محمد نعیم وجاہت
ریاست میں عام انتخابات کے لئے الٹی گنتی شروع ہو گئی ہے۔ اسمبلی اور لوک سبھا انتخابات کے لئے صرف 30 دن باقی رہ گئے ہیں۔ سیاسی جماعتیں سیاسی اتحاد اور امیدواروں کے انتخاب کے لئے دوڑ دھوپ کر رہی ہیں۔ ہر سیاسی جماعت 2014ء کے عام انتخابات کو وقار کا مسئلہ بناکر انتخابی میدان میں کود رہی ہے۔ مسلمانوں کو ووٹ بینک کی نظر سے دیکھنے والی سیاسی جماعتیں انھیں قانون ساز اداروں کا حصہ بنانے میں کتنی دلچسپی رکھتی ہیں، اس کا انکشاف 9 اپریل تک ہو جائے گا۔ علاقہ تلنگانہ میں کانگریس اور ٹی آر ایس کے درمیان سیاسی اتحاد کے لئے تمام امکانات ختم ہو گئے ہیں، البتہ کانگریس اور سی پی آئی کے درمیان اتحاد ہونے کے روشن امکانات ہیں۔ دوسری جانب تلگودیشم اور بی جے پی کے درمیان اتحاد کے لئے مذاکرات جاری ہیں۔ تمام سیاسی جماعتیں اب اپنی ساری توجہ عوام کو راغب کرنے والی فلاحی اسکیمات کو انتخابی منشور میں شامل کرنے اور امیدواروں کی فہرست تیار کرنے میں مصروف ہیں۔
کانگریس پارٹی نے علحدہ تلنگانہ ریاست تشکیل دے کر سیما۔ آندھرا میں اپنا صفایا کرلیا ہے۔ سابق چیف منسٹر کرن کمار ریڈی نے ’’جے سمکھیا آندھرا‘‘ کے نام سے نئی پارٹی تشکیل دی ہے۔ سیما۔ آندھرا کے کئی کانگریس ارکان اسمبلی اور سابق مرکزی و ریاستی وزراء تلگودیشم، وائی ایس آر کانگریس اور بی جے پی میں شامل ہو گئے، تاہم جو کانگریس میں برقرار رہ گئے ہیں، انھیں عوام کی برہمی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، یہاں تک کہ مقابلہ کے لئے طاقتور امیدوار دستیاب نہیں ہو رہے ہیں۔ ایسی صورت میں کیا علاقہ تلنگانہ کے عوام کانگریس کو کامیاب بناکر سونیا گاندھی سے اظہار تشکر کریں گے؟ یہ بہت بڑا سوال ہے، کیونکہ کانگریس پارٹی نے بہت بڑا سیاسی خطرہ مول لے لیا ہے۔
علحدہ تلنگانہ ریاست تشکیل دینے کی صورت میں ٹی آر ایس کو کانگریس میں ضم کرنے کا وعدہ کرنے والے کے چندر شیکیھر راؤ اپنے وعدہ سے منحرف ہو گئے ہیں اور کانگریس کے ساتھ سیاسی اتحاد سے انکار کے علاوہ کانگریس کے خلاف جنگ چھیڑتے ہوئے علحدہ تلنگانہ ریاست کی تشکیل دے کر کوئی احسان نہ کرنے کا ادعا کر رہے ہیں۔
تمام سیاسی جماعتیں دونوں علاقوں میں سیاسی فائدہ اٹھانے کے لئے عوام کے ذہنوں سے کھیل رہی ہیں۔ 20 دن قبل تک سیما۔ آندھرا میں متحدہ آندھرا کا نعرہ لگانے والی وائی ایس آر کانگریس کا طاقتور موقف تھا، تاہم صدر تلگودیشم چندرا بابونائیڈو، جنھوں نے سب سے پہلے تلنگانہ کی تائید کی تھی، اپنی چالاکی سے کانگریس قائدان کو بڑی تعداد میں اپنی پارٹی میں شامل کرکے جگن موہن ریڈی کے لئے بہت بڑا چیلنج بن گئے ہیں۔ درحقیقت پارلیمنٹ میں تلنگانہ کا بل منظور ہونے تک تلگودیشم کا دونوں علاقوں میں انتہائی کمزور موقف تھا۔ تلنگانہ میں تلنگانہ کی اور سیما۔ آندھرا میں متحدہ آندھرا کی تائید کرنے والے مسٹر نائیڈو نے صرف دو ہفتوں میں تلگودیشم کے لئے ماحول سازگار بنا لیا ہے۔ علاقہ تلنگانہ میں تلگودیشم کا موقف کسی قدر کمزور ہے، تاہم چندرا بابو نائیڈو بی جے پی سے اتحاد کو ترجیح دیتے ہوئے تلنگانہ میں پارٹی کے حق میں جو خلاء پیدا ہوا تھا، اس کو دور کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان کی یہ کوشش کس حد تک کامیاب ہوگی؟ اور کیا مسلمان اس اتحاد کو قبول کریں گے؟ یہ تو آنے والا وقت بتائے گا۔
