تلنگانہ میں سیاسی جماعتوں کے اعلیٰ قائدین کی انتخابی مہم میں شمولیت کے بعد انتخابی مہم عروج پر پہنچ چکی ہے اور 30 اپریل کو تمام امیدواروں کی قسمت کا فیصلہ الکٹرانک ووٹنگ مشین میں محفوظ ہو جائے گا۔ سارے ملک میں سب سے زیادہ ریاست میں اب تک 120 کروڑ روپئے تلاشی مہم کے دوران پولیس کے ہاتھ لگے ہیں، جس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ تلنگانہ کی انتخابی مہم میں سیاسی جماعتیں اور امیدوار پانی کی طرح پیسہ بہا رہے ہیں۔ ملک کے دس سب زیادہ دولت مندوں میں 6 کا تعلق آندھرا پردیش سے ہے۔
ریاست آندھرا پردیش کی 2 جون کو تقسیم ہو جائے گی اور علحدہ تلنگانہ ریاست قائم ہو جائے گی۔ تلنگانہ کے 17 لوک سبھا اور 119 اسمبلی حلقہ جات میں 30 اپریل کو، جب کہ 7 مئی کو سیما۔ آندھرا کے 25 لوک سبھا اور 175 اسمبلی حلقوں کے لئے انتخابات ہوں گے۔ علاقہ تلنگانہ میں سربراہ ٹی آر ایس کے چندر شیکھر راؤ نے انتخابی مہم چلانے میں دیگر جماعتوں کے قائدین پر سبقت حاصل کرلی ہے۔ ان کے ہر جلسہ عام میں کم از کم ایک لاکھ عوام شریک ہو رہے ہیں، جب کہ دوسرے نمبر پر کانگریس ہے۔ تلنگانہ میں کانگریس کے پاس کوئی بااثر قائد نہیں ہے، مرکزی وزیر جے رام رمیش نے علحدہ تلنگانہ ریاست کی تشکیل میں اہم رول ادا کیا تھا، وہ اس وقت تلنگانہ کا دورہ کرتے ہوئے کانگریس کارکنوں میں نیا جوش و خروش پیدا کرنے میں مصروف ہیں، تاہم کانگریس کے لئے راہول گاندھی سب سے اعلیٰ مہم جو ثابت ہوئے ہیں۔ علاوہ ازیں سونیا گاندھی اور وزیر اعظم منموہن سنگھ کے دورے بھی کانگریس کے لئے سازگار ثابت ہونے کی امیدیں کی جا رہی ہیں، جب کہ 16 مئی کو ساری حقیقت کھل کر سامنے آجائے گی۔
تلنگانہ میں پہلے رائے دہی ہوگی، تاہم صدر تلگودیشم چندرا بابو نائیڈو اپنی ساری توجہ سیما۔ آندھرا پر مرکوز کئے ہوئے ہیں۔ تلنگانہ میں بی جے پی سے اتحاد اور نریندر مودی کے برانڈ امیج سے فائدہ ہونے کی توقع کر رہے ہیں۔ نریندر مودی ایک ہی دن میں علاقہ تلنگانہ کے چار جلسوں سے خطاب کرکے لوٹ گئے، جب کہ تلگودیشم اور بی جے پی فلم اسٹار پون کلیان پر انحصار کر رہی ہیں۔کانگریس پارٹی علحدہ تلنگانہ ریاست کی تشکیل کا دعویٰ کر رہی ہے، ٹی آر ایس اپنی تحریک اور جدوجہد کے سبب تلنگانہ کی تشکیل کا ادعا کر رہی ہے، جب کہ بی جے پی کا یہ کہنا ہے کہ اگر ہم لوک سبھا اور راجیہ سبھا میں تلنگانہ کی تائید نہ کرتے تو تلنگانہ ریاست تشکیل نہ پاتی۔
جلسہ عام کے انعقاد میں ٹی آر ایس نے تمام جماعتوں کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ انتخابی مہم کی ذمہ داری سنبھالنے والے سربراہ ٹی آر ایس کے چندر شیکھر راؤ اپنے مخالفین کو تنقید کا نشانہ بناکر اضلاع میں پارٹی کی انتخابی مہم کے ذریعہ عوام کا دل جیتنا چاہتے ہیں۔ علاوہ ازیں کانگریس سے اتحاد کے سارے دروازے بند ہونے اور تلگودیشم و بی جے پی اتحاد کے بعد اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کو راغب کرنے کے لئے مابعد انتخابات تیسرے محاذ میں شمولیت کا اعلان کر رہے ہیں۔ دراصل چندر شیکھر راؤ مخالف حکومت لہر اور تلگودیشم۔ بی جے پی اتحاد سے اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کی ناراضگی کا فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں، تاہم ٹی آر ایس پر بھروسہ نہیں کیا جاسکتا۔ اگر مرکز میں این ڈی اے حکومت تشکیل پاتی ہے تو تلنگانہ کی ترقی کا بہانہ بناکر صدر ٹی آر ایس، این ڈی اے کی تائید کرسکتے ہیں۔ 2009ء میں بھی انھوں نے رائے دہی کے بعد این ڈی اے کی تائید کا اعلان کیا تھا۔
فی الوقت ہر سیاسی جماعت اُلجھن کا شکار ہے، بظاہر ہر جماعت تشکیل حکومت کا ادعا کر رہی ہے، مگر ابھی سے کچھ کہنا عجلت پسندی ہوگی، کیونکہ کانگریس اور تلگودیشم کے بڑے بڑے قائدین صرف اپنے اپنے اسمبلی حلقوں میں انتخابی مہم چلانے میں مصروف ہیں۔ انھیں ٹی آر ایس امیدواروں سے اتنا سخت مقابلہ ہے کہ وہ اپنے حلقوں کو چھوڑنے کی ہمت نہیں کر رہے ہیں۔تلگودیشم نے نہ صرف بی جے پی سے سیاسی اتحاد کیا ہے، بلکہ مسلمانوں کو نظرانداز کرنے والے صدر تلگودیشم نے مزید دو قدم آگے بڑھتے ہوئے حال ہی میں تلگودیشم میں شامل ہونے والے آر ایس ایس کے ہمدرد بی سی قائد کرشنیا کو تلگودیشم چیف منسٹر کی حیثیت سے پیش کیا ہے۔
شاید ہندوتوا طاقتوں کے اشارے پر چندرا بابو نائیڈو نے یہ فیصلہ کیا ہے یا انھیں اپنی پارٹی میں اس عہدہ کا اہل کوئی قائد نظر نہیں آیا؟ جس کی وضاحت صرف پارٹی کرسکتی ہے۔ بی جے پی نے اتحاد سے قبل تلگودیشم کے سامنے یہ شرط رکھی تھی کہ ہندوتوا کے حامی کرشنیا کو چیف منسٹر امیدوار بنانے پر ہی وہ تلگودیشم سے اتحاد کرے گی۔ تلگودیشم و بی جے پی اتحاد کھٹائی میں پڑ گیا تھا، بی جے پی چیف منسٹر کا عہدہ اپنے حق میں چھوڑنے یا تلگودیشم سے زیادہ نشستیں اسے (بی جے پی کو) دینے پر زور دے رہی تھی، تاہم تلگودیشم اور بی جے پی کے درمیان جو معاہدہ ہوا اس کو خفیہ رکھا گیا ہے۔ 30 سال سے تلگودیشم میں خدمات انجام دینے والے بی سی قائدین کو نظرانداز کرکے صرف 30 دن قبل پارٹی میں شامل ہونے والے مسٹر کرشنیا کو صدر تلگودیشم نے چیف منسٹر امیدوار بنادیا۔ مگر افسوس اس بات کا ہے کہ تلگودیشم کے لئے اپنی زندگی صرف کرنے والے قائدین نے اس کو اپنی توہین نہیں سمجھی اور نہ ہی کسی نے اس فیصلہ پر اعتراض کیا۔ اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ تلگودیشم پارٹی میں کتنی جمہوریت ہے؟۔تلنگانہ عوام بالخصوص مسلمان باشعور ہیں، انھیں کانگریس کی غلطیوں اور تلگودیشم کی شرارت کے ساتھ ٹی آر ایس کے وعدوں اور اس سے انحراف کا علم ہے، بار بار رائے دہندوں بالخصوص مسلمانوں کو جھنجھوڑنے کی ضرورت نہیں ہے، کیونکہ یہ انتخابات تلنگانہ کے روشن مستقبل کی بنیاد رکھنے والے ہیں، لہذا 30 اپریل کو اُٹھایا جانے والا قدم آئندہ 5 سال کے لئے محفوظ ہو جائے گا۔ 