دیکھ کر خونریز منظر عالم اسلام کا
ہوگیا ثابت کہ ہم تاریخ سے واقف نہیں
انتہا پسندی کی حدت
عالم اسلام میں انتہا پسندی کی حدت برداشت کرنے والا ملک عراق اب بھی خون ریز کارروائیوں سے متاثر ہے۔ عیدالفطر کے موقع پر مصروف ترین مارکٹ میں کار بم دھماکہ سے زائد از 130 افراد ہلاک ہوئے۔ یہ خون ریز حملہ شدید تھا لیکن اس کی خبر دنیا کی بھیڑ میں دب کر رہ گئی۔ جس وقت عراق پر امریکہ نے فوج کشی کی تھی یہ سرزمین ساری دنیا کی نظروں کے سامنے لہولہان تناظر پیش کررہی تھی۔ ماضی اور حال کی صورتحال میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی مگر خبروں کی درجہ بندی میں اب عراق کے اندر ہونے والے دہشت گرد یا انتہا پسندانہ واقعات کو اہمیت نہیں دیا جارہا ہے۔ عالمی میڈیا نے عراق میں انسانیت سوز کارروائیوں کو نظرانداز کردیا۔ سرزمین عرب کے تاریخی اہمیت کا حامل ملک عراق ہر روز لہولہان ہوتا رہا ہے۔ تازہ قتل عام سے یہ واضح ہوتا ہیکہ یہاں گروہ واری جنگ کا سلسلہ طوالت اختیار کر گیا ہے۔ عیدالفطر کے موقع پر خریداروں کے ہجوم سے بھرے مارکٹ میں 3 ٹن دھماکو اشیاء سے لدی ایک کار کو دھماکہ سے اڑا دینا دولت اسلامیہ کی انسانیت سوز کارروائی ہے۔ داعش نے بغداد کے مضافات سے 20 کیلو میٹر دور خاں بھٹی سعاد تارن پر حملہ کرکے دعویٰ کیا ہیکہ اس طرح کے کئی حملے ہوں گے۔ صوبہ ویالہ میں داعش کی کارروائیوں کو ناکام بناکر جنوری میں عراق فوج سے اسے آزاد کرالیا تھا لیکن یہ آزادی عراق عوام کیلئے عید کے موقع پر موت کا پیام بن گئی۔ حیدر ال عابدی حکومت کے لئے یہ دہشت گرد کارروائیاں سحت آزمائش اور کڑا امتحان پیش کررہی ہیں۔ عراق سے امریکہ کے تخلیہ کے بعد امن کی توقع کرنے والوں نے یہ بھی خیال کیا تھا کہ اب عراق میں کوئی خون ریزی نہیں ہوگی۔ امریکہ نے تخلیہ سے قبل عراقی فوج کو اسلحہ سے لیس کرتے ہوئے انہیں تربیت دی تھی اس کے لئے کھربوں روپئے خرچ کئے گئے تھے لیکن امریکہ کی سوپرپاور طاقت یکلخت ناکام ہوگئی ہے۔ انتہا پسندانہ سرگرمیوں کے سامنے اوباما نظم و نسق کی حکمت عملی بری طرح شکست کھا رہی ہے۔ ایسے میں عالم عرب کی صورتحال ایک ایسا بھیانک منظر پیش کررہی ہے، جس میں تمام عرب ملکوں ی بے بسی واضح نظر آرہی ہے۔ عراق میں امریکی فوج کے ماضی کے تجربات کے باوجود کوئی سبق حاصل نہ کرنا سب سے بڑی غلطی ہے۔ گروہ واری طور پر منقسم اس ملک کے مستقبل کی فکر کسی کو دکھائی نہیں دیتی۔ وائیٹ ہاؤز نے ہفتہ کے دن ہوئے ہلاکت خیز دھماکہ کی مذمت کی ہے۔ یہ خون ریزی ایک انتہاء پسند گروپ کی جانب سے کی جانے والی جارحیت کی ایک اور مثال ہے۔ اس افسوسناک واقعہ کے بعد بھی امریکہ اور اس کی حمایت والی عراقی حکومت کو آگے چل کر مؤثر انتظامات کرنے کی فکر لاحق نہ ہو تو عراقی عوام کی جانوں کو داؤ پر لگانے کی غفلت کے بھیانک نتائج برآمد ہوں گے۔ داعش کے یلغار سے خطہ عرب کو بچانے کیلئے کوئی ہوشمندانہ اقدام کرنے میں تاخیر سے کام لیا گیا تو بھی سرزمین عرب کو لہولہان ہونے سے بچانے میں کامیابی نہیں ملے گی۔ امریکہ میں آئندہ سال ہونے والے صدارتی انتخابات بھی مشرق وسطیٰ کی صورتحال کے حوالے سے لڑے جائیں گے۔ اس لئے عراق کے بشمول عرب ملکوں میں خون ریزی کے واقعات امریکی صدارتی انتخابات میں کسی ایک پارٹی کی کامیابی کیلئے تعاون ثابت ہوسکتے ہیں۔ بڑی طاقتیں اکثر سرزمین عرب کے حوالے سے اپنی داخلی و خارجی پالیسیاں مرتب کرتی ہیں۔ عراق سے تخلیہ کے بعد امریکہ نے اس ملک کی جانب پلٹ کر دیکھنے کو اپنے فرائض میں شامل نہیں کیا۔ لیبیا، مصر کے بعد عراق اور شام کو خانہ جنگی میں لپیٹ کر تماشہ دیکھنے والی طاقتوں نے عراق اور شام کو واقعی اندھیروں کی نذر کرنے کا تہیہ کرلیا ہے تو یہ عالم عرب کی آنکھیں کھولنے کیلئے کافی ہے۔ داعش کا دائرہ بڑھ رہا ہے اور یہ ان ملکوں کیلئے لمحہ فکر ہے جو انتہاء پسندی کے زخم کھا کر بھی چپ ہیں۔ امریکہ کے یکے بعد دیگر صدارتی منصب سنبھالنے والے کئی ایک رہنماؤں نے اپنی خارجہ پالیسی میں جو احمقانہ حکمت عملیاں شامل کی تھیں، اس کے اثرات اب بھیانک اور تباہ کن واقعات کی شکل میں سامنے آرہے ہیں۔ سرزمین عرب پر ایسے ممالک بھی ہیں جو آنکھ بند کرکے عالمی سامراج کا ساتھ دے رہے ہیں۔ اگر یہ عرب ممالک بندوق اور کھلی جارحیت کا ساتھ دے کر اپنا موقف مضبوط کرنے میں کامیاب ہوں گے تو وہ سراسر غلطی کررہے ہیں۔ اپنے اقتدار کو محفوظ رکھنے کیلئے امریکہ کا ساتھ دینے والے عرب ملکوں کو آگے چل کر اس شدید غلط فہمی کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