انتخابی مہم میں کرائے کی بھیڑ

جی ایچ ایم سی انتخابات، ٹی آر ایس کا وقار داؤ پر

محمد نعیم وجاہت
گریٹر حیدرآباد میونسپل کارپوریشن کے انتخابات تمام سیاسی جماعتوں بالخصوص حکمراں ٹی آر ایس کے لئے وقار کا مسئلہ بن گئے ہیں، جب کہ ان انتخابات میں کامیابی کے بغیر ٹی آر ایس کی اب تک کی ساری کامیابی نامکمل سمجھی جائے گی۔ جی ایچ ایم سی انتخابات میں مسلمان اور سیٹلرس فیصلہ کن موقف رکھتے ہیں۔ ہر جماعت اپنی کامیابی کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہے، مگر کانگریس، تلگودیشم اور بی جے پی کے لئے باغی امیدوار اسپیڈ بریکر (رکاوٹ) ثابت ہوسکتے ہیں۔
اب تک کی انتخابی مہم کا جائزہ لیا جائے تو ٹی آر ایس سب سے آگے ہے اور بلدی انتخابات کی کمان اپنے ہاتھ میں رکھنے والے ریاستی وزیر کے ٹی آر نے 90 فیصد باغی امیدواروں کو مقابلہ سے دست بردار کراتے ہوئے پارٹی امیدواروں کے لئے بہت بڑی راحت فراہم کی ہے۔ حکمراں جماعت کے 12 وزراء، 20 سے زائد ارکان اسمبلی اور 7 ایم ایل سیز پارٹی امیدواروں کی انتخابی مہم میں حصہ لیتے ہوئے گھر گھر پہنچ کر ٹی آر ایس کے لئے ووٹ طلب کر رہے ہیں، جب کہ کانگریس، تلگودیشم اور بی جے پی نے برائے نام انتخابی مہم کا آغاز کیا ہے۔ تینوں جماعتوں کے ٹکٹ سے محروم ہونے والے قائدین کی ہنگامہ آرائی کی وجہ سے ان پارٹیوں کے اہم قائدین انتخابی مہم کے آغاز میں پیچھے رہ گئے۔