تقسیم ریاست کے بعد دونوں علاقوں میں انتخابات دلچسپ اور غیر یقینی ہو گئے ہیں۔ ریاست کی تقسیم کی مخالفت کرنے والی آئی ایس آر کانگریس علاقہ سیما۔ آندھرا میں چمپین بن گئی ہے، جب کہ تلنگانہ میں اس کا موقف کمزور ہے۔ علحدہ تلنگانہ ریاست کانگریس نے تشکیل دی ہے، مگر اس کا اعزاز حاصل کرنے میں کانگریس پیچھے رہ گئی، جب کہ تلنگانہ تحریک چلانے والی ٹی آر ایس یہ اعزاز حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی۔ بی جے پی نے تلنگانہ کی تائید کی ہے، کیونکہ اس کی تائید کے بغیر پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں تلنگانہ بل کی منظوری ناممکن تھی، لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ دونوں علاقوں میں بی جے پی کا موقف مستحکم نظر آرہا ہے۔ سیما۔ آندھرا کے مرکزی وزراء بی جے پی میں شامل ہو گئے ہیں، علاوہ ازیں تلنگانہ اور سیما۔ آندھرا کے فلم اسٹارس بی جے پی میں شمولیت اختیار کر رہے ہیں اور مودی کی تائید کا اعلان کر رہے ہیں۔ مرکزی وزیر سیاحت چرنجیوی کے بھائی فلم اسٹار پون کلیان نے جنا سینا نئی پارٹی تشکیل دی ہے، مگر وہ نہ ہی انتخابات میں مقابلہ کر رہے ہیں اور نہ ہی پارٹی کے کسی فرد کو انتخابی میدان میں اتار رہے ہیں، لیکن ریاست کی تقسیم کا الزام کانگریس پر عائد کرتے ہوئے کانگریس کو شکست دینے اور بی جے پی کی تائید کرتے ہوئے نریندر مودی کو وزیر اعظم بنانے عوام سے اپیل کر رہے ہیں۔ ان کی یہ پالیسی سمجھ سے بالا تر ہے۔ وہ اپنے بھائی مرکزی وزیر چرنجیوی کو پرجا راجیم کو کانگریس میں ضم کرنے کی سزا دے رہے ہیں؟ یا بی جے پی اور تلگودیشم کے ایجنٹ کے طورپر کام کر رہے ہیں؟ اس طرح کے کئی شکوک منظر عام پر آرہے ہیں۔
تلگودیشم حکومت میں چندرا بابو نائیڈو اور کانگریس حکومت میں ڈاکٹر راج شیکھر ریڈی کی تائید کرنے والے فلم اسٹار ناگرجنا نے گجرات پہنچ کر نریندر مودی سے ملاقات اور ان کی تائید کی ہے۔ سب سے برا حشر سابق چیف منسٹر کرن کمار ریڈی کا ہوا ہے، جنھوں نے کانگریس کی جانب سے تلنگانہ کی تائید میں قرارداد منظور کرنے کے بعد ریاست کی تقسیم کی کھل کر مخالفت کی، وزراء کے ساتھ دہلی میں احتجاج کیا اور ریاست کی تقسیم کے خلاف سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ لوک سبھا میں تلنگانہ بل منظور ہونے کے بعد چیف منسٹر کے عہدہ سے مستعفی ہونے والے کرن کمار ریڈی نے ساتھی وزراء اور سیما۔ آندھرا کے کانگریس ارکان اسمبلی کے دباؤ میں آکر نئی جماعت تشکیل دی ہے، مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ جن قائدین نے انھیں پارٹی کی تشکیل کا مشورہ دیا تھا، اب وہ ان کی پارٹی چھوڑکر تلگودیشم اور وائی ایس آر کانگریس میں شامل ہو گئے، جب کہ مزید چند قائدین تلگودیشم سے رابطہ بنائے ہوئے ہیں۔ جن قائدین پر بھروسہ کرکے کرن کمار ریڈی نے ہائی کمان کی ناراضگی مولی لی تھی، آج وہ ان کا ساتھ دینے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ وہ تنہا سیما۔ آندھرا میں انتخابی مہم چلا رہے ہیں، ان کی بس یاترا میں کوئی بھی لیڈر شامل ہونے کے لئے تیار نہیں ہے۔ کرن کمار ریڈی کو خود ان کے آبائی ضلع چتور میں بھی عوامی تائید حاصل نہیں ہو رہی ہے، جس کی وجہ سے وہ بے حد پریشان ہیں۔ کیونکہ اگر وہ کانگریس ہائی کمان کا فیصلہ قبول کرلیتے تو علاقہ تلنگانہ میں ہیرو ہوتے اور سیما۔ آندھرا میں کانگریس کی اتنی بری حالت نہ ہوتی اور وہ مستقبل میں کانگریس کے کسی بڑے عہدہ پر ہوتے۔ علحدہ تلنگانہ ریاست کی تلگودیشم نے تائید کی تھی، جب کہ وائی ایس آر کانگریس نے مساویانہ انصاف ا مطالبہ کیا تھا۔ بحیثیت چیف منسٹر کرن کمار ریڈی کی مخالفت کی وجہ سے دیگر جماعتوں نے تلنگانہ کی تقسیم اور طریقہ کار کی مخالفت کی ہے، جس سے تلنگانہ کا مسئلہ متنازعہ بن گیا اور سپریم کورٹ میں پہنچ گیا۔
ریاست میں انتخابی مہم کا یہ حال ہے کہ کوئی بھی جماعت ترقی، فلاحی اسکیمات اور بدعنوانیوں کو انتخابی ایجنڈا نہیں بنا رہی ہے، بلکہ تلنگانہ کی تائید و مخالفت کو اہم موضوع بناتے ہوئے عوام کے درمیان پہنچ رہی ہے۔ ریاست کے دونوں علاقوں کے 50 سے زائد اسمبلی حلقوں میں مسلمانوں کا موقف فیصلہ کن ہے۔ انتخابات سے قبل مسلمانوں کے ووٹ کی خاطر تمام جماعتیں ہتھلی میں جنت دکھاتی ہیں، تاہم جب عہدہ یا ٹکٹ دینے کا وقت آتا ہے تو مسلمانوں نظرانداز کردیا جاتا ہے۔ ٹی آر ایس نے ضمنی انتخابات میں حلقہ اسمبلی محبوب نگر سے صرف 1800 ووٹوں سے شکست کھانے والے ابراہیم کو ٹکٹ دینے سے انکار کردیا، تاہم ان کی شکست میں اہم رول ادا کرنے والے ٹی این جی اوز کے قائد سرینواس گوڑ کو انعام کے طورپر ٹکٹ دینے کا اعلان کیا جا رہا ہے۔ اسی طرح حلقہ اسمبلی نامپلی میں فیروز خان نے بغیر کسی کی مدد کے کانگریس کو مستحکم کرنے میں اہم رول ادا کیا تھا، مگر کانگریس پارٹی انھیں ٹکٹ دینے کے معاملے میں مجبوری کا اظہار کر رہی ہے۔ حلقہ اسمبلی ملک پیٹ میں مظفر علی خاں نے تلگودیشم کے استحکام کے لئے کافی جدوجہد کی، تاہم بی جے پی اور تلگودیشم کے درمیان اگر اتحاد ہوجاتا ہے تو مظفر علی خاں کو ٹکٹ سے محروم ہونا پڑے گا۔ یعنی مسلمانوں کو ٹکٹ دینے کا مسئلہ آتا ہے تو سیاسی جماعتیں ان کا اسمبلی اور پارلیمانی حلقوں میں کوئی اثر نہ ہونے کی دلیل پیش کرتی ہیں اور جن حلقوں میں مسلمانوں نے کلیدی رول ادا کیا ہے، وہاں ٹکٹ دینے کے معاملے میں مجبوری ظاہر کر رہی ہیں۔ علاوہ ازیں مسلمانوں کو خوش کرنے کے لئے کونسل، راجیہ سبھا، کارپوریشن یا بورڈ کا نامزد عہدہ دینے کا وعدہ کرکے ان کے ساتھ ناانصافی کر رہی ہیں۔