غضنفر علی خان
آپ جب یہ کالم پڑھ رہے ہوں گے تب 5 ریاستوں میں انتخابی مہم شائد ختم ہوجائے ۔ ان ذیلی انتخابات میں ہر پارٹی بشمول بی جے پی نے اپنا پورا زور لگادیا۔ چھوٹی بڑی پارٹیوں نے انتخابی منشور میں خوب جنت دکھائی ۔ یہ تو خیر کوئی بات نہیں ، انتخابی منشورکا جاری کرنے کا کوئی تعجب کی بات نہیں۔ ہر پارٹی یہ کرتی ہے اور اس کو ایسا کرنا بھی چاہئے لیکن مہم کے دوران جو تقریریں ہوئیں، ان کا معیار انتہائی گھٹیا اور پوری طرح بد اخلاقی کا نمونہ رہیں۔ اس میں ایسے الفاظ استعمال کئے گئے جنہیں عام پبلک پلیٹ فارم پر استعمال نہیں کیا جاسکتا۔ ا یک خاص بات جو عوام نے محسوس کی وہ یہ کہ وزیراعظم مودی کو جتنی گالیاں اس مہم کے دوران دی گئیں اتنی کسی سابق وزیراعظم کو کبھی نہیں دی گئیں اور اپوزیشن خاص کر کانگریس پار ٹی کو جواباً عرض ہے کہ کسی طور پر وزیراعظم اور بی جے پی کے صدر امیت شاہ نے جی بھر کر اپوزیشن خاص طور پر کانگریس پارٹی کو بداخلاقی ، گالی گلوج اور انوکھے خطابات سے نوازا ۔ حساب برابر ہوگیا ۔ اب کم از کم بی جے پی کانگریس سے یہ گلہ شکوہ نہیں کرسکتی کہ کانگریس پا رٹی کے لیڈروں نے بھی اینٹ کا جواب پتھر سے دیا ۔ بہرحال اس مہم میں انتخابی جلسوں کے پلیٹ فارم سے عوام کو کچھ اور تو نہیں ملا نہ کہیں ان کے مسائل سنے گئے نہ ان کو اہمیت دی گئی ۔ کبھی کبھی بطور تبدیلیٔ ذائقہ کچھ برسبیل تذکرہ ایسی بات ہوئی ہے تو اس کا کوئی ذکر بھی بے محل ہوگا ۔ پہلے جب شرفاء انتخابات لڑتے تھے تو تہذیب، اخلاق اور دل آزاری کی کوئی خلاف ورزی نہیں ہوتی تھی ۔ اب معاملہ برعکس ہے ۔ تہذیب ، اخلاق کی خلاف کوئی اگر کچھ نہیں کہتا تو وہ بے مزہ مقرر کہلاتا ہے ۔ انتخابی تقریر میں چاشنی پیدا کرنے کو ا یک فن سمجھا جاتا ہے اور جتنے لفظ اخلاق کے دائرہ سے باہر ہوتے ہیں جن کا استعمال کبھی باعث شرم سمجھا جاتا تھا وہی آج کے کسی بھی لیڈر کی تقریر میں خوب سمجھا جاتا ہے ۔ بد کلامی ، گالی گلوج اور بے بنیاد الزامات عائد کرنا مقابل کی پارٹی یا کسی لیڈر کا حق سمجھا جارہا ہے ۔ اس حمام میں سب ہی بے لباس ہیں۔ کوئی کسی سے شرماتا نہیں کیونکہ سب کے سب سیاسی لیڈر اس بے جا حق کو بجا حق سمھنے لگے ہیں۔ البتہ تعجب کی بات یہ ہے کہ سنجیدہ مزاج کے جو لیڈر ہیں وہ آٹے میں نمک کے برابر ہیں ، ان کی تعداد کم بلکہ ختم ہوچکی ہے اور ’’ چلو تم اُدھر کو ہوا ہو جدھرکی ‘‘ کے اصول کو سنجیدہ طبیع لیڈر بھی اپنا رہے ہیں۔ مودی چوروں کے سردار ہیں وہ چوکیدار نہیں بلکہ چوروں کے سردار ہیں۔ لیجئے نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے ۔ مودی کو ان القاب سے یاد کیا جارہا ہے ۔
