اندر کمار گجرالؔ (1919-2012)

میرا کالم مجتبیٰ حسین
بعض شخصیتیں ایسی ہوتی ہیں جن کے بارے میں آپ محسوس تو بہت کرتے ہیںلیکن جب ان کے بارے میں اپنے ا حساسات کے اظہار کا معاملہ درپیش ہو تو لفظ ان احساسات کو چھونے کے اہل نظر نہیں آتے۔ فراق گورکھپوری نے کہا تھا :
؎ خود اپنے خیالوں کو ہمدم میں ہاتھ لگاتے ڈرتا ہوں
گجرال صاحب کے تعلق سے میرے احساسات کا بھی یہی عالم ہے ۔ میں اُن کا صرف ایک ادنیٰ سا عقیدت مند ہوں اور وہ میرے محسن ہیں۔ میری زندگی میں دو چار ہستیاں ایسی رہی ہیں جن کے بارے میں جب بھی کچھ لکھنے کیلئے قلم اٹھاتا ہوں تو مجھ سے زیادہ قلم کو پسینہ آجاتا ہے۔ گجرال صاحب کے تعلق سے جب بھی کچھ سوچتا ہوں تو نہ جانے کیوں مجھے اُس عربستان کا خیال آجاتا ہے جہاں تیل ابھی دریافت نہیں ہوا تھا اور عربوں نے دوسری قوموں کا اور بڑی قوموں نے خود عربوں کا تیل نکالنا شروع نہیں کیا تھا ۔ اسی زمانے کے ایک اعرابی سے کسی نے پوچھا ’’تم کھاتے کیا ہو ؟ ‘۔ اعرابی نے جواب دیا ’’اونٹ‘‘۔ پوچھا ’’پیتے کیا ہو ؟ ‘‘کہا ’’اونٹ‘‘ ۔’’اوڑھتے کیا ہو ؟ ‘‘جواب دیا ’’اونٹ‘‘’’بچھاتے کیا ہو ؟ ‘‘…’’اونٹ‘‘ ۔ پوچھا’’سواری کیا ہے ؟ ‘‘جواب دیا ’’اونٹ‘‘۔
سوال کرنے والا پریشان ہوکر کہنے لگا ’’تم نے یہ کیا اونٹ ، اونٹ کی رٹ لگا رکھی ہے‘‘۔ اعرابی بولا ’’حضور اونٹ کا گوشت کھاتا ہوں ، اونٹنی کا دودھ پیتا ہوں، اونٹ کی کھال کے کپڑے پہنتا ہوں، اونٹ کی کھال کو اوڑھتا اور بچھاتا ہوں، اونٹ پر سواری کرتا ہوں۔ اونٹ ہی میری دنیا اور میری زندگی ہے ‘‘۔
اب اگر آج کوئی میرے بارے میں چند نجی سوالات کر بیٹھے تو میرے جوابات بھی کچھ اسی طرح کے ہوں گے ۔ مثلاً اگر مجھ سے پوچھا جائے ’’تمہیں حیدرآباد سے دہلی کس نے بلایا؟ ‘‘ تو میرا جواب ہوگا ’’اندر کمار گجرال‘‘ اگر سوال یہ ہو کہ ’’تمہیں دہلی میں سب سے پہلے سرکاری مکان کس نے الاٹ کیا ؟ ‘‘تو میرا جواب ہوگا ’’اندر کمار گجرال‘‘۔ تمہارے بیٹے کو انجنیئرنگ کی اعلیٰ تعلیم کیلئے سوویت یونین کس نے بھجوایا ؟ ‘‘میرا جواب ہوگا ’’اندر کمار گجرال‘‘۔’’مزاح نگاروںکی ایک کانفرنس میں تمہارے بعض بیرونی مزاح نگاروں کو انڈین کونسل فار کلچر ریلیشنز کا مہمان کس نے بنایا ؟ ‘‘ میرا جواب ہوگا ’’اندر کمار گجرال‘‘۔
