے۔حالانکہ عام انتخابات میں ابھی 8 مہینے باقی ہیں،تاہم ٹی وی چیانلوں پر اوپینین پولس دکھائے جانے لگے ہیں جس میں یہ بتانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی کی مقبولیت میں کمی آئی ہے یا نہیں؟…. اورکیا 2019 میں بھی بی جے پی 2014 جیسی شاندار کامیابی حاصل کرسکے گی یا نہیں؟… ویسے ایک سال پہلے تک یہ بات تقریباً تمام چیانلوں پر کہی جارہی تھی کہ نریندر مودی کی قیادت میں بی جے پی 2019 کا چناؤ جیت لے گی… مگر 4 ماہ پہلے یعنی مئی 2018 میں ’’سی ایس ڈی ایس لوک نیتی‘‘ کے سروے میں یہ واضح طور پرانکشاف کیا گیا ہے کہ پسماندہ طبقات کے صرف 22 فیصد رائے دہندوں کی ہی انہیں حمایت حاصل ہے، جبکہ جنوری 2018 میں یہ تعداد 30 فیصد تھی جو پانچ مہینے میں 8 فیصد گھٹ گئی… سروے کے مطابق، یہی حال دلتوں اور کسانوں کا بھی ہے جسے بی جے پی کے لئے اک بُری علامت سے تعبیرکا جاسکتا ہے… سروے کے مطابق بی جے پی کو پسند کرنے والے کسانوں کی تعداد 59 فیصد سے گر کر 24 فیصد پر آگئی ہے… اسی طرح 61 فیصد لوگوں نے مہنگائی پر لگام کسنے میں مودی حکومت کو ناکام بتایا ہے جبکہ 55 فیصد لوگوں کا کہنا ہے کہ مودی حکومت کرپشن کو ختم کرنے میں بھی ناکام رہی ہے… یہی نہیں بلکہ 61 فیصد لوگ تو یہ مانتے ہیں کہ مودی حکومت بھی’’بدعنوان‘‘ ہے… جبکہ64 فیصد لوگوں نے بی جے پی کے دور اقتدار میں ترقیاتی عمل پرعد م اطمینان کا اظہار کیا ہے۔ 57 فیصد لوگوں کے خیال میں مودی حکومت نوکری دلانے کے وعدے کو بھی پورا کرنے میں بری طرح ناکام رہی … ستم ظریفی یہ کہ ایک سال پہلے جہاں 27 فیصد افرادہی مودی حکومت کے کام کاج سے مجموعی طور پر ناراض تھے وہاں اب یہ تعداد بڑھ کر 47 فیصد ہوگئی ہے… سب سے اہم ترین بات یہ ہے کہ سال 2014 میں جن لوگوں نے بی جے پی کو ووٹ دیا تھا ان میں سے 47 فیصد لوگ 2019 میں بی جے پی اور اس کی حلیف جماعتوں کو پھر سے کسی حال منتخب کرنا نہیں چاہتے…یہ تو رہی عوامی موڈ پرمبنی سروے کی بات … دوسری طرف سیاسی سطح پر دیکھا جائے تو پچھلے ایک سال کے دوران ملک میں سماجی اور سیاسی ماحول میں تیزی سے تبدیلی آئی ہے… جہاں این ڈی اے کاگروپ دن بدن سکڑتا جارہا ہے وہیں اپوزیشن گروپ پہلے کے مقابلہ میں پھیلا ہے اور مضبوط ہوا ہے…نرنیدنر مودی نے وزیر اعظم بننے سے پہلے اور بعد میں اپنی باتوں سے جو طلسم کھڑا کیا تھا وہ اب ٹوٹنے لگا ہے… حالانکہ بھگتوںکی ایک بڑ ی تعداد ابھی بھی پوری طرح بیدار نہیں ہوئی ہے مگر بی جے پی کے ساتھ این ڈی اے کی شکل میں شامل سیاسی پارٹیوں کی آنکھیں پوری طرح کھل چکی ہیں… بی