امیت شاہ کا تعاقب کرتی فرضی انکاؤنٹر کی خبریں خبروں سے راہ فرار اختیار کرتا میڈیا

راوش کمار
ایسی خبروں کو پتہ ہے جن کے لئے وہ ماردی جاتی ہیں ، اسے ہر پل ہر لمحہ دکھائی دیتی رہتی ہیں، کہیں سے آتی ہوئی یا پھر کہیں چھپی ہوئی ۔ سہراب الدین شیخ ، تلسی رام پرجا پتی فرضی انکاؤنٹر کیس کی خبریں بھی ان ہی میں سے ایک ہیں۔
شائع نہ ہونے سے خبر مر نہیں جاتی، چھپ جانے یا شائع ہوجانے سے لافانی بھی نہیں ہوجاتی ۔ ایسی کئی خبریں جو مرچکی ہوتی ہیں ، زندہ ہوجاتی ہیں کیونکہ خبریں Manage ہوتی ہیں، مرتی نہیں ہیں ۔ بس ایسی خبروں کے زندہ ہونے کے انتظار میں اپنے کردار کے آس پاس منڈلاتے رہنا پڑتا ہے۔ ایسی خبروں کو پتہ ہے جن کیلئے وہ ماردی جاتی ہیں، اسے ہر لمحہ دکھائی دیتی رہتی ہے ، کہیں سے آتی ہوئی یا پھر کہیں چھپی ہوئی۔ سہراب الدین ، تلسی رام پرجا پتی انکاؤنٹر کیس کی خبریں بھی ان ہی میں سے ایک ہے۔ مرتی ہے مگر پھر بھی زندہ ہوجاتی ہے ۔ عجیب و غریب فطرت ہے اس کیس سے جڑی خبروں کی ۔
ہر کوئی جانتا ہے کہ امیت شاہ کو ڈسمبر 2014 ء میں اس کیس میں بری کردیا گیا جس کے ساتھ میڈیا نے یہ سوچ کر راحت کی سانس لی کہ اب امیت شاہ سے انہیں کیس کے بارے میں پوچھنے یا سوال کرنے کی زحمت نہیں کرنی پڑے گی ۔ جب ہی تو سب کچھ Manage ہوچکا لگتا ہے ، کہیں سے اچانک سہراب الدین شیخ ، تلسی رام پرجا پتی فرضی انکاونٹر کیس کی خبر آجاتی ہے۔ آخر کیا ہے اس خبر میں جو مرجاتی ہے ، زندہ ہوجاتی ہے اور پھر مرجاتی ہے ، تب بھی جب میڈیا والے تعاقب نہیں کرتے ہیں تو کیا یہ خبر پریس (میڈیا) اور امیت شاہ کا پیچھا کرتے رہنا چاہتی ہے ؟
ڈسمبر 2014 ء میں اس کیس میں امیت شاہ اور تین آئی پی ایس عہدیداروں کی رہائی کے بعد میڈیا بالکل خاموش رہا۔ سی بی آئی نے بھی اس کیس کو اعلیٰ عدالتوں میں چیلنج کیا اور نہ ہی میڈیا نے کوئی سوال اٹھایا کہ خبر مر گئی اور ہمیشہ کیلئے دفن ہوگئی ۔ بزدل و ڈرپوک اپوزیشن سہم سی گئی اور میدان سے فرار اختیار کرنے کو غنیمت جانا۔ تین سال کی اس خاموشی کا سلسلہ بڑے آرام سے جاری تھا، اسی دوران نرنجن دل نے جسٹس لویا کی موت سے جڑے بعض سوالات کارواں میگزین میں شائع کئے ۔ جسٹس لویا دراصل اس کیس کی سماعت کر رہے تھے ۔ کارواں میگزین میں ان سوالات کی اشاعت کے ساتھ ہی سہراب الدین ۔ تلسی رام پرجا پتی فرضی انکاؤنٹر اور اس میں امیت شاہ کے کردار کی کہانی یا خبر پھر زندہ ہوگئی ۔ چند ماہ بعد یہ خبر پھر مرگئی ۔ اس مرتبہ ایسا لگا کہ ہر چیز بالآخر Manage کرلی گئی لیکن ایسا نہ ہوسکا ۔ چند دنوں میں ہی اس خبر میں زندگی کے آثار پیدا ہوگئے ۔ وہ زندہ ہوجاتی ہے لیکن اس خبر کو دیکھ کر ہندوستانی میڈیا کی جان نکل جاتی ہے اور وہ مرنے کا ناٹک شروع کردیتا ہے۔ جہاں تک جج لویا کی موت کے کیس کا سوال ہے میڈیا کی تاریخ میں یہ خاموشی کا سب سے بڑا کیس ہے ، پھر سے یہ خبر زندہ ہوگئی ہے ۔ سہراب الدین شیخ ، کوثر بی ، تلسی رام پرجاپتی انکاؤنٹر مقدمہ کی سماعت اسی عدالت میں جاری ہے جس کے جج لویا تھے ، دو آئی پی ایس عہدیداروں امیتابھ ٹھاکر اور سندیپ تما گاڈے نے عدالت کو بتایا کہ وہ اپنی جانب سے کی گئی تحقیقات ، اکٹھا کردہ شواہد اور چارج شٹ میں تحریر کردہ خبروں سے متعلق اپنے موقف پر سختی سے قائم ہیں۔ چار برسوں تک یہ کیس سپریم کورٹ کی زیر نگرانی رہا ۔ اس دوران اس مقدمہ کے 38 ملزمین میں سے 16 کو بری کیا گیا جن میں امیت شاہ بھی شامل ہیں۔ امیت شاہ کے علاوہ آئی پی ایس ، ڈی جی ونجارا، دنیش ایم این اور راجکمار پانڈین کو بھی بری کردیا گیا لیکن افسوس کہ سی بی آئی نے ان آئی پی ایس عہدیداروں کی برات کو اعلیٰ عدالت میں چیلنج نہیں کیا اور نہ کسی نے ایسا کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ اگر دیکھا جا ئے تو اس کہانی یا خبر کو ختم کرنے کیلئے سی بی آئی نے خود کو ختم کرلیا یعنی اس کی ساکھ کی ہلاکت ہوگئی جس کے بعد سی بی آئی کو سنٹرل فار بوگس انویسٹیگیشن کہا جانے لگا اور یہ تمغہ سی بی آ:ی کو اس کے ڈی آئی جی ایم کے سنہا کا دیا ہوا ہے !
اڈیشہ کینڈر اور بھوبنیشور میں آئی جی پولیس کے رتبہ پر تعینات کئے گئے امیتابھ ٹھاکر کا کہنا ہے کہ اس انکاؤنٹر کے پیچھے سیاسی اور مجرمانہ گٹھ جوڑ کارفرما ہے ، اس سے امیت شاہ کو سیاسی اور مالی فوائد حاصل ہوئے ۔ احمد آباد کے ایک بلڈر پٹیل برادر نے خوفزدہ ہوکر مبینہ طور پر انہیں 70 لاکھ روپئے ادا کئے ۔ ڈی جی ونجارا کو بھی 60 لاکھ روپئے حاصل ہوئے۔ اس بلڈر کو جان سے ماردینے کی دھمکی دی گئی تھی ۔
امیت ٹھاکر نے امیت شاہ سے صرف عدالتی تحویل میں پوچھ گچھ کی تھی ، یہاں تک کہ 2006 ء میں آ ئی پی ایس آفیسر گیتا جوہری نے ایک 24 صفحات پر مشتمل رپورٹ پیش کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ اس وقت کے ریاستی وزیر داخلہ امیت شاہ نے قانون کا مذاق اڑایا اور غالباً یہ اس بڑے جرم میں ریاستی حکومت کے ملوث ہونے کی ایک مثال ہے۔ لائیو لا نے اپنی سائیٹ پر اس تصور باخیال کا حوالہ دیا ہے۔
