انتخابی امتحان میں سیکولر جماعتیں ناکام

محمد مصطفی علی سروری

’’جناب! ٓج کے سنڈے ایڈیشن میں آپ کا مضمون پڑھنے کو ملا، جس میں آپ نے نریندر مودی کو بحیثیت وزیراعظم قبول کرلینے کا مشورہ دیا۔ آپ کے مضمون کو پڑھنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ کی ہر بات سے اتفاق کرلیا جائے، لیکن آپ اس سوال کا جواب دیجئے کہ صرف اُردو ہی نہیں، انگریزی اخبارات میں بھی ایسی خبریں شائع ہوئی ہیں جس میں الکٹرانک ووٹنگ مشینوں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان اُٹھائے گئے ہیں۔ میرے لئے یہ بات سمجھ سے باہر ہے کہ بی جے پی آخر کیسے اتنی بھاری اکثریت حاصل کرسکتی ہے؟‘‘

یہ اور ایسے ہی کئی لوگوں نے گزشتہ اتوار کے کالم ’’دھول چہرے پر تھی اور ہم آئینہ صاف کرتے رہے‘‘ کو پڑھنے کے بعد اپنے خیالات سے مجھے واقف کروایا۔ اسی پس منظر میں میں آج کے اس کالم میں عام انتخابات 2014ء کے لوک سبھا کے انتخابات کا اعداد و شمار کی روشنی میں تجزیہ کرنے کی کوشش کررہا ہوں تاکہ ہم مسلمان اس بات کو تسلیم کرلیں کہ واقعی، بی جے پی نے قطعی اکثریت حاصل کی ہے۔ یہ ہمارا المیہ ہے کہ ہم زمینی حقیقتوں سے باخبر نہیں تھے۔سب سے پہلے میں ملک کی سب سے بڑی ریاست اترپردیش کا ذکر کرنا چاہوں گا جہاں پر لوک سبھا کی جملہ سیٹس 80 ہیں جو کہ ملک کی کسی اور ریاست میں نہیں۔ اترپردیش میں اس بار جن غیر بی جے پی سیاسی جماعتوں نے الیکشن لڑا، ان میں سے جب ہم بڑی سیکولر جماعتوں کی فہرست مرتب کریں تو ان میں کانگریس، سماج وادی پارٹی، بہوجن سماج پارٹی، اجیت سنگھ کی آر ایل ڈی اور پیس پارٹی قابل ذکر ہیں۔ یوپی کی 80 سیٹوں میں سے بی جے پی نے 71 سیٹس جیت لی جب کہ سماج وادی پارٹی کو پانچ سیٹوں پر کامیابی ملی اور کانگریس نے 2 سیٹوں اور اپنادل نے 2 سیٹوں پر کامیابی حاصل کی۔بی جے پی کو چھوڑکر تمام ہی سیاسی جماعتیں اپنے آپ کو سیکولر اقدار کی حامل اور سیکولرزم پر یقین رکھنے والی قرار دیتی ہیں۔ اگر ہم بی جے پی کو یوپی میں ملنے والے ووٹوں کا فیصد دیکھیں تو پتہ چلے گا کہ بی جے پی نے بیالیس اعشاریہ تین (42.3) فیصدی ووٹ حاصل کئے۔ سماج وادی پارٹی نے 22.2، بی ایس پی نے 19.6 اور کانگریس نے 7.5 فیصدی ووٹ حاصل کئے۔ اب ہم بی جے پی اور دیگر سیکولر جماعتوں کو ملنے والے ووٹوں کے تناسب کا تقابل کریں تو منظر صاف ہوجائے گا۔