’’شہر ہمارا، میئر ہمارا‘‘ کا نعرہ دینے والی مجلس نے میئر کا عہدہ حاصل کرنے کے لئے مطلوبہ افراد سے کم امیدواروں کو انتخابی میدان میں اتارا ہے، جس سے مجلس کی سیاسی قوت کا اندازہ ہوتا ہے۔ پہلی مرتبہ مجلس کو بغاوت اور ناراضگیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ ٹکٹ سے محرومی کا اشارہ ملنے پر مجلس کے کئی قائدین اور سابق کارپوریٹرس کانگریس سے رابطہ میں تھے۔ سابق کارپوریٹر محمد غوث اور مجلس کے دیگر قائدین کی کانگریس میں شمولیت کے بعد مجلس نے اپنی حکمت عملی تبدیل کی اور کانگریس کی طرف جھکاؤ دیکھنے کے بعد اپنے بیشتر قائدین کو ٹکٹ دیا یا پھر انھیں معاون ارکان بنانے کا تیقن دیا۔ مجلس سے کانگریس میں شامل ہونے والے محمد غوث نے اپنی شریک حیات اور فرزند کو بھی انتخابی میدان میں اتارکر شاندار انتخابی مہم کے ذریعہ مجلس کے لئے بہت بڑا مسئلہ کھڑا کردیا ہے۔
قائد اپوزیشن تلنگانہ قانون ساز کونسل محمد علی شبیر پرانے شہر میں کانگریس کی انتخابی مہم میں حصہ لے کر پارٹی کیڈر میں جوش و خروش پیدا کر رہے ہیں۔ مجلس سے مفاہمت کے بغیر پرانے شہر میں کانگریس پہلی مرتبہ تنہا مقابلہ کر رہی ہے، تاہم اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ مسلمانوں اور سیٹلرس کے ووٹ کافی اہمیت رکھتے ہیں۔ جو بھی جماعت ان کے ووٹ حاصل کرے گی، وہ میئر کے انتخاب میں کلیدی رول ادا کرے گی۔ 2014ء کے عام انتخابات کی طرح تلگودیشم اور بی جے پی نے جی ایچ ایم سی انتخابات میں بھی سیاسی اتحاد کیا ہے۔ تلگودیشم 87 اور بی جے پی نے 63 بلدی حلقوں سے مقابلہ کا فیصلہ کیا ہے، تاہم بلدی ٹکٹوں سے محروم ہونے والے دونوں جماعتوں کے قائدین نے اپنی اپنی پارٹی کے خلاف علم بغاوت بلند کردیا۔ پارٹی ہیڈ کوارٹرس پر توڑ پھوڑ کی اور اتحاد کو پس پشت ڈال کر زیادہ سے زیادہ حلقوں سے اپنے امیدواروں کو میدان میں اتارا، جب کہ لمحۂ آخر میں نشستوں کا تبادلہ کرکے دونوں جماعتوں نے اپنے قائدین کو مطمئن کرنے کی کوشش کی، اس کے باوجود کئی باغی قائدین مقابلہ میں کود پڑے۔ دونوں جماعتوں نے 12 حلقوں میں دوستانہ مقابلہ کا اعلان کیا ہے، تاہم باغی امیدوار دونوں جماعتوں کے لئے درد سر بنے ہوئے ہیں۔ ٹکٹوں کی تقسیم اور بلدی حلقہ جات کا صحیح انتخاب نہ ہونے کا الزام عائد کرتے ہوئے بی جے پی کے سابق رکن اسمبلی پریم سنگھ راٹھور اور بی جے پی ضلع رنگا ریڈی کے صدر پارٹی سے بطور احتجاج مستعفی ہو گئے۔ گوشہ محل کے بی جے پی رکن اسمبلی راجہ سنگھ نے مرکزی وزیر بنڈارو دتاتریہ اور صدر تلنگانہ بی جے پی کشن ریڈی پر ٹکٹس کی فروختگی کا الزام عائد کرتے ہوئے پارٹی امیدواروں کے حق میں انتخابی مہم نہ چلانے کا اعلان کیا ہے، اس طرح تلگودیشم اور بی جے پی کے خیموں میں نشستوں کی تقسیم کے معاملے میں ناراضگی پائی جاتی ہے۔

سی پی آئی، سی پی ایم، لوک ستہ اور سی پی ایم ایل عظیم اتحاد تشکیل دے کر انتخابی میدان میں کود پڑی ہیں۔ 680 آزاد امیدوار بھی انتخابی میدان میں ہیں، جو اہم جماعتوں کی کامیابی میں رکاوٹ بن سکتے ہیں۔ جی ایچ ایم سی کے ہر بلدی ڈیویژن میں 30 تا 40 ہزار ووٹرس ہیں، لہذا ووٹوں کی تقسیم سے سیاسی منظر تبدیل ہونے کے امکانات ہیں، جس کی وجہ سے اہم جماعتوں کے قائدین رائے دہی پر اثرانداز ہونے والے آزاد امیدواروں کو سمجھانے اور خوش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ موجودہ سیاسی صورت حال سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ کسی بھی سیاسی جماعت کو مکمل اکثریت نہیں حاصل ہوگی۔ ہر جماعت مختلف اسمبلی حلقہ جات میں اپنے اپنے امیدواروں کی کامیابی کے لئے خصوصی حکمت عملی تیار کرنے میں مصروف ہے، فرق صرف اتنا ہے کہ حکمراں ٹی آر ایس گزشتہ ایک ماہ کے دوران ڈبل بیڈ روم اسکیم اور دیگر ترقیاتی و تعمیراتی کاموں کا سنگ بنیاد رکھ کر عوام میں اپنی سرگرمی ظاہر کر رہی ہے۔