اب 21 نومبر کو آئی پی ایس آفیسر سندیپ تمگڈ نے عدالت کو بتایا کہ اس کیس میں امیت شاہ ڈی جی ونجارا ، راجکمار پانڈین اور دنیش اصل سازشی ہیں اور چارج شیٹ صرف تحقیقات میں پائے گئے شواہد کی بنیاد پر پیش کی گئی ۔ سندیپ تمگڈ نے مزید بتایا کہ اس وقت کے وزیر داخلہ راجستھان گلاب چند کٹاریہ ، ماربل مرچنٹ ومل ٹپنی اور حیدرآباد کے آئی پی ایس عہدیدار سبرامنیم او رسب انسپکٹر سرینواس راؤ سے پوچھ کچھ کے بعد ہی ان لوگوں کے خلاف چارج شیٹ داخل کی گئی ۔
گلاب چند کٹاریہ ، امیت شاہ اور ومل ٹپنی کو اس مقدمہ میں بری کردیا گیا۔ سندیپ نے چارج شیٹ میں لکھا ہے کہ دو نامعلوم افراد تلسی رام پرجا پتی کو ایک ماروتی کار میں لیکر گئے اور پو لیس نے اس کا قتل کردیا ، بعد میں اسے انکاؤنٹر بنایا گیا ۔ سندیپ نے چارج شیٹ میں کہا کہ ملزم حیدرآباد کے سب انسپکٹر سرینواس راؤ سے متعلق 19 دستاویزات ضبط کئے گئے تھے لیکن عدالت کے ریکارڈس کی جانچ سے صرف ایک دستاویز کی موجودگی کا پتہ چلا جبکہ 18 دستاویزات لاپتہ ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ امیت شاہ نے جو بیانات دیئے انہیں عدالت کے ریکارڈس میں شامل نہیں کیا گیا۔ قتل کے الزام میں پھنسے راجستھان کے پولیس عہدیدار کی پیروی کرنے والے وکیل نے دستاویزات فراہم کرنے کا مطالبہ کیا ہے ۔
سندیپ کہتے ہیں کہ جب تلسی کو احمدآباد لے جایا گیا اس وقت جو پولیس ٹیم تشکیل دی گئی تھی اس کی تشکیل دراصل ایک سازش کے تحت عمل میں آئی تھی ۔ جب سندیپ تمگڈے سے وکیل دفاع نے پوچھا کہ تلسی کیس میں 9 ملزمین بری ہوگئے ہیں۔ آپ کے پاس ان کے خلاف سازش تیار کرنے کا الزام ثابت کرنے کوئی ثبوت نہیں ہے۔ سندیپ نے کہا کہ ثبوت تھے ، آپ کی بات غلط ہے۔
اس مقدمہ میں اعظم خان ایک گواہ ہے، کیا وہ ملزم ہے۔ اس نے عدالت کو بتایا کہ وزیر داخلہ ہرین پانڈیا کو ڈی جی ونجارا کے حکم پر قتل کیا گیا ۔ اعظم خان ادے پور جیل میں ہے ، اس کی اہلیہ نے الزام عائد کیا کہ جیل میں اسے ستایا جارہا ہے اور اس کی زندگی خطرہ میں ہے ۔ 2010 ء میں جب وہ اس کیس میں گواہ بنا اور ضمانت پر رہائی پائی تب بھی اسے گولی ماردی گئی تھی۔ خان نے بتایا تھا کہ پرجاپتی نے سہراب الدین کے بارے میں معلومات فراہم کی تھی کیونکہ پولیس کا بہت دباؤ تھا اور اس نے بتایا تھا کہ اس کے بدلے (معلومات فراہم کرنے کے بدلے) اسے چھوڑ دیا جائے گا ۔ جیل میں پرجا پتی نے خان کو بتایا تھا کہ اسے مار دیا جائے گا ، اس کے کچھ دنوں بعد پرجا پتی کا انکاؤنٹر ہوگیا ۔ دی وائر میں اس تعلق سے کافی رپورٹس شائع ہوچکی ہیں۔