جے پی کی طرح ہی ہندوتوا کی سیاست کرنے و الی شیو سینا نے سب سے پہلے مودی حکومت سے ترک تعلق کا اعلان کیا…اسکے بعد تلگودیشم صدر چندربابو نائیڈونے بھی این ڈی کا ساتھ چھوڑ دیا … انکے علاوہ پسماندہ طبقات کے لیڈر اْپیندرکشواہا اور مہا دلت طبقہ کے جتن رام مانجھی اوریوپی سے اوم پرکاش راج بھر بھی این ڈی اے سے ناطہ توڑ لینے کا اشارہ دے چکے ہیں۔ بہار سے نتیش کمار اور رام ولاس پاسوان بھی وقفے وقفے سے اپنی بے چینی کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ اس صورتحال سے بظاہر ایسا لگ رہا ہے کہ اب مودی کا جادو ٹوٹ رہا ہے اور این ڈی اے بکھرنے لگا ہے… ریاستی سطح پر تجزیہ کریں تو پتہ چلتا ہے کہ 2014 کے مقابلے 2019 میں بی جے پی کی صورتحال انتہائی پریشان کن رہے گی…سب سے بڑی سیاسی تبدیلی اترپردیش میں دیکھنے کو ملی ہے جہاں دو علاقائی جماعتیں ایس پی اور بی ایس پی طویل عرصہ بعد متحد ہو گئیں اور ان کے اتحاد کا مقصد صرف بی جے پی کو شکست دینا ہے.. اس ریاست میں لوک سبھا کی 80 نشستیں ہیں ان میں سے 71 پر بی جے پی اور ان کی حلیف جماعتوں کا قبضہ ہے لیکن 2019 میں بی جے پی اور اس کی حلیف جماعتیں اتنی نشستیں جیت پائیں ایسا ہونا مشکل ہے، کیونکہ ایس پی، بی ایس پی، کانگریس اور راشٹریہ لوک دل مل کر ایک عظیم اتحاد بنانے کی کوشش کررہے ہیں… ایسا ہونے پر دلت، یادو، مسلم اور جاٹ سمیت او بی سی ووٹرس بھی بی جے پی کے خلاف صف آرائی کرسکتے ہیں… بہار میں لوک سبھا کی 40 نشستیں ہیں ان میں سے 22 پر بی جے پی اور 9 پر اس کی حلیف جماعتوں کا قبضہ ہے.. جھارکھنڈ میں 14 میں سے 12 نشستیں بی جے پی کے پاس ہیں جبکہ کرناٹک کی 28 میں سے 17 نشستوں پر بی جے پی کا قبضہ ہے۔..وہاں کانگریس اور جے ڈی ایس کے اتحاد کے بعد بی جے پی کیلئے 2014 کی کامیابی کا اعادہ کرنا ممکن نظر نہیں آتا کیونکہ مجالس مقامی انتخابات نے بھی اس اتحاد پر مہر لگادی ہے.. ممکنہ طور پر دونوں جماعتیں لوک سبھا انتخابات تک اتحاد ہر صورت میں برقرار رکھنے کی کوشش کریںگی ..اورایسی صورت میںاس اتحاد کو کچھ زیادہ نشستیں حاصل ہونا یقینی ہے۔ اسی طرح مہاراشٹرا میں بھی اگر شیوسینا بی جے پی سے کنارہ کشی اختیار کرلیتی ہے تو بی جے پی کی کامیابی کے امکانات کم ہوسکتے ہیں..وہاں بی جے پی کو 47 میں سے 23 نشستیں حاصل ہوئی تھیں…مذکورہ چاروں ریاستوں سے مجموعی طور پر 129 ارکان پارلیمنٹ منتخب ہوکر آتے ہیں… دوسری طرف جنوبی ریاستوں میں کیرلا، تاملناڈو، پڈوچیری، آندھرا پردیش اور تلنگانہ شامل ہے..