تمام جماعتوں کا جائزہ لیا جائے تو ٹی آر ایس انتخابی مہم میں دیگر جماعتوں سے سبقت حاصل کی ہوئی ہے، جب کہ دیگر جماعتیں ہنوز منصوبہ بندی کر رہی ہیں۔ پرچہ جات نامزدگی سے دست برداری کی آخری تاریخ کے بعد امیدواروں کے بارے میں تجسس ختم ہو گیا۔ تمام امیدوار اپنے اپنے حلقوں میں پدیاترا، کارنر میٹنگس اور ریلی منظم کرکے عوام کی تائید حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ جی ایچ ایم سی انتخابات میں تقریباً 300 کروڑ روپئے خرچ ہونے کا اندازہ لگایا جا رہا ہے، کیونکہ ہر جماعت اپنی کامیابی کے لئے بڑے بڑے منصوبے بنا رہی ہے۔ یہ بھی سنا گیا ہے کہ باغی امیدواروں کو انتخابی میدان سے ہٹانے کے لئے انھیں موٹی رقم دی جا رہی ہے اور ناراض قائدین کو مناکر انھیں خوش کیا جا رہا ہے۔ ہر امیدوار اپنے ڈیویژن کے کارکنوں کے لئے دو وقت کا کھانا اور روز کا خرچ دے رہا ہے۔ علاوہ ازیں اس موقع پر بے روزگار افراد اور مزدوروں کی طلب میں اضافہ ہو گیا ہے، کیونکہ ہر امیدوار پدیاترا اور ریلی میں بھیڑ جمع کرنے کے لئے کرایہ پر لوگوں کی خدمات حاصل کر رہا ہے، جب کہ بینرس، پوسٹرس اور اشتہارات کے اخراجات الگ ہیں۔ جس طرح ہر چیز کا موسم ہوتا ہے، اسی طرح بے روزگار اور مزدوروں کے لئے الیکشن کا موسم نفع بخش ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں رائے دہندوں کی تائید حاصل کرنے کے لئے سیاسی تقاضوں کو پورا کرنا ہر امیدوار کی ذمہ داری ہے۔ رائے دہندے بھی کافی ہوشیار ہو گئے ہیں، ہر جماعت اور ہر امیدوار سے رابطہ بنائے ہوئے ہیں اور ہر ایک کو تیقن بھی دے رہے ہیں، مگر ووٹ کس کو دیں گے، اس کی کوئی ضمانت نہیں ہے۔ عوام کا کہنا ہے کہ بائک پر چلنے والے امیدوار کامیابی کے بعد پانچ سال میں کار نشین ہو جاتے ہیں، سماج میں ان کا رتبہ بڑھتا ہے، عالیشان مکانات اور بینک بیلنس میں اضافہ ہوتا ہے، لہذا اب رائے دہندے بھی ہوشیار ہو گئے ہیں۔

فی الوقت ہر سیاسی جماعت سرگرم ہے، بی جے پی مرکزی وزراء اور قومی قائدین کو انتخابی مہم میں اتارنے کی تیاری کر رہی ہے۔ تلگودیشم کے سربراہ و چیف منسٹر آندھرا پردیش این چندرا بابو نائیڈو اور ان کے فرزند لوکیش اپنی پارٹی کی اور کانگریس قائدین ڈگ وجے سنگھ، غلام نبی آزاد اور دیگر کانگریس قائدین اپنی پارٹی کی حکمت عملی تیار کرنے میں مصروف ہیں، جب کہ صدر مجلس اسد الدین اویسی اور قائد مقننہ اکبر الدین اویسی مجلس کی انتخابی مہم چلا رہے ہیں۔
2 فروری کو رائے دہی اور 5 فروری کو ووٹوں کی گنتی ہوگی، جب کہ 6 فروری کو میئر اور ڈپٹی میئر کے انتخاب کے لئے اعلامیہ جاری ہوگا اور پھر 11 فروری کو ان دونوں عہدوں کے لئے رائے دہی ہوگی۔ مذکورہ عہدوں کے لئے 150 بلدی حلقوں سے منتخب ہونے والوں کے علاوہ 60 ارکان اسمبلی، ارکان پارلیمنٹ، ارکان راجیہ سبھا اور ارکان قانون ساز کونسل بحیثیت معاون ارکان حق رائے دہی سے استفادہ کریں گے، یعنی 210 کے منجملہ جس شخص کو 106 ارکان کے ووٹ حاصل ہوں گے، وہی میئر منتخب ہوگا۔