امید

امید ابھی کچھ باقی ہے ، اک بستی بسنے والی ہے
جس بستی میں کوئی ظلم نہ ہو
اور جینا کوئی جرم نہ ہو
وہاں پھول خوشی کے کھلتے ہوں
اور موسم سارے ملتے ہوں
بس رنگ اور نور ہر شے ہوں
اور سارے ہنستے بستے ہوں
امید ہے ایسی بستی کی
جہاں جھوٹ کا کاروبار نہ ہو
جینا بھی دشوار نہ ہو
مرنا بھی عذاب نہ ہو
یہ بستی کاش تمہاری ہو
یہ بستی کاش ہماری ہو
وہاں خون کی ہولی عام نہ ہو
اس آنگن میں غم کی شام نہ ہو
جہاں منصف سے انصاف ملے
دل سب کا سب سے صاف ملے
بس اک ایسی بستی ہو
جہاں روٹی زہر سے سستی ہو
ٌٌٌ٭٭ ٭ ٭٭