جہاں لوک سبھا کی مجموعی طور پر 102 نشستیں ہیں… یہاں سے بی جے پی کے 4 ارکان نے کامیابی حاصل کی تھی..ان میں سے 2 آندھرا پردیش سے تھے.. . 2014 میں بی جے پی، ٹی ڈی پی کے ساتھ اتحاد میں تھی لیکن اب دونوں الگ ہوچکے ہیں … دہلی، ہریانہ، گجرات، چھتیس گڑھ، جھارکھنڈ اور ہماچل پردیش سے جملہ 63 ارکان پارلیمنٹ منتخب ہوتے ہیں..یہاں سے بی جے پی نے 2014 میں 59 نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی لیکن 2019 میں اس کا اعادہ ہونا مشکل ہے.. حالانکہ بی جے پی کو اڈیشہ اور شمال مشرقی ریاستوں سے امیدیں وابستہ ہیں.. سروے میں بتایا گیا ہے کہ اڈیشہ میں بی جے پی آگے بڑھ رہی ہے لیکن یہاں پر نوین پٹنائک کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا.. سال 2014 میں بی جے پی نے یہاں 21 میں سے صرف ایک نشست پر کامیابی حاصل کی تھی…شمال مشرقی ریاست میں خاص کر آسام میں بی جے پی کو کچھ نشستوں میں اضافہ ہونے کی امید ہے… اس کے علاوہ دیگر شمال مشرقی ریاستوں میں بی جے پی کے ایک دو نشستوں پر ہی جیتنے کے امکانات ہیں… مغربی بنگال کی 42 نشستوں میں سے بی جے پی نے 2014 میں صرف 2 پر ہی کامیابی حاصل کی تھی… اگرچہ بی جے پی وہاں بہت محنت کررہی ہے لیکن 2019 میں بھی یہ تعداد بہت زیادہ بڑھنے کے آثار نہیں ہیں کیونکہ یہاں ممتا بنرجی کی ٹی ایم سی اور کانگریس اتحاد کر کے انتخابات لڑسکتی ہے… بہرحال حالیہ عرصے میں مجموعی طور پر جوصورتحال پیداہوئی ہے وہ بی جے پی کیخلاف جاتی دکھ رہی ہے . . . منظر بدل رہا ہے… کل کے دوست آج دشمن بنتے نظر آرہے ہیں… کیوں کے اصل میں وہ دوستی تھی ہی نہیں ..ایک دوسرے سے جڑے مفادات تھے …مفاد ات نہیں رہے تو دوستی بھی نہیں رہی..علاقائی جماعتوں خاص کر اپوز یشن جماعتوںکو اب ہوش آنے لگا ہے کہ اگر وہ متحد نہ ہوئے تو انکا وجود ہی ختم ہوجائیگا… چونکہ مرکز میں حصول اقتدار کے بعد بی جے پی کا غرور ساتویںآسمان کو چھونے لگا… بی جے پی قیادت 2014 کے بعدبھی منعقد ہونے والے ہر انتخابات میں اپنے روایتی انداز میں فرقہ وارانہ مسائل کو ہی اپنا انتخابی موضوع بنایا…حالانکہ انھیں اس کا اندازہ ہوگیا ہے کہ فرقہ پرستی کا فارمولہ اب ملک میں نہیں چلے گا… اس کا ثبوت انھیںیوپی بہار مغربی بنگال کے ضمنی انتخابات اورگجرات اور کرناٹک اسمبلی انتخابات میں مل چکاہے… جہاںانہوں عوام کے دلوں میں فرقہ پرستی کاجذبہ بھڑکا کر ووٹ ہتھیانے کی کوشش کی تھی لیکن نتیجہ الٹا نکلا…کیونکہ ’’کاٹھ کی ہانڈی‘‘ چولہے پر بار بار نہیں چڑھتی… اوراندھے کو ہمیشہ اندھیرے میں نہیں رکھا جاسکتا…روشنی تو بہرحال ان کا بھی مقدر ہے…