بات صحیح ہے یا غلط اس کے کہنے کے بھی طریقے ہوتے ہیں ۔ گالی دینا یا ایسے قابل اعتراض الفاظ کا استعمال تو کسی صورت میں نہیں کیا جاسکتا۔ مودی جی نے ا پنے مقام اور مرتبہ کا لحاظ کئے بغیر کانگریس کو لٹیروں کی جماعت قرار دیا تو کانگریس کے لیڈر نے مودی کے بارے میں کہہ دیا کہ وہ ’’ان پڑھ اور گنوار ہے‘‘ ان پر بھروسہ نہیں کیا جاسکتا ۔ ایک اور سنجیدہ لیڈر منی شنکر ایر نے کہا کہ (وہ بھی انتخابات سے بہت پہلے) مودی نچ لیڈر ہیں ، وہ کبھی ہندوستان کے وزیراعظم نہیں بن سکتے ، نہیں بن سکتے ، نہیں بن سکتے ۔ بی جے پی نے کانگریس پارٹی پر الزام عائد کیا کہ اس نے ملک میں لوٹ مار کرنے اور ہندوستان کو غریب بنانے کا ہی کام کیا ہے ۔ برسوں کی قیادت اور تحریک آزادی کی جدوجہد کو فراموش کرتے ہوئے مودی نے بیرون ممالک کے دوروں میں یہ بھی کہا کہ کانگریس پا رٹی کے لیڈروں نے اصل سورما سردار پٹیل کو نظر انداز کر کے پنڈت نہرو کو ابھارا ہے۔ یہ بھی سراسر غلط الزام ہے اور کسی ملک کے وزیراعظم کسی غیر ملک کے دورہ کے موقع پر اپنے ملک کی سابقہ حکومتوں کے خلاف ایسے الزامات عائد کرے بھلا کسی طرح سے وزیراعظم مودی کو زیب دیتا ہے ، جب مرکزی اہمیت کے لیڈر اس قسم کے الفاظ استعمال کرتے ہیں اور اس کو جائز قرار دے کر بطور حق استعمال کرتے ہیں تو ان پارٹیوں کے ریاستی لیڈر کیوں اپنے مرکزی لیڈروں کی تقلید نہ کریں، اس کا بھی اثر دیکھا گیا ۔ خود ہماری ریاستی کانگریس کے صدر اتم کمار ریڈی نے اپنے سیاسی حریف اور کارگزار چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ کو بروکر کے گھٹیا خطاب سے نوازا۔ اس ریمارک سے پہلے چندر شیکھر راؤ کانگریس کے ریاستی صدر کو چیلنج کرتے ہوئے کہا کہ ’’اگر وہ مرد ہیں تو اپنے الزامات کو ثابت کریں۔ اب دیکھئے آپ کے سیاسی لیڈرشپ صلاحیت کو اب مردانہ طاقت کے پیمانے سے ناپنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ غرض اس انتخابی مہم میں سیاسی قائدین نے ایسے القابات سے ایک دوسرے کو نوازا کہ انہیں سن کر معمولی شہری بھی حیران ہورہے ہیں۔ آخر اس الفاظ کے استعمال کو بہ جاری رکھنے والے لوگوں کو نہ صرف جگہ دی بلکہ اعلیٰ عہدوں پر فائز کیا ۔ آج کوئی پارٹی یہ دعویٰ نہیں کرسکتی ہے کہ اس کی صفوں میں کوئی مجرم ریکارڈ رکھنے والا لیڈر نہیں ہے ۔ ایک وہ زمانہ تھا کہ سوشلسٹ لیڈر آنجہانی جئے پرکاش نارائن نے اپنی کوشش سے چمبل وادی کے ڈاکوؤں کو ہتھیار ڈالنے کی کامیاب کوشش کی تھی اور ڈاکوؤں نے خود کو قومی دھارے میں شامل کرلیا تھا ۔ ایک مرتبہ جئے پرکاش نارائن سے ان کے پرسنل سکریٹری نے کہا کہ ’’جن ڈاکوؤں کو آپ نے سدھار دیا ، ان کو راجیہ سبھا کا رکن کیوں نہیں بنادیتے، اس پر جئے پرکاش جی نے اپنے سکریٹری سے کہا کہ یہ ڈاکو تو سدھر گئے ہیں، اب پھر انہیں سیاسی دلدل میں تم کیوں لانا چاہتے ہیں۔ اب تو سارے لیڈر سارے سیاست داں ایک ہی تھالی کے چٹے بٹے ہوتے ہیں۔ یہاں کیا اخلاقی اصول اور صاف کردار ہونے کی بات ہوسکتی ہے ۔ اس وقت کا انتظار کرلیجئے جبکہ اچھے لوگ ہماری سیاست میں آئیں اور عوام کی خدمت انجام دیں۔