امریکہ کی اسرائیل نوازی عربوں کی بے بسی، اقوام متحدہ کی بے حسی

محمد مبشرالدین خرم
بھوک مری، افلاس، فاقہ کشی ، قحط سالی سے متاثرہ عوام کو مالی امداد کچھ حد تک راحت پہنچاسکتی ہے اور لوگ بھوک مری و افلاس ، فاقہ کشی و قحط سالی کو فراموش کرسکتے ہیں لیکن جو اقوام حالت جنگ میں ہوتی ہیں انہیں مالی مدد راحت نہیں پہنچاتی بلکہ ان کے حوصلوں کو پست کرنے کی سازشوں کا افشاء کرنے لگتی ہیں۔ حالت جنگ میں فوج کا جو حال ہوتا ہے ، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہ نہ صرف مادر وطن کیلئے اپنی جان قربان کرنے کا جذبہ لئے دشمن کی طرف بڑھتی ہے اور دشمن کے حوصلوں کو کمزور کرنا بھی اس کے اہداف میں شامل ہوتا ہے لیکن جب اپنے سمجھے جانے والے ہی افواج کوعسکری امداد کے بجائے مالی امداد کے ذریعہ دشمن کے حوصلوں میں اضافہ کرنے لگتے ہیں تو ایسے میں وہ مظلوم جو اپنے حق کیلئے جدوجہد کر رہا ہے، وہ اپنوں سے مدد کی امید چھوڑ دیتا ہے اوراس کی نگاہیں صرف اس در پر ٹک جاتی ہے جہاں ہر مظلوم کی آہ و فغاں سنی جاتی ہے۔

فلسطین گزشتہ 60 برس سے زیادہ عرصہ سے یا عرب یا عرب کہہ رہا ہے لیکن اب جو نسل فلسطین میںجنگ کیلئے تیار ہے وہ 60 برس سے زائد عربوں کو پکارنے والے اپنے اسلاف سے انحراف کرتے ہوئے یا رب یا رب کی آواز دے رہے ہیں اور ان کی اس آواز سے آج دنیا کے ہر خطہ میں انسانیت رکھنے والے قلب و ذہن آواز ملا رہے ہیں ۔ فلسطین میں اسرائیلی جارحیت کے خلاف اپنے اتحاد کا مظاہرہ کر رہے ہیں لیکن اس کے باوجود اسرائیل و امریکہ کے معاملات میںاندھے ، گونگے اور بہرے اقوام متحدہ پر اس کا کوئی اثر نہیں ہورہا ہے

بلکہ امریکہ کی جانب سے یہ کہا جارہا ہے کہ اسرائیل کو اپنے دفاع کا مکمل حق حاصل ہے۔ امریکہ جو کہ انسانیت نوازی اور جمہوری حکمرانی کی تشکیل کے دعوؤں کے ساتھ لاکھوں معصوموں کا قتل کرچکا ہے ، اس کی جانب سے اسرائیل کے اس عمل کو درست قرار دیا جانا کوئی حیرت انگیز بات نہیں ہے لیکن یہ کہا جانا کہ اسرائیل کو دفاع کا حق حاصل ہے، اس سے امریکہ کی اسرائیل نوازی اور اسرائیل کی سرپرستی ثابت ہوتی ہے چونکہ دفاع کا حق اسے حاصل ہوتا ہے جو حملے برداشت کر رہا ہو اور حملوں میں جن کی جانیں جارہی ہیں۔ یہودی قوم اس حد تک ظالم ثابت ہوگی اس کا اندازہ تو ہے ہی لیکن امریکہ کی جانب سے یہ کہا جانا کہ اسرائیل کو اپنی دفاع کا حق حاصل ہے ، اس بات پر بھی عالم عرب کی خاموشی سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ امریکہ کی ذہنی غلامی سے یہ آزاد نہیں ہو پائیں گے بلکہ جو ممالک امریکی غلامی سے آزاد تصور کئے جاتے تھے ، وہ بھی جوہری مذاکرات کے ذریعہ مغربی غلامی کا طوق پہننے تیار ہیں۔ غزہ میں 300سے زائد فلسطینیوں کی اموات ہوچکی ہیں۔ 1797 افراد زخمی ہیں جن میں 900 سے زائد شدید زخمی بتائے جاتے ہیں۔