اس طرح کے سوالات کی فہرست یا یوں کہئے کہ گجرال صاحب کے احسانات کی فہرست خاصی طویل ہے لیکن میں نے یہاں صرف وہی سوالات پیش کئے ہیں جن کے جوابات شائد گجرال صاحب کو بھی معلوم ہیں۔ اُن کے وہ احسانات اس فہرست میں شامل نہیں ہیں جو انہوں نے مجھ پر کئے مگر میں نے بہ کمال ہوشیاری ، ان کی اطلاع انہیں نہ ہونے دی کیونکہ میں جانتا ہوں کہ گجرال صاحب جس تہذیب کے پروردہ ہیں، اس میں احسان کرنے والے کی نظریں کبھی اونچی نہیں، ہمیشہ نیچی ہی رہتی ہیں۔ عجیب و غریب تہذیب تھی تبھی تو مٹتی جارہی ہے۔

حضرات ! سچ تو یہ ہے کہ شخصی طور پر میرے لئے گجرال صاحب کی وہی حیثیت ہے جو پرانے اعرابی کیلئے اونٹ کی تھی ۔ فرق صرف اتناہے کہ اعرابی پر اونٹ کے اتنے احسانات کے باوجود خود اعرابی کو پتہ نہیں چلتا تھا کہ اس کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا لیکن میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ گجرال صاحب کے عقیدے اور نظریہ کا اونٹ جب بھی بیٹھے گا تو بائیں کروٹ ہی بیٹھے گا۔ رواداری، سیکولرازم اور انصاف دوستی کی سمت ہی بیٹھے گا۔
مجھے اس وقت آنجہانی کرشن چندر کی یاد بے ساختہ آرہی ہے کیونکہ ان ہی کی معرفت میں پہلے پہل گجرال صاحب سے ملا تھا ۔ یہ کوئی بیس برس پرانی بات ہے ۔ کرشن چندر مجھے بہت عزیز رکھتے تھے اور یہ انہیں کی خواہش تھی کہ میں حیدرآباد سے نکل کر یا تو بمبئی میں آباد ہوجاؤں یا دہلی میں۔ اُن دنوں گجرال صاحب مرکزی وزیر اطلاعات تھے ۔ کرشن جی نے میرے بارے میں گجرال صاحب کو دو چار زبردست سفارشی خط لکھے اور جب حکومتِ ہند نے اردو کی ترویج و اشاعت کے لئے ایک کمیٹی قائم کی جس کے صدرنشین خود گجرال صاحب تھے تو ایک دن کمیٹی کے دفتر سے میرے نام مراسلہ آیا کہ میاں دہلی چلے آؤ اور کمیٹی کی رپورٹ لکھنے میں حکومت کا ہاتھ وغیرہ بٹاؤ۔
یہ وہی تاریخی کمیٹی ہے جس کا اصل نام Committee for Promotion of Urdu تھا مگر بعد میں اس نے ’’گجرال کمیٹی ‘‘ کی حیثیت سے شہرت پائی ۔ یوں سمجھئے کہ یہ نام اس کمیٹی کا تخلص بن گیا۔ جی تو چاہتا ہے کہ گجرال صاحب کی بجائے اس کمیٹی کا ایک خاکہ لکھا جائے ۔ کمیٹیاں تو آئے دن بنتی رہتی ہیں اور کمیٹیاں بنائی بھی اس لئے جاتی ہیں کہ جس معا ملہ کیلئے کمیٹی بنائی جارہی ہو اس معاملہ کو لٹکا دیا جائے ۔ اگر کمیٹی سے معاملہ لٹک نہ سکے تو ذیلی کمیٹیاں بنادی جائیں۔ مگر گجرال کمیٹی واحد کمیٹی تھی جو معاملہ کو لٹکانے کی بجائے اسے نپٹانا چاہتی تھی اور اس کی اس کوشش میں کمیٹی کے صدرنشین کی نیّت کو بڑا دخل تھا اور دنیا جانتی ہے کہ جب اس کمیٹی نے اردو کے معاملہ کو نپٹانے کے لئے ایک جامع اور مبسوط رپورٹ پیش کردی تو ارباب اقتدار میں کھلبلی سی مچ گئی اور انہوں نے سوچا کہ اگر کمیٹی نے اپنے قیام کے ا صلی مقصد سے رو گردانی کرتے ہوئے رپورٹ پیش کردی ہے تو کیوں نہ اس رپورٹ کو ہی لٹکادیا جائے ۔ چنانچہ تب سے اب تک گجرال کمیٹی کی رپورٹ لٹکتی چلی آرہی ہے ۔ سترہ برس ہوگئے اسے لٹکتے ہوئے ۔ بہت کم رپورٹیں ایسی ہوں گی جنہوں نے لٹکنے کا اتنا لمبا ریکارڈ قائم کیا ہو اور پورے سترہ برس بعد جب پچھلی حکومت کو گجرال کمیٹی کی یاد آئی تو اس نے اس بھولی بسری کمیٹی کی سفارشات کو روبعمل لانے کیلئے ایک اور کمیٹی بنادی جس نے ’’سردار جعفری کمیٹی ‘‘ کے نام سے شہرت پائی ہے ۔ یوں سمجھئے کہ رشتہ میں سردار جعفری کمیٹی ’’گجرال کمیٹی‘‘ کی بیٹی ہے ۔ اب دیکھئے اس کمیٹی کا کیا بنتا ہے اور یہ کب صاحب اولاد بنتی ہے ۔ اس کے بارے میں تو سترہ برس بعد ہی کچھ پتہ چل سکے گا کیونکہ صاحب اولاد بننے کیلئے ایک عمر تو درکار ہوتی ہی ہے۔ خیر جانے دیجئے اس قصہ کو ! مشکل تو یہ ہیکہ ارباب اقتدار نے گجرال کمیٹی کی رپورٹ کو ہمیشہ ’’عید کی شیروانی‘‘ کے طور پر استعمال کرنے کی کوشش کی ہے ۔ جب بھی مناسب موقع آتا ہے تو اس رپورٹ کو جھاڑ پونچھ کر بکسے میں سے نکالا جاتا ہے ۔ عید کی شیروانی اور گجرال کمیٹی میں فرق صرف اتنا ہے کہ عید کی شیروانی خوشی کے موقع پر نکالی جاتی ہے اور گجرال کمیٹی کی رپورٹ کو بُرے وقت یا آڑے وقت میںنکالا جاتا ہے۔ گجرال صاحب نے خود اپنے ایک انٹرویو میں ان حالات کو بیان کیا ہے جن میں کس طرح اس کمیٹی کی سفارشات کو لیت و لعل میں ڈالا گیا تھا ۔ میں اس سلسلہ میں مزید کچھ کہنا نہیں چاہتا ۔ اتنا ضرور کہنا چاہوں گا کہ گجرال کمیٹی اب اپنی مخصوص شہرت کے باعث ضرب المثل کے طورپر بھی استعمال ہونے لگی ہے۔
حضرات ! گجرال کمیٹی کی یاد آگئی تو مجھے وہ دن یاد آرہے ہیں جب اس رپورٹ کی تیاری میں ہم جیسوں کو بھی دن رات کام کرنا پڑتا تھا ۔ رپورٹ کے ایک ایک باب کے بیسیوں مسودے تیار ہوتے تھے اور ہر مسودے کی ایک ایک سطر گجرال صاحب کی نظر سے گزرتی تھی ۔ جگہ جگہ گجرال صاحب خود اپنے ہاتھ سے مسودوں میں ترمیم کرتے تھے ۔ کمیٹی نے ہندوستان کے کونے کونے کا دورہ کیا ۔ ہر جگہ گجرال صاحب موجود ہوتے تھے۔ ہر چھوٹے معاملہ کی بڑی سے بڑی تفصیل میں وہ جاتے تھے ۔