یوں تو ہر اِک شخص کا ایمان ہونا چاہئے
شرط یہ ہے وہ مگر انسان ہونا چاہئے
امریکی مسلم طالب علم
امریکی ریاست ٹیکساس کے ایک ٹاؤن میں 14 سالہ مسلم اسکولی طالب علم احمد محمد کو گھڑی سازی میں اختراعی اقدام کرنے کی کوشش پر اسکول ٹیچر نے اس کو پولیس کے حوالے کردیا۔ ٹیچر نے مسلم طالب علم کی فنی صلاحیتوں کی ستائش کرنے کے بجائے اس پر شبہ ظاہر کرتے ہوئے غیرضروری ہنگامہ برپا کردیا اور یہ بچہ اپنی معصوم ذہنی اختراعی صلاحیت کے عوض ہتھکریوں کے ساتھ پولیس اسٹییشن پہونچا دیا گیا۔ اس واقعہ کے فوری بعد ساری دنیا میں نسل پرستی کے الزامات صدر امریکہ اوباما کے بشمول کئی حکمرانوں کے کان کھڑے کردیئے۔ آن لائن پر اسکول ٹیچر کی حرکت کی مذمت کی گئی اور بچہ کی صلاحیتوں کی ستائش کرتے ہوئے امریکی سوچ پر افسوس ظاہر کیا گیا۔ اس بچہ کی گرفتاری جب قومی و بین الاقوامی خبر بن گئی تو ساری دنیا کو معلوم ہوا کہ امریکہ میں مسلم طالب علم کے ساتھ کیا سلوک کیا جاتا ہے۔ اپنی حکومت کی نیک نامی کو متاثر ہونے سے بچانے کیلئے صدر اوباما نے احمد محمد کو آئندہ ماہ وائیٹ ہاؤز پر مدعو کیا۔ ڈیموکریٹک صدارتی امیدوار سابق سیکریٹری آف اسٹیٹ ہیلاری کلنٹن نے بھی لڑکے کی صلاحیتوں کی حمایت کی ہے۔ طالب علم نے اپنی گرفتاری اور رہائی کے بعد میڈیا کے سامنے جس طرح کا ردعمل ظاہر کیا ہے، اس سے بھی کئی افراد متاثر رہے ہیں۔ بچہ کو حاصل ہونے والی امریکی و عالمی تائید سے ایک مسلم طالب علم کی تعلیمی صلاحیتوں میں اضافہ کی راہ ہموار ہوئی ہے۔ سائنس کی دنیا میں مسلم طلباء کی کوششوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے ان کی خوبیوں کو ابھارنے کی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے اوباما نے بروقت قدم اٹھایا ہے۔ 9 ویں جماعت کے اس طالب علم نے اپنی خوبیوں اور صلاحیتوں کو اپنی ٹیچر کے سامنے پیش کرنے کی کوشش کی تھی، لیکن ٹیچر نے اپنی تدریسی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے بجائے اس بچہ پر دہشت گرد ہونے اور بم بنانے کی کوشش کا الزام لگاکر اپنا اور پیشہ تدریس کے تقدس پامال کرنے کی دانستہ حرکت کی۔ نتیجہ میں ساری دنیا کے سامنے سچائی آگئی۔ اگر یہ واقعہ بدبختانہ طور پر کوئی اور رُخ اختیار کرتا تو پر ایک بار ساری دنیا میں مسلمانوں کے خلاف پروپگنڈہ مہم کا موجب بن جاتا۔ اس بچہ کو محض اس کے نام کی وجہ سے گرفتار کیا گیا۔ کلاس روم کے ساتھیوں کے سامنے اس کو ہتھکڑیاں پہنائی گئیں۔ خود کو مہذب دنیا کا سپہ سالار سمجھنے والے امریکہ کی پولیس اور اسکولی نظام نے اس قدر تعصب پسند مظاہرہ کیا گیا کہ ماباقی دنیا میں افسوس کیا گیا۔ اس بچہ کو محض مسلم نام ہونے اور سیاہ رنگ ہونے کی وجہ سے سزا دینے کی ناپاک حرکت کی گئی تھی۔ اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ آیا اگر احمد محمد کا نام کوئی اور ہوتا اور وہ امریکی شہریوں کی طرح سفید فام اور اس کے بال بھورے رنگ کے ہوتے تو کیا اسکول ٹیچر اس کے ساتھ اس طرح کا رویہ اختیار کرتی۔ اگر یہ مسلم طالب علم کسی اور مذہب سے تعلق رکھتا تو اس کو گرفتار نہیں کیا جاتا اور اس کی اختراعی صلاحیتوں کی ستائش کی جاتی تھی۔ امریکہ میں مسلم دشمنی اور نفرت کی وجہ سے جو حالات پیدا ہورہے ہیں وہ امریکہ اور دیگر اقوام کے لئے خطرناک ہوسکتے ہیں۔ بچہ نے جو گھڑی بنائی تھی، اس کی جانچ کرنے کے بعد اسکول کے ہی دیگر ٹیچرس اور پولیس نے تسلیم کیا کہ یہ گھڑی کسی بھی طرح بم دکھائی نہیں دیتی مگر اسلام کے خلاف اپنی دشمنی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ٹیچر نے یہ حرکت کی ہے تو اس کے خلاف کارروائی کرنا ازخود حکومت اور پولیس کی ذمہ داری ہے۔ امریکہ میں حالیہ برسوں سے مسلمانوں اور اسلام کے خلاف جس طرح کی نفرت انگیز مہم چلائی جارہی ہے، وہ افسوسناک ہے۔ اسکول انتظامیہ نے احمد محمد کے ساتھ جو رویہ اختیار کیا تھا، وہ بھی اصولوں کے خلاف تھا۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اسکول کے قواعد کے خلاف کسی طالب علم نے غلطی کی ہے تو اس کے والدین کو طلب کیا جاتا اور پھر اٹارنی کے حوالے کیا جاتا لیکن امریکہ میں سیاہ فام اور سفید فام کے لئے انصاف کا جو نظام بنایا گیا ہے، اس کے مطابق احمد محمد کو بھی ہراساں کرنے کی ہر ممکنہ کوشش کی گئی۔ امریکہ میں سیاہ فام باشندوں اور سفید فام شہریوں کے لئے مختلف قانون نہیں ہونا چاہئے۔ سفید فام امریکیوں کے لئے خصوصی قانون ہے تو دیگر کے لئے مختلف قوانین ہیں۔ اس کے نتیجہ میں آج امریکہ میں سیاہ فام اور سفید فام کے درمیان نفرت کی آگ شدت سے بھڑک رہی ہے۔ ٹیکساس کے جس ٹاؤن میں یہ طالب علم مقیم ہے، وہاں کی فضاء بھی سفید فام اور سیاہ فام کی تعصب پسندی کا شکار ہے۔ اسکول کے کلاس روم میں اس امریکی مسلم شہری کے ساتھ جو برتاؤ ہوا، وہ محض اس کے سیاہ فام اور مسلم ہونے کی سزا تھی۔ سوڈانی نژاد والدین کی اولاد ہونے کا قصور یہ تو نہیں ہونا چاہئے کہ امریکی پولیس اور انصاف کے نظام مختلف ہوجائے۔ امریکہ اور وہاں کے عوام کی اکثریت اگر مسلمانوں کو تشدد پسند تصور کرتے رہیں گے تو یہ امن و امان کی کوششوں کے لئے دھکہ ہے۔ امریکی مسلم کے تعلق سے امریکی عوام کی اکثریت ہنوز یہ نہیں سمجھتی کہ یہ لوگ امن پسند ہوتے ہیں۔ امریکی عوام خاص کر اسکولوں میں تعلیم دینے والے اساتذہ کی سوچ اور ذہن کو بدلنے کی ضرورت ہے تاکہ مسلمانوں کے خلاف نفرت اور امتیازی سلوک کے واقعات کا تدارک ہوسکے۔
عالمی مارکٹ میں تیل کی قیمتوں میں کمی
پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں عالمی سطح پر تیزی سے کمی آرہی ہے مگر ہندوستان میں اس کمی کا فائدہ عوام الناس کو نہیں مل رہا ہے۔ جب عالمی سطح پر پٹرول کی قیمت میں دوگنا سہ گنا اضافہ ہوا تھا توہندوستان کی تیل کمپنیاں اس کی قیمت میں اضافہ کیا اور یہی قیمت ہنوز وصول کی جارہی ہے جبکہ عالمی میں پٹرول کی قیمت گھٹ چکی ہے۔ امریکہ میں خام تیل فی بیارل 80 تا 90 ڈالر تھا۔ اب یہ گھٹ کر 40 ڈالر ہوگیا ہے، لیکن ہندوستان میں 90 ڈالر فی بیارل خام تیل کی قیمت کے دوران جو اضافہ کیا گیا تھا، اس میں اب 40 ڈالر فی بیارل پٹرول کی قیمت میں کمی آئی ہے تو ہندوستانی پٹرولیم کمپنیوں کی مقررہ شرحوں پر فروخت کیا جارہا ہے۔ اس عالمی مارکٹ میں تیل کی قیمتوں میں کمی کا فائدہ عوام کو نہیں پہونچایا گیا۔ یہ سراسر زیادتی ہے۔ عالمی مارکٹ میں تیل کی قیمتوں میں 50 فیصد کی کمی کی وجہ سے تیل کی پیداوار میں اضافہ ہوا ہے۔ اگرچیکہ یہ پیداوار چند فیصد اضافہ کے ساتھ ہے لیکن قیمتوں کا پورا نظام درہم برہم ہے۔ تیل کی پیداوار اور تیل کمپنیوں کے گروپ اوپیک کی پالیسی میں کیا تبدیلی آئے گی، یہ آنے والے دنوں میں معلوم ہوگا۔ اس وقت تیل کی قیمتوں کی کمی کا ہندوستانی صارفین کو کوئی فائدہ نہیں ہورہا ہے۔ سرکاری تیل کمپنیاں اور درمیانی منافع خوروں نے عوام کی جیب ہلکی کرنے کی جو پالیسی اختیار کرلی ہے، اس پر حکومت کی چشم پوشی معنی خیز ہے۔ وزیراعظم نریندر مودی نے عوام کو مہنگائی سے چھٹکارہ چلانے کا وعدہ کیا تھا مگر پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ کے رجحان کے بعد اس میں کمی کا تسلسل توقع کے مطابق نہیں ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ جب عالمی مارکٹ میں پٹرولیم اشیاء کی قیمتوں میں کمی آتی ہے تو اس مناسبت سے ہندوستان میں بھی پٹرولیم قیمتوں کو گھٹایا جائے۔ جب پٹرول کی قیمت کم ہوگی تو ضروری اشیاء کی قیمتیں بھی خودبخود کم ہونی چاہئے۔ عموماً ایسا نہیں ہوتا۔ قیمتوں میں اضافہ و کمی کا انحصار عالمی مارکٹ کے رجحان سے مربوط ہو تو ہندوستانی صارفین کو اس تبدیلی کا فائدہ ہونا لازمی ہے۔