ہزاروں گھر تباہ کئے جاچکے ہیں ، شہری علاقوں پر بمباری میں شہرکے نوجوانوں و ضعیفوں کو نشانہ بنایا گیا ہے ۔ تاحال اسرائیلی بموں نے 97 معصوم بچوں کو بھی اپنا نشانہ بنایا ہے ۔ اس کے باوجود امریکہ یہ کہہ رہا ہے کہ اسرائیل کو اپنی دفاع کا حق ہے تو امریکہ کو چاہئے کہ وہ اسرائیلی اموات کا بھی جائزہ لیں جو گزشتہ 8 یوم میں صرف ایک ہوئی ہے اور زخمیوں کی تعداد 12 تا 18 بتائی جاتی ہے۔ ہلاک ہونے والے یہودی کی قیمت اگر 100 فلسطینی جانیں بھی ہیں تو فلسطین نے یہ قیمت ادا کردی ہے۔ اگر اس کے باوجود مظلوم پر مزید ظلم کے پہاڑ ڈھائے جاتے رہیں گے تو یقیناً ایک دن آئے گا کہ دنیا کے ہر کونے سے ’’لبیک یا غزہ‘‘، ’’انا خادمین الاقصیٰ‘‘ کے نعرے بلند ہوں گے اور نوجوان اپنی صلاحیتوں اور رسائی کے مطابق امریکی و اسرائیلی مفادات کو نقصان پہنچانے میں کوئی تامل نہیں کریں گے ۔

ہندوستان نے مسئلہ غزہ پر جو موقف اختیار کیا ہے حکومت ہند سے اس کی توقع تو رکھی جارہی ہے چونکہ جب اقتدار پر گاندھی کے قاتلوں کا نظریہ اثر انداز ہو تو وہ کس طرح اس فلسطین کی مظلومیت پر آواز اٹھاسکتے ہیں جس کی مظلومیت کا احساس بابائے قوم کو تھا ۔ ہندوستانی وزارت خارجہ نے اس بات کی صراحت کردی کہ ہندوستان کے دوستانہ تعلقات فلسطین اور اسرائیل دونوں سے ہی ہے اسی لئے وہ اس مسئلہ پر زیادہ بحث میں الجھنا نہیں چاہتا چونکہ کسی ایک فریق کی حمایت سے دوسرے فریق سے تعلقات میں کشیدگی کا خدشہ پیدا ہوتا ہے۔ اسی لئے ہندوستان کی جانب سے کسی ایک فریق کی مکمل حمایت نہیں کی جائے گی۔ ہندوستان کے اس موقف سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ اب فلسطین کے مسئلہ پر فلسطینی عوام کی مکمل حمایت نہیں کرے گا۔ بلکہ وہ بھی اسرائیلی مفادات کے آگے سر تسلیم خم کئے ہوئے ،ہر اس فیصلہ کو قبول کرنے کیلئے تیار ہے،خواہ وہ کسی پر بھی ظلم ڈھاکر کیا جائے یا پھر کسی کی زمین غصب کرتے ہوئے کیا جائے۔

فلسطین میں جاری اسرائیلی بمباری اور غیر انسانی حرکت کے سبب خود کئی یہودی اسرائیل کی مذمت کر رہے ہیں لیکن اس کے باوجود شمعون پیریز اور بنجامن نتن یاہو کے کان پر جوں نہیں رینگتی بلکہ وہ اس جنگ کو مقدس تصور کر رہے ہیں۔ غزہ میں پیدا شدہ حالات کو جنگ کہنا بھی درست نظر نہیں آتا چونکہ جنگ ان پر ہوتی ہے جو برابر والے ہوتے ہیں لیکن اسرائیل نے معصوم شہریوں کو نشانہ بناتے ہوئے یہ ثابت کردیا ہے کہ وہ غزہ پرجنگ مسلط نہیں کر رہا ہے