بی جے پی اور سیکولر جماعتوں کے ووٹوں کا تناسب
بی جے پی

42.3%
سماج وادی پارٹی
22.2%

بہوجن سماج پارٹی
19.6%
54.7%
انڈین نیشنل کانگریس
7.5%

مندرجہ بالا جدول سے بالکل واضح ہے کہ سیکولر جماعتوں میں اتحاد نہ ہونے سے بی جے پی کو فائدہ ہوا اور وہ یوپی میں سب سے زیادہ سیٹوں پر کامیاب ہوگئی۔ اس لئے اس نقطۂ نظر کو اور واضح کرنے کے لئے میں ذیل میں اترپردیش لوک سبھا سیٹوں کی ایسی مثالیں دینا چاہوں گا جہاں پر سیکولر رائے دہندے بُری طرح منتشر ہوگئے۔ ان حلقوں میں رام پور، سلطان پور، علی گڑھ، الٰہ آباد، امبیڈکر نگر، امروہہ، باغپت، سنبھل، مرادآباد، میروت اور سہارن پور قابل ذکر ہیں۔ ان لوک سبھا حلقوں میں بی جے پی کے امیدواروں کو ملنے والے ووٹ دیگر سیکولر جماعتوں کے مشترکہ ووٹوں سے کافی کم ہیں۔سنبھل حلقہ لوک سبھا میں بی جے پی کے ستیہ پال سنگھ نے 3,60,242 ووٹ حاصل کئے اور کامیاب قرار پائے جب کہ ان کے مقابل سماج وادی پارٹی کے ڈاکٹر شفیق الرحمن برق نے 3,55,068 ووٹ حاصل کئے اور بہوجن سماج پارٹی کے عقیل الرحمن خان نے 2,52,640 ووٹ حاصل کئے ۔اس طرح مرادآباد کے لوک سبھا حلقہ سے بی جے پی کے کنور سارویش کمار نے 4,85,224 ووٹ حاصل کرکے کامیابی حاصل کی اور اسی حلقہ میں سماج وادی پارٹی نے 3,97,720 ووٹ اور بہوجن سماج پارٹی نے 1,60,945 ووٹ حاصل کئے۔ ایس پی اور بی ایس پی کے ووٹ کو جمع کیا جائے تو سیکولر ووٹوں کی تعداد 5,58,665 ہوتی ہے۔
میروت حلقہ لوک سبھا میں بی جے پی کے راجندر اگروال نے 5,32,981 ووٹ حاصل کئے جب کہ بی ایس پی کے امیدوار نے 3,00,655 اور ایس پی کے امیدوار نے 2,11,759 ووٹ حاصل کئے ۔سہارن پور حلقہ لوک سبھا کے بی جے پی کے راگھو لکھن پال نے 4,72,999 ووٹ حاصل کرکے کامیابی حاصل کی۔ ان کے مقابلہ کانگریس کے عمران مسعود نے 4,07,909 ووٹ اور بی ایس پی کے جگدیش سنگھ رانا نے 2,35,033 ووٹ حاصل کئے۔
یوپی کے حلقہ لوک سبھا رامپور سے بی جے پی کے ڈاکٹر نیپال سنگھ نے 3,58,616 ووٹ حاصل کرکے کامیابی حاصل کی۔ ان کے مقابل سماج وادی پارٹی امیدوار نے 3,35,181 اور کانگریس نے 1,56,466 ووٹ حاصل کئے۔ اب دونوں جماعتوں کا دعویٰ ہے کہ وہ سیکولر ہیں اور ان کے ووٹوں کو جوڑ دیا جائے تو وہ 4,91,647 ووٹ ہوجاتے ہیں جوکہ بی جے پی امیدوار سے کہیں زیادہ ہے۔سلطان پور بھی یوپی کا وہ لوک سبھا حلقہ ہے جہاں پر بی جے پی کے فیروز گاندھی نے 4,10,348 ووٹ حاصل کئے۔ ان کے مقابل بی ایس پی کے امیدوار نے 2,31,446 ووٹ اور ایس پی کے امیدوار شکیل احمد نے 2,28,144 ووٹ حاصل کئے۔ لوک سبھا کا ایک حلقہ علی گڑھ بھی یوپی میں آتا ہے جہاں سے ستیش کمار نے بی جے پی کے امیدوار کی حیثیت سے جیت حاصل کی۔ ان کو 5,14,622 ووٹ ملے۔ ان کے مقابل بی ایس پی امیدوار کو 2,27,886 ووٹ اور سماج وادی پارٹی کو 2,26,284 ووٹ ملے۔ ان دونوں کو جوڑنے پر جملہ ووٹوں کی تعداد 4,54,170 ہوتی ہے اور جب ان میں کانگریس کے ووٹوں کو جوڑا جائے تو 5,16,844 جملہ ووٹ ہوتے ہیں جوکہ بی جے پی کو ملنے والے ووٹوں سے 2,222 ووٹ زیادہ ہیں۔الٰہ آباد حلقہ لوک سبھا میں بی جے پی کو 3,13,772 ووٹ ملے۔ ایس پی کو 2,51,763 اور بی ایس پی کو 1,62,073 ووٹ ملے۔ ایس پی اور بی ایس پی کے جملہ ووٹ 4,13,836 ہوتے ہیں جو بی جے پی کے جملہ ووٹوں سے بہت زیادہ ہیں۔