2009ء کے عام انتخابات میں حیدرآباد کے علاوہ تلنگانہ کے کسی بھی ضلع سے کسی بھی جماعت کا ایک بھی مسلم قائد اسمبلی یا لوک سبھا نہیں پہنچ سکا۔ سماجی انصاف کا نعرہ بلند کرنے والی جماعتوں نے آبادی کے تناسب سے مسلمانوں کو ٹکٹ نہیں دیا، لہذا مسلمانوں کو بھی منظم ہونے اور ایوانوں میں اضلاع سے مسلم نمائندگی بڑھانے کے لئے سنجیدگی سے غور کرنا چاہئے۔ سیکولر جماعتوں یا سیکولر نظریات کے حامل امیدواروں کو منتخب کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ ترقی و بہبود کی رفتار تیز ہو اور امن و امان برقرار رہ سکے۔
تمام سیاسی جماعتوں کے انتخابی منشور منظر عام پر آچکے ہیں، سیاسی جماعتوں کے ماضی کے ریکارڈ، ان کی کار کردگی اور تجربہ کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے حق رائے دہی کا استعمال کرنا چاہئے۔ شہر حیدرآباد کے علاوہ اضلاع میں بھی چند ایسے حلقہ جات ہیں، جہاں اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے ووٹ تقسیم ہونے سے بی جے پی کو فائدہ پہنچ سکتا ہے، لہذا ایسے حلقہ جات کی نشاندہی کی جانی چاہئے۔ پھر آپس میں صلاح و مشورہ کرتے ہوئے سیکولر امیدواروں کا انتخابات کیا جانا چاہئے۔ہر سیاسی جماعت خود کو بہتر اور دوسری جماعت کو خراب ظاہر کرنے کی کوشش کر رہی ہے، مگر پسند اور ناپسند کا فیصلہ رائے دہندوں کو کرنا چاہئے۔ جذبات میں بہنا عقلمندی نہیں ہے، جب کہ سنجیدگی کے اظہار میں سمجھداری ہے۔ اگر صحیح وقت پر صحیح فیصلہ نہیں کیا گیا تو رائے دہندوں کا یہ عمل پانچ سال سزا کے مترداف ہوگا۔ مسلمان اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کرکے حکمرانوں سے اپنی بات منوا سکتے ہیں، لہذا اب یہ فیصلہ خود ہمارے اپنے ہاتھ میں ہے۔انتخابی نتائج کے بعد علحدہ ریاست کے نئے تقاضے ہوں گے، ترقی و بہبود کے لئے نئی نئی حکمت عملی تیار ہوگی، لہذا ان تمام چیزوں میں سماج کے تمام طبقات کو حصہ دار بننا چاہئے، تاہم ایوانوں کے لئے تعلیم یافتہ، تجربہ کار اور سیکولر نظریات کے حامل امیدواروں کا انتخاب عوام کی ذمہ داری ہے۔
نئی جماعت تشکیل دینے والے پون کلیان نے نہ تو خود مقابلہ کیا اور نہ ہی اپنی پارٹی کے کسی امیدوار کو انتخابی میدان میں اتارا۔ ریاست کی تقسیم کا ذمہ دار کانگریس اور ٹی آر ایس کو قرار دینے والے پون کلیان بل کی تائید کرنے والی بی جے پی اور تلگودیشم کو ریاست کی تقسیم کا ذمہ دار نہیں مانتے۔ انھوں نے تلنگانہ اور سیما۔ آندھرا میں تلگودیشم اور بی جے پی اتحاد کی انتخابی مہم میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ وہ نریندر مودی کے دورۂ حیدرآباد کے موقع پر چندرا بابو نائیڈو اور نریندر مودی کے ساتھ جلسوں میں بھی شریک ہوچکے ہیں۔ پون کلیان خود کو نہ صرف سیکولر نظریات کا حامل قرار دے رہے ہیں، بلکہ گجرات فسادات کو فراموش کرکے نریندر مودی کو وزیر اعظم بنانے کی تائید بھی کر رہے ہیں۔