بلکہ وہ تو غزہ پر درندگی کی ایک نئی تاریخ مرتب کرنے جارہا ہے ۔ حماس اور اسرائیل سے جنگ بندی کی اپیل کرنے والے مصر اور عرب ممالک کو پہلے یہ جاننا چاہئے کہ کیا واقعی دونوں کے درمیان جنگی صورتحال ہے؟ یا پھر حماس کے نام پر اسرائیل معصوم فلسطینیوں کو شہید کرتے ہوئے اپنے مقاصد کی تکمیل کا ارادہ رکھتا ہے ۔ ترکی نے اسرائیل کو انتباہ دیا تھا کہ اسرائیل اگر غزہ پر زمینی حملہ کا آغاز کرتا ہے تو اس کے نتائج سنگین برآمد ہوں گے لیکن اب جبکہ اسرائیل کا جنگی جنون غزہ کی سر زمین پر سر چڑھ کر بول رہا ہے تو ایسی صورت میں بیشتر ممالک کی عوام سڑکوں پر آرہے ہیں لیکن سربراہان مملکت پر سکوت طاری ہے۔ غزہ میں گزشتہ 10 یوم سے جاری جارحیت پر اقوام متحدہ کو 6 یوم کے بعد اجلاس طلب کرنے کا ہوش آیا جبکہ یوکرین میں ایک طیارہ کو نامعلوم دہشت گردوںکی جانب سے مار گرائے جانے کے فوری بعد اقوام متحدہ نے اجلاس طلب کرلیا ۔ شاید اقوام متحدہ صرف یہ جاننا چاہتا ہے کہ وہ دہشت گرد کون تھا جس نے ملایشیائی طیارہ MH-17 کو نشانہ بنانے کی صلاحیت کس دہشت گرد کے پاس ہے چونکہ اسرائیلی دہشت گردی پر تو اقوام متحدہ نے خاموشی کے ذریعہ یہ ثابت کردیا کہ اسرائیل کودرندگی کی کھلی چھوٹ حاصل ہے۔ ایران نے بھی متعدد مرتبہ فلسطین کی حمایت کرتے ہوئے یہاں تک کہہ چکا ہے کہ ایران کی نظر میں اسرائیل ایک ’’مکڑی کے جالے‘‘ کی طرح ہے اور ایران جوہری قوت بننے کے بعد اسرائیل کا صفایا کردے گا۔ ترکی نے غزہ کے زمینی حملہ کے خلاف سخت عواقب و نتائج کا انتباہ دیا لیکن عملی طور پر ترکی ، قطر ، مصر و دیگر بھی خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں ۔ یہی صورتحال دیگر عرب ممالک کی ہے جو فلسطین کو مالی امداد فراہم کرتے ہوئے اپنی ذمہ داریوں سے سبکدوشی تصور کر رہے ہیں جبکہ فلسطین کو مالی نہیں بلکہ عسکری امداد کی ضرورت ہے ۔ حماس کا فوجی حصہ القسام بریگیڈ نے تمام عرب ممالک کو یہ پیغام دیا ہے کہ عرب ممالک اگر اپنے پاس موجود ہتھیار میں سے صرف دس فیصد ہتھیار القسام کو فراہم کرتے ہیں تو ایسی صورت میں شہید عزالدین القسام بریگیڈ تمام مسلمانوں کو مسجد اقصیٰ میں نماز عیدالفطر کیلئے مدعو کرتے ہوئے ان کی میزبانی کرنے تیار ہیں۔ القسام کے اس پیغام کا جواب سعودی عرب نے مالی امداد سے دیا جبکہ دیگر عرب ممالک نے جنگ بندی کی اپیل کرتے ہوئے اپنی ذمہ داری ختم سمجھی۔ غزہ میں جاری حالات پر آرگنائزیشن آف اسلامک کانفرنس (او آئی سی) نے ہنگامی اجلاس طلب کرتے ہوئے اسرائیلی حملوں کا شکار غزہ کیلئے ریلیف کی اپیل جاری کی ہے۔ سکریٹری جنرل او آئی سی عیاد امین مدنی نے اجلاس کے بعد جاری کردہ اپنے بیان میں اسلامی دنیا سے اپیل کی ہے کہ وہ فلسطینی عوام کی انسانی بنیاد پر مدد کریں۔ جزائرۃ العرب میں سب سے مستحکم تصور کی جانے والی مملکت سعودی عرب نے 53.3 ملین امریکی ڈالر کی امداد غزہ کے مظلومین کیلئے جاری کردی جس سے غزہ کے متاثرین کی بازآبادکاری اور انہیں طبی امداد فراہم کی جائے گی ۔ مختلف ذرائع سے موصول ہونے والی اطلاعات کے بموجب امریکی کانگریس نے اسرائیل پر راکٹ حملوں کو روکنے کیلئے تیار کئے جارہے آہنی گنبد نما جال کی تعمیر کیلئے 351 ملین ڈالر جاری کرنے کیلئے منظوری دیدی ہے۔ ا سرائیل کے اس اینٹی میزائیل سسٹم کو مالی سال 2015 ء کے امریکی بجٹ سے 351 ملین ڈالر جاری کئے جائیں گے جبکہ اطلاعات کے بموجب اس مقصد کیلئے امریکہ اسرائیل کو سال 2014 ء کے دوران 235 ملین ڈالر جاری کرچکا ہے ۔ اسرائیل کی حمایت کرنے والے ممالک میں بھی نہتے معصوم فلسطینیوں پر ہونے والے مظالم کے خلاف احتجاج جاری ہے لیکن اس کے باوجود کوئی دنیاوی طاقت اسرائیل کو ان مظالم سے روکنے پر قادر نظر نہیں آرہی ہے۔
عرب و عجم کی موجودہ صورتحال کا باریک بینی سے جائزہ لینے پر اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ عالمی سطح پر خون مسلم کی ارزانی پر خاموش تماشائی بنے رہنے والے حکمرانوں کی زندگیاں خوشحال گزر رہی ہیں جبکہ جن لوگوں نے اسیری کے عالم میں بھی لبیک یا غزہ کے نعرے لگائے وہ آج بھی پریشان کن حالات سے دوچار ہیں۔ جزائرۃ العرب میں موجود ممالک ماہ مقدس کے دوران اگر اپنے ممالک میں غزہ و فلسطین کیلئے عسکری امداد کی روانگی کیلئے خیرات و صدقات کی اپیل کرتے ہیں تو یہ بات یقین کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ ان ممالک کے حکمراں طبقہ کے پاس جتنی دولت جمع ہے، کم از کم اتنی دولت بطور خیرات و صدقات برائے غزہ و فلسطین جمع ہونے کیلئے 10 دن بھی نہیں لگیں گے اور فلسطین اپنے دفاع کا متحمل ہوگا ۔