کابل ، 3 فبروری (سیاست ڈاٹ کام) افغانستان کے صدر حامد کرزئی نے کہا ہے کہ انہیں امریکہ کی اپنے ملک میں موجودگی کا ’’کوئی فائدہ نظرنہیں آیا‘‘۔ برطانوی اخبار ’دی سنڈے ٹائمز‘ کو انٹرویو میں افغان صدر نے کہا کہ امریکیوں نے ان کیلئے کوئی کا م نہیں کیا بلکہ ان کے خلاف کام کرتے رہے۔ اتوار کو شائع شدہ انٹرویو میں صدر کرزئی نے کھل کر امریکہ مخالف جذبات کا اظہار کیا اور طالبان کو ’’اپنے بھائی‘‘ اور امریکیوں کو ’’مخالف‘‘ قرار دیا۔ کرزئی نے کہا کہ وہ اپنے دورِ اقتدار کے 12 برسوں کے دوران مسلسل امریکیوں سے یہ التجا کرتے رہے کہ وہ عام افغانوں کی زندگیوں کو اپنے ہم وطن امریکیوں جتنی اہمیت دیں۔ افغان صدر نے کہا کہ انہوں نے گزشتہ سال جون میں امریکی صدر براک اوباما سے آخری بار بات کی تھی جس کے بعد سے ان کے بقول دونوں قائدین کے درمیان کوئی گفتگو نہیں ہوئی۔ انہوں نے اخبار کو بتایا کہ ان کا جنوبی افریقہ کے سابق صدر نیلسن منڈیلا کی آخری رسومات کے موقع پر صدر اوباما سے آمنا سامنا ہوا تھا لیکن دونوں نے ایک دوسرے سے کوئی بات نہیں کی تھی۔ صدر کرزئی کے بقول اس عرصے کے دوران اُن کے اور امریکی صدر کے درمیان خطوط کا تبادلہ ہوتا رہا ہے۔ افغان صدر نے الزام عائد کیا کہ امریکہ کو جو رقم افغان پولیس کو دینا چاہئے تھی
وہ اس نے نجی سکیورٹی اداروں کو دی اور قبائلی لشکر تشکیل دینے پر خرچ کردی جس کے نتیجے میں افغان صدر کے بقول بدامنی، بدعنوانی اور ڈکیتیوں کو فروغ ملا۔ انہوں نے کہا کہ یہ سب کرنے کے بعد امریکیوں نے افغانوں پر نفسیاتی جنگ مسلط کردی تاکہ افغانوں کو اپنی دولت بیرونِ ملک منتقل کرنے پر مجبور کیا جاسکے۔ صدر کرزئی نے الزام عائد کیا کہ امریکیوں نے ان کے ملک میں مخصوص مالدار حلقوں کو پروان چڑھایا اور ’’باقی آبادی کو محرومی اور غصے میں جلنے کیلئے چھوڑ دیا‘‘۔ امریکیوں کے رویے سے شاکی افغان صدر نے اس انٹرویو میں برطانیہ کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ کے برخلاف برطانوی حکومت نے افغانوں کے ساتھ انتہائی مہذب برتاؤ کیا اور پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات بہتر بنانے میں مدد دی۔ اخبار کے اس سوال پر کہ امریکہ مخالف موقف اپنانے پر مغربی ممالک ان کی حکومت کی مالی امداد بند کرسکتے ہیں، افغان صدر نے کہا کہ ان کے نزدیک پیسہ ہی سب کچھ نہیں اور وہ ذاتی طور پر غیر یقینی صورتِ حال کا شکار ہونے کے بجائے غربت میں زندگی گزارنے کو ترجیح دیں گے۔ صدر کرزئی نے کہا کہ انہیں اپنے 12 سالہ دورِ اقتدار پر فخر ہے اور وہ افغان عوام کیلئے ایسا ملک چھوڑے جارہے ہیں جو تمام افغانوں کا گھر ہے اور جسے ایسی پارلیمان میسر ہے جس میں تمام متحارب کمانڈر، علما، مجاہدین اور خواتین ساتھ بیٹھتے اور قانون سازی کرتے ہیں۔