میرا کالم سیدامتیاز الدین
آج کل ساری دنیا کی نگاہیں امریکہ پر ٹکی ہوئی ہیں۔ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ عام طور پر دنیا کی نگاہیں امریکہ پر ٹکی ہوئی رہتی ہیں ۔ دنیا کے لوگ سمجھتے ہیں کہ اگر ایک بار امریکہ پہنچ جائیں تو سارا دِلدر دور ہوجائے گا۔ پڑھے لکھے لوگ چاہتے ہیں کہ وہاں اعلیٰ تعلیم حاصل کریں اور اعلیٰ عہدوں پر فائز ہوجائیں، جو لوگ زیادہ پڑھے لکھے نہیں ہیں وہ اس بات پر مطمئن رہتے ہیں کہ امریکہ میں نوکریوں کی کمی نہیں ۔ پٹرول پمپ ، ٹیکسی ڈرائیونگ، برتن دھونا ، بیکری ، ہوٹل ، دکانوں کے کاؤنٹرس غرض ہر قسم کا آدمی کسی نہ کسی پیشے میں کھپ جاتا ہے اور پھر کمال کی بات یہ ہے کہ وطن عزیز میں کسی کو خبر بھی نہیں ہوتی کہ آپ وہاں کیا کرتے ہیں۔ برسوں پہلے ہم ایک شادی میں شریک ہوئے تھے ۔ دلہے کے بارے میں پتہ چلا تھا کہ وہ امریکہ میں سرجن ہے ۔ بعد میں دلہن کو امریکہ جانے کے بعد معلوم ہوا کہ اس کا شوہر حجام ہے اور اپنے آپ کو بالوں کا سرجن کہتا ہے ۔ خیر یہ باتیں اپنی جگہ لیکن آج کل ساری دنیا امریکی صدارتی انتخاب کے نتیجے کے انتظار میں دم سادھے بیٹھی ہے ۔ ڈونالڈ ٹرمپ اور ہلاری کلنٹن کے درمیان مقابلہ ہے اور کوئی بھی نہیں جانتا کہ دونوں میں سے کون جیتے گا۔
مسٹر ٹرمپ تو اب سرخیوں میں آئے ہیں لیکن آپ کو یہ سن کر تعجب ہوگا کہ ہم مسٹر ٹرمپ کو اپنے بچپن سے جانتے ہیں ۔ بات یہ ہے کہ ہمارے بڑے بھائی اور اُن کے دو ایک دوست اکثر ہفتہ کی رات کو تاش کا ایک بے ضرر سا کھیل کھیلتے تھے جس کا نام تھا تین سو چار یا ٹرمپ۔ اس کھیل کیلئے چار کھلاڑی درکار تھے۔ پہلے راؤنڈ میں ہر کھلاڑی کو چار چار پتے ملتے تھے اور ایک کھلاڑی کو موقع ملتا تھا کہ وہ ا پنے چار پتوں میں سے ایک پتہ چھپا کر رکھ دیتے تھے جو ٹرمپ کہلاتا تھا۔ اس کے بعد ہر کھلاڑی کو دو پتے اور ملتے تھے۔ ٹرمپ کا پتہ کامیابی کا ضامن ہوتا تھا ۔ اس طرح ٹرمپ کی مدد سے کھلاڑی کھیل جیت جاتے تھے ۔ ٹرمپ کارڈ بول چال کی زبان میں کامیابی کی علامت سمجھا جاتا تھا لیکن ہم نے جب سے مسٹر ڈونالڈ ٹرمپ کا نام سنا ہے اور پچھلے چند مہینوں سے مسٹر ٹرمپ کے حالات اور تقریریں سن رہے ہیں ، ہم کو ٹرمپ کے معنی کچھ بدلے ہوئے لگ رہے ہیں۔ پتہ نہیں ٹرمپ جیت کی علامت ہے یا ہار کی۔ امریکہ کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہا جاتا ہے ۔ جارج واشنگٹن ، ٹامس جنیفرسن، ابراہام لنکن جیسے نامی گرامی لوگ امریکہ کے صدر ہوئے ہیں ۔ خود ہمارے کالج کے دنوں میں جان کینڈی امریکہ کے صدر تھے جن کے قتل پر ساری دنیا غم میں ڈوب گئی تھی ۔ ٹامس جنیفرسن اتنا قابل اور باصلاحیت صدر تھا کہ ایک بار امریکہ کے سات سائنس دانوں کو نوبل پرائز ملا تھا ۔ جان کینڈی نے اُن کے اعزاز میں وائیٹ ہاؤز میں ڈنر دیا تھا ۔ اُس وقت کینڈی نے کہا تھا کہ وہائیٹ ہاؤز کا ڈائیننگ ہال سات روشن دماغ شخصیتوں کی روشنی سے جگمگا رہا ہے ۔ شاید ایسی روشنی اُس وقت دیکھنے میں آتی ہوگی جب ٹامس جنیفرسن اس ڈائننگ ہال میں اکیلے ڈنر کیا کرتے تھے ۔ ابراہام لنکن کے نام سے ہر شخص واقف ہے ۔ امریکہ میں ابراہام لنکن کو وہی مقام حاصل ہے جو ہمارے ملک میں مہاتما گاندھی کو حاصل ہے ۔ یہ عالمگیر شہرت اور عزت کی مستحق ہستیاں ہیں۔ایسے پس منظر میں اب ڈونالڈ ٹرمپ صاحب صدارتی امیدوار کی حیثیت سے کھڑے ہوئے ہیں جن کو اپنے ملک کی عزت تو دور کی بات ہے خود ا پنی عزت کا بھی کوئی خیال نہیں ہے ۔ دنیا کا کوئی خوددار باپ اپنی بیٹی کو بدنام نہیں کرنا چاہتا لیکن مسٹر ٹرمپ خود اپنی صاحبزادی کے بارے میں نازیبا باتیں کرنے سے نہیں شرماتے ۔ امریکہ کی چھ سات خواتین اب تک ٹرمپ پر دست درازی اور بے ہودہ طرز عمل کی شکایت کرچکی ہیں۔ ٹرمپ کی شخصی زندگی کا پول کھولنے والی خواتین میں سمرزرواس ، کرسٹین انڈرسن ، جیسکا لیڈس جیسی عورتیں شامل ہیں۔ انہوں نے ایسی ایسی باتیں کہی ہیں جن کو دائرۂ تحریر میں لانا بھی مشکل ہے ۔ حیرت ہے کہ الیکشن سے پہلے ہی صدارتی امیدوار کے بارے میں ایسی باتیں شہرت پاگئی ہیں اور ٹرمپ پر ان باتوں کا کوئی اثر نہیں ۔ ٹرمپ کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ ا پنی کمپنیوں میں خوش شکل عورتوں کو ملازمت دیتے ہیں۔ مسٹر ٹرمپ پر ایک الزام یہ بھی ہے کہ وہ انکم ٹیکس بھی صحیح طور پر ادا نہیں کرتے ۔ ہلاری کلنٹن جو اُن کی حریف ہیں اُن پر الزام لگا رہی ہیں کہ روس کے صدر ولادیمیر پوٹن ٹرمپ کو کھلونے کی طرح استعمال کریں گے ۔ ٹرمپ خود ا لیکشن کے تعلق سے کتنے سنجیدہ ہیں اس سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ اُن کو الیکشن کی صحیح تاریخ بھی یاد نہیں تھی ۔ امریکہ کا صدارتی انتخاب روایتی طور پر آٹھ نومبر کوہوتا ہے لیکن ٹرمپ کو آٹھ نومبر کی تاریخ بھی یاد نہیں تھی ۔ وہ اسے 28 نومبر سمجھے ہوئے تھے ۔ امریکہ کی صحت مند روایت یہ بھی ہے کہ جب نتائج کا اعلان ہوجاتا ہے تو شکست خوردہ امیدوار کامیاب امیدوار کو مبارکباد دیتا ہے اور اپنے تعاون کا بھروسہ دلاتا ہے لیکن مسٹر ٹرمپ کا کہنا ہے کہ اگر میں ہارتا ہوں تو میں اُس نتیجے کو قبول ہی نہیں کروں گا ۔ ٹرمپ نے یہ بھی کہا کہ اگر میں جیت گیا تو ہلاری کلنٹن کو جیل میں ڈال دوں گا ۔ اب تو نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ دونوں امیدوار مباحثہ سے پہلے ہاتھ بھی نہیں ملاتے۔ ہمارے ملک میں بھی انتخابات کے موقع پر خاندانی اختلافات سامنے آجاتے ہیں۔ بارک اوباما تو ہلاری کلنٹن کے حامی ہیں اور اُن کی تائید کر رہے ہیں لیکن بارک اوباما کے سوتیلے بھائی ملک اوباما ٹرمپ کی حمایت میں ہیں۔ ٹرمپ کے چیف الیکشن مینجر نے تسلیم کیا کہ ہم پیچھے ہیں لیکن یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ دوڑ ابھی ختم نہیں ہوئی۔ اس پر ہم کواپنے ہی ملک کے ایک الیکشن کے نتیجے کی یاد آگئی جس میں ایک امیدوار پچاس ہزار ووٹوں سے پیچھے تھا ۔ اُس سے پوچھا گیا کہ کیا آپ اپنی ہار کو تسلیم کرتے ہیں تو اُس نے کہا ابھی ووٹوں کی گنتی پوری نہیں ہوئی۔
ہم نہیں جانتے کہ اس انتخاب میں ہلاری کلنٹن جتیں گی یا مسٹر ٹرمپ جیتیں گے نہ ہم کو کسی کی ہار سے نقصان ہوگا اور نہ کسی کی جیت سے فائدہ لیکن ہمارا ذاتی خیال یہ ہے کہ اگر مسٹر ٹرمپ ہارتے ہیں تو اپنی ہار کے ذمہ دار وہ خود ہوں گے ۔ صنفِ نازک کے تعلق سے اُن کا رویہ ایسا ہے کہ خواتین اُن کے طرزِ عمل سے ناخوش ہیں۔ ایک خاتون نے کہا ہے کہ ٹرمپ کی گرفت ہشت پا بچھو Octopus سے زیادہ سخت ہوتی ہے۔ سیاہ فام آبادی اور دوسرے ملکوں سے آئے ہوئے لوگ بھی اُن سے بدگمان ہیں۔ ہلاری کلنٹن خود خاتون ہیں اور اپنے شوہر کے زمانے سے وہ حکومت کی سرگرمیوں سے واقف ہیں اور اعلیٰ عہدہ پر فائز رہ چکی ہیں لیکن شاید اُن کی صحت اتنی اچھی نہیں کیونکہ اُن کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ کبھی کام کے دباؤ سے بے ہوش بھی ہوجاتی ہیں۔ مسٹر ٹرمپ پریس اور میڈیا پر مسلسل برس رہے ہیں ۔ پریس کو ناخوش کرنا بھی ہوش مندی نہیں ہے۔
امریکی صدارتی انتخاب کو دیکھتے ہوئے اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارے ملک میں مخالف پارٹیوں کے امیدوار ایک اخلاقی حد برقرار رکھتے ہیں اور اگر کوئی امیدوار یہ حد پار کرتا ہے تو الیکشن کمیشن ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کے قانون کے تحت امیدوار پر روک لگاتا ہے ۔ ہماری جمہوری اقدار قابل قدر ہیں لیکن امریکہ میں ان دنوں آداب و اخلاق مطلق دکھائی نہیں دیتے۔
ہم کو یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ جس طرح ہمارے ملک میں بعض ایجنسیاں انتخابی سروے کرتی ہیں اور نجومی حضرات پیش گوئیاں کرتے ہیں جو اکثر غلط نکلتی ہیں ، امریکہ میں بھی انتخابی سروے ہوتا ہے چنانچہ تازہ ترین سروے میں مسٹر ٹرمپ اور میڈم ہلاری تقریباً قدم بقدم چل رہے ہیں۔ ٹرمپ صاحب ووٹروں میں اپنے نام کی ٹوپی اور ٹی شرٹ بھی تقسیم کر رہے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ انہوں نے الیکشن میں دس کروڑ ڈالر اپنی جیب سے بھی خرچ کئے ہیں۔ اگر حب الوطنی کے جوش میں کوئی اپنی جیب سے بڑے بڑے اخراجات کرتا ہے تو تعریف کی بات ہے لیکن اگر کوئی بزنس مین کسی عہدے کیلئے پیسہ لگاتا ہے تو معاملہ قابل غور معلوم ہوتا ہے ۔ 8 نومبر زیادہ دور نہیں۔ دیکھئے کیا نتیجہ نکلتا ہے اور نتیجے کے بعد دنیا کے حالات کیا رہتے ہیں۔