کیا یہ عجیب نہیں ہے کہ کوئی ہرین پانڈیا کے قتل کے بارے میں بیان دے رہا ہے اور پانڈیا کی پارٹی کے لوگ ہی خاموشی اختیار کرتے ہیں۔ اعظم خان نے ڈی جی ونجارا کے بارے میں یہ بات کہی ہے، کیا بی جے پی کے رہنماؤں اور کارکنوں کو ونجارا سے اتنی ہمدردی ہے گجرات کی مودی حکومت کے وزیر داخلہ کا قتل ہوگیا اور یہ سوال ان کیلئے بھی اہم نہیں ہے ؟ کیا انہیں گجرات کے وزیر داخلہ کے قتل کی تحقیقات اور حقیقی مجرم کو گرفتار کرنے کا مطالبہ نہیں کرنا چاہئے تھا ۔ بڑے لیڈران بھول گئے ، بی جے پی کے حامی اور کارکن ہی ہرین پانڈیا کے قتل کے بارے میں سوال پوچھ سکتے تھے ۔ کیا وہ بھی ڈر گئے ؟ تو سوچئے ان کی ہی پارٹی میں ان کی کیا حیثیت رہ گئی ہے۔
لائیو لا ویب سائیٹ دیکھئے ۔ 21 نومبر کو اس میں ایک خبر شائع ہوئی ہے۔ ایڈوکیٹ ستیش نے بمبئی ہائی کورٹ کے ناگپور بنچ میں ایک درخواست دائر کی ہے جس میں الزام لگایا ہے کہ جج لویا کی موت تابکار آئسوٹوپ کا زہر دینے سے ہوئی ہے ۔ 209 صفحات پر مشتمل درخواست میں ستیش اوٹنکے ایڈوکیٹ نے اپنی زندگی کو بھی خطرہ لاحق ہونے کا اندیشہ ظاہر کیا ہے۔ اس میں لکھا ہے کہ سری کانت کھانڈالکر ایڈوکیٹ اور پر کاش تھومبر کی بھی مشتبہ حالت میں موت ہوئی ہے۔ درخواست میں امیت شاہ کا بھی حوالہ دیا گیا ہے۔ دراصل اس خبر میں کچھ تو بات ہے ، چلی جاتی ہے تب بھی خوف لاحق رہتا ہے۔ آجاتی ہے تب اور خوف چھا جاتا ہے ۔ یہ اپنی واپسی کیلئے ہمیشہ کسی اڈوانچر کی تلاش میں رہتا ہے۔ تین سال تک کسی نرنجن اور نکیتا سکسینہ کا انتظار کیا … اب امیتابھ ٹھاکر اور سندیپ تانگڑے کے حوالے سے باہر آگئی ۔ میڈیا اسے دیکھتے ہی چُھپ جاتا ہے ۔ یہ بھی اس دور کے آئی پی ایس آفیسر ہیں ۔ برسر خدمت رہتے ہوئے ایک طاقتور با اثر شخص کے خلاف جمع کردہ ثبوتوں پر قائم رہنے کی بات کردینا آسان نہیں ہے ۔ اس بات کو وہ عہدیدار اچھی طرح جانتے ہیں جو وردی تو زیب تن کئے تھے، اسی دن کیلئے مگر رعب دکھا رہے ہیں، ایک خبر کو دفنانے میں۔
کیا امیت شاہ کو یہ خبر اب بھی پر یشان کرتی ہے یا پھر وہ اس سے بہت آگے نکل چکے ہیں ؟ کیا وہ سوچتے ہوں گے کہ ہرین پانڈیا کے قتل اور سہراب الدین ، کوثر بی ، تلسی رام پرجا پتی فرضی انکاونٹر کی خبر کیسے زندہ ہوجاتی ہے ۔ ایک اور سوال یہ ہے کہ امیت شاہ جب میڈیا کے سامنے آتے ہوں گے تو اس خبر سے کون فرار اختیار کرتا ہوگا ؟ امیت شاہ یا میڈیا …