امریکی مسلمانوں نے ٹرمپ کی دعوت افطار کا استقبال نہیں کیا۔

امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے اس سال وائٹ ہاوز میں دعوت افطار کا اہتمام کیا ‘ پچھلے انہو ں نے بیس سال سے چل رہی روایت کے عین خلاف جاکر افطار کی دعوت کا اہتمام نہیں کیاتھا
واشنگٹن۔مسٹر ٹرمپ نے پچھلے سال دعوت افطار کا اہتمام کرنے سے منع کردیاتھا جو ان کی سیاسی منشاء کے مطابق مسلمان کے خلاف ایک قدم سمجھا گیاتھا ۔ بطور صدراتی امیدوار مسٹر ٹرمپ نے امریکہ میں مسلمانوں پر امتناع کے متعلق اعلان بھی کیاتھا۔

انہو ں نے کہاتھا کہ’’ میں سمجھتا ہوں اسلام ہم سے نفرت کرتا ہے‘‘۔مختلف بڑے مسلم اکثریتی والے ممالک کے لوگوں پر امتناع مذہبی امتیاز کے طور پر دیکھا گیا ‘ او رامریکہ سپریم کورٹ اس سوال پر اپنا فیصلہ اس ماہ سنائے گا۔ وائٹ ہاوز سکریٹری سارہ سینڈرس نے کہاکہ چہارشنبہ کی شب 30سے 40کے قریب مہمانوں کو مدعو گیا ہے۔

وائٹ ہاوز نے مہمانوں کی فہرست جاری نہیں کی ہے ‘ مگر تقریب اسلامی ممالک کے سفارتی عملے پر مشتمل ہے۔ مسلمانوں کے خلاف متواتر بیانات کے باوجود مسٹر ٹرمپ ویسٹ ایشیاء کے سنیوں کے دوست ہیں بالخصوص سعودی عربیہ او ریواے ای۔ ٹرمپ کے دو ر میں امریکہ نے بارک اوباما کے دوران کی امریکی اتحادیوں کے متعلق بنائی گئی علاقائی پالیسیوں کو پوری طرح ختم کردیا ہے۔

مسلم امریکن برائے ٹرمپ کے بانی اور ٹرمپ کے بڑے حمایتی سجاد این تارار نے کہاکہ ’’ میں نے وائٹ ہاوز کے ساتھ جائزہ لیا اور میں نے کہاکہ صرف سفارتی لوگ اور کچھ کابینی وزراء شرکت کررہے ہیں۔ ریپلکن نیشنل کنونشن 2016جس نے مسٹر ٹرمپ کے نام کا اعلان کیاتھا میں اسپیکر رہے مسٹر تارار نے کہاکہ وہ خوش تھے مگر زیادہ نہیں۔ انہوں نے کہاکہ ’’ اگر آپ مجھ سے پوچھیں تو میں مطمئن نہیں تھا۔ مگر مجھے خوشی ہے کہ افطار کا اہتمام تو ہوا۔

وائٹ ہاوز کے دروازے کھلے ہیں ‘ پچھلے سال جو کچھ ہوا تھا اس سے تو بہتر رہا۔ میں امیدکرتاہوں وائٹ ہاوزکے ساتھ کام کرونگا او راگلے سال بڑی تعداد جمع کی جائے گی‘‘۔ کلنٹن کے دور میں وائٹ ہاوز کے اندر دعوت افطار کا اہتمام شروعی ہوتھا خبر ہے کہ اس کی پہل ہلاری کلنٹن نے کی تھ ۔

صدور جارج ڈبیلو بش اور بارک اوباما نے یہ سلسلہ جاری رکھا تھا اور ا س میں امریکی مسلم کمیونٹی کے لیڈرس‘ قانون ساز او ر مسلم ممالک کے سفارت کار شامل ہوتے رہے ہیں۔ چہارشنبہ کے روز منعقد ہوئے عشائیہ میں امریکی مسلم لیڈرس شامل نہیں ہوئے۔