امبیڈکرنگر نامی حلقہ لوک سبھا میں ہری اوم پانڈے بی جے پی کے امیدوار تھے۔ انھوں نے 4,32,104 ووٹ حاصل کئے۔ اس حلقہ میں بی ایس پی نے 2,92,675 ووٹ اور ایس پی نے 2,34,467 ووٹ حاصل کئے ۔امبیڈکرنگر کی طرح امروہہ بھی یوپی کا ایک پارلیمانی حلقہ ہے۔ اس حلقہ میں بی جے پی کے کنور سنگھ تنور نے 5,28,880 ووٹ حاصل کرکے کامیابی درج کی۔ یہاں پر سیکولر ووٹ دیکھیں تو پتہ چلے گا کہ ایس پی کے حمیرا اختر نے 3,70,660 ووٹ اور بی ایس پی کے فرحت حسن نے 1,62,983 ووٹ حاصل کئے۔ یہ ساری مثالیں اترپردیش کی ہے ہیں۔ یوپی کے بعد بہار دوسری ایسی ریاست ہے جہاں پر بی جے پی کو زبردست کامیابی ملی۔ بہار کے کچھ لوک سبھا حلقوں میں ووٹوں کا تجزیہ کریں۔ ایک حلقہ ہے بیگوسرائے۔ لوک سبھا کے اس حلقہ میں بی جے پی کے امیدوار نے 4,28,227 ووٹ لئے۔ اس کے مقابل لالو پرساد یادو کی آر جے ڈی کے امیدوار نے 3,69,892 ووٹ اور سی پی آئی کے امیدوار نے 1,92,639 ووٹ حاصل کئے۔
اورنگ آباد کے نام سے بہار کا ایک اور لوک سبھا کا حلقہ ہے جہاں سے بی جے پی نے 3,07,941 ووٹ حاصل کرکے کامیابی حاصل کی۔ ان کے مقابل کانگریس کے امیدوار 2,41,594 ووٹ، جنتادل (یو) کے امیدوار نے 1,36,137 ووٹ حاصل کئے۔ یوں کانگریس اور جے ڈی یو کے سیکولر ووٹوں کی تعداد بی جے پی کے ووٹوں سے 69,790 ووٹ زیادہ ہے۔
دربھنگہ بہار کا ہی ایک لوک سبھا حلقہ ہے جہاں پر بی جے پی کے امیدوار کیرتی آزاد نے 3,43,003ووٹ حاصل کئے۔ ان کے مقابل آ رجے ڈی کے امیدوار فاطمی نے 2,79,906 اور جنتادل (یو) کے امیدوار نے 1,04,494 ووٹ حاصل کئے۔ یوپی اور بہار کو چھوڑکر پنجاب کی مثال لیں تو وہاں پر لوک سبھا حلقہ گرداسپور کا ذکر مناسب ہے۔ یہاں سے بی جے پی کے ونود کھنہ نے جملہ 4,82,255 ووٹ حاصل کئے۔ ان کے مقابل کانگریس امیدوار نے 3,46,190 اور عام آدمی پارٹی نے 1,73,376 ووٹ حاصل کئے۔ خود ہماری ریاست آندھرا پردیش میں بی جے پی نے سکندرآباد کے پارلیمانی حلقہ سے 4,38,271 ووٹ حاصل کئے۔ بی جے پی کے مقابل سیکولر جماعتوں کے ووٹوں کو جوڑنے پر پتہ چلے گا کہ کانگریس کے امیدوار کو 1,83,536 ووٹ، مجلس کو 1,45,120 اور ٹی آر ایس کو 1,43,847 ووٹ ملے۔ یہ سبھی جماعتیں سیکولر ہونے کا دعویٰ کرتی ہیں اور ان کے ووٹوں کو ملاکر دیکھیں تو یہ 472,503ووٹ بنتے ہیں جوکہ بی جے پی کو ملنے والے ووٹوں سے 34,232 ووٹ بڑھ کر ہیں۔اس ساری مثالوں اور ووٹوں کے تجزیہ سے یہی بات سامنے آتی ہے کہ بی جے پی کی کامیابی دراصل سیکولر ووٹوں کی بُری طرح تقسیم کے سبب آسان ہوئی ہے اور یہ وقت کی اہم ترین ضرورت ہے کہ ہم اس حقیقت کو تسلیم کریں اور شکوے و شکایات کو چھوڑکر آگے کا لائحہ عمل طئے کریں۔ اترپردیش میں ایک بھی مسلم نمائندہ لوک سبھا کے لئے منتخب نہیں ہوسکا۔ اس پس منظر میں راجیہ سبھا کے رکن محمد ادیب نے بالکل صحیح تجزیہ کیا کہ ’’یوپی میں جہاں بھی مسلمانوں کے ووٹ خاصے تھے، وہاں پر سبھی غیر بی جے پی جماعتوں نے مسلمانوں کو ٹکٹ دیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مسلم ووٹ بٹ گئے اور بی جے پی کی کامیابی آسان ہوگئی‘‘۔الیکشن 2014ء مسلمانوں کو ملک کی اقلیتوں اور خاص کر سیکولر جماعتوں کو ایک بڑا فکری سامان فراہم کرتا ہے ۔علامہ اقبالؔ نے جمہوری طرز حکومت کی بڑی بجا تشریح کی تھی۔ اگر ہم کم سے کم اُن کے اس سبق کو سمجھ لیتے تو ؎
جمہوریت اِک طرز حکومت ہے کہ جس میں
بندوں کو گِنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے!
ہم سے شاید یہی غلطی ہوگئی کہ ہم افراد، انجمنوں اور سیاسی قائدین کے قد کو اور وزن کو ناپتے اور تولتے رہ گئے اور یوں گنتی میں بھول ہوگئی اور ہم امتحان میں ناکام ہوگئے۔
sarwari829@yahoo.com