امریکہ میں بڑھتا ہوا گن کلچر

بوکر ببول آم کی خواہش نہ کیجئے
زہریلے بیج بو کے نہ امرت تلاش کر
امریکہ میں بڑھتا ہوا گن کلچر
ساری دنیا میں پولیس اہلکار کا رول ادا کرنے والا امریکہ تقریبا ہر ملک کو حقوق انسانی کا درس دینا اپنا اولین فریضہ سمجھتا ہے ۔ کسی بھی ملک میں چاہے کوئی بھی واقعہ پیش آتا ہو امریکہ اس پر اپنا ایک موقف واضح کرنا ضروری سمجھتا ہے ۔ تاہم خود امریکہ میں حالات ایسے ہوتے جا رہے ہیں جس میں خود عام امریکی عوام اپنے آپ کو غیر محفوظ سمجھنے لگے ہیں۔ آئے دن یہاں فائرنگ کے واقعات پیش آتے جا رہے ہیں اور گن کلچر کو فروغ مل رہا ہے ۔ فائرنگ کے واقعات یقینی طور پر افسوسناک ہوتے ہیں جن میں عام آدمی کی زندگیاں تلف ہوجاتی ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ واقعات امریکی معاشرہ میں پائی جانے والی بے چینی کو بھی ظاہر کرتے ہیں۔ یہ امریکی نظام کیلئے لمحہ فکریہ ہے کہ ایسے واقعات وہاں بتدریج بڑھتے جا رہے ہیں اور لوگ اس پر سوائے کف افسوس ملنے کے کچھ نہیں کر پا رہے ہیں۔ خود صدر امریکہ بارک اوباما نے بھی ایسے واقعات پر افسوس کا اظہار کیا ہے لیکن صرف افسوس ظاہر کرنے سے یہ مسئلے حل نہیں ہوجاتے بلکہ اس کے تدارک کیلئے سارے معاشرہ میں بہتری کیلئے اقدامات کرنے کی ضرورت ہوتی ہے اور فی الحال ایسا کچھ بھی ہوتا نظر نہیں آ رہا ہے ۔ گذشتہ دنوں امریکہ کے مختلف شہروں میں فائرنگ کے واقعات پیش آتے رہے ہیں اور ان واقعات میںعام اور بے گناہ شہری زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ ٹیکساس میں پھر ایک تازہ واقعہ پیش آیا ہے جہاں فائرنگ میں ایک شخص ہلاک ہوگیا اور تین دوسرے زخمی ہوگئے ہیں۔ 12 جون کو اولینڈو میں ایک کلب پر فائرنگ ہوئی جس میں تقریبا 49 افراد ہلاک ہوگئے تھے ۔ اس واقعہ کو انتہا پسندی سے جوڑا گیا تھا اور ساری دنیا میں اس کی مذمت ہوئی تھی ۔ اس کے بعد 7 جولائی کو ایک سابق امریکی فوجی نے ڈالاس میں فائرنگ کرتے ہوئے پانچ پولیس اہلکاروں کو ہلاک کردیا تھا ۔ اس سے قبل بھی امریکہ میں ایسے واقعات پیش آئے ہیں جن میں محض شوقیہ فائرنگ کرتے ہوئے بے گناہو ںکو موت کی نیند سلادیا گیا ہے ۔ ہر واقعہ کے بعد کچھ دن سوگ منایا جاتا ہے اور مہلوکین کو خراج پیش کرتے ہوئے اسے فراموش کردیا جاتا ہے ۔ واقعات کے تدارک کیلئے کوئی جامع اور مبسوط حکومت عملی تیار نہیں کی جاتی ۔
جو واقعات اب امریکہ میں پیش آ رہے ہیں وہ امریکی معاشرہ کے کھوکھلے پن اور وہاں عوام میں پائی جانے والی بے چینی و عدم اطمینان کی کیفیت کو ظاہر کرتے ہیں۔ ایسے واقعات اس بات کے متقاضی ہیں کہ امریکہ دنیا بھر میں دوسروں کو درس دینے کی بجائے اپنے معاشرہ میں پائی جانے والی بے چینی اور مسلسل فروغ پاتے ہوئے بندوق کے کلچر کو ختم کرنے پر توجہ دے ۔ جب اولینڈو میں فائرنگ ہوئی تو اسے آئی ایس آئی ایس سے جوڑا گیا ۔ یقینی طور پر آئی ایس آئی ایس قابل مذمت اور قاتلوں کا گروپ ہے جس کی ہر گوشے سے مذمت کی جانی چاہئے لیکن ساتھ ہی جو عام شہری بندوق اٹھا رہے ہیں اور دوسرے بے گناہوں کو قتل کر رہے ہیں ان کے تعلق سے بھی سخت گیر رویہ اختیار کرنے کی ضرورت ہے ۔ ان عناصر پر بھی قابو پانے کیلئے اقدامات کئے جانے چاہئیں ۔ اب تک یہ واقعات یکا دوکا واقعات قرار دئے جاتے رہے ہیں لیکن اب ان میں ایک تسلسل پیدا ہو رہا ہے اور مسلسل امریکہ کے کسی نہ کسی شہر میں یہ واقعات پیش آ رہے ہیں اور بے گناہوں کا خون بہایا جا رہا ہے ۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ عام نوجوان ایسے واقعات میں ملوث رہے ہیں اور انہوں نے پہلے تو بے دریغ فائرنگ کرتے ہوئے دوسروں کو موت کے گھاٹ اتار دیا اور پھر خود کو بھی یا تو خود انہوں نے ہلاک کردیا یا پھر وہ پولیس کی جوابی فائرنگ میں ہلاک ہوگئے ۔ پہلے تو سیاہ فام باشندوں کو اس طرح کے واقعات کیلئے ذمہ دار قرار دیا جاتا رہا ہے ۔ سیاہ فام باشندے ایسے واقعات میں ملوث بھی رہے ہیں کیونکہ وہاں ان کے ساتھ امتیاز برتا گیا تھا ۔
اب فائرنگ کے واقعات صرف سیاہ فام باشندوں تک محدود نہیں رہے ہیں۔ امریکی معاشرہ میں امتیازی سلوک اور نفرت کا ماحول دھیرے دھیرے سرائیت کرتا جا رہا ہے ۔ اب صدارتی امیدوار ڈونالڈ ٹرمپ بھی ایسا لگتا ہے کہ اپنی تقاریر سے اس لعنت کو ہوا دے رہے ہیں اور وہ نفرت کی سیاست کو اختیار کر رہے ہیں۔ عام شہریوں کو ہتھیار کس طرح حاصل ہوتے ہیں یہ سوال سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے ۔ اس صورتحال کو خود امریکی معاشرہ کیلئے ‘ امریکی عوام کیلئے خطرناک قرار دیا جاسکتا ہے ۔ دنیا کے کسی بھی ملک میں ہتھیار موجود ہوں تو حکومت امریکہ اسے امریکی عوام کیلئے خطرناک قرار دیتی ہے لیکن خود اس کے شہروں میں اس کے نوجوانوں کے ہاتھوں میں ہتھیار کسی رکاوٹ کے بغیر پہونچ رہے ہیں اور اس پر قابو پانا امریکہ کیلئے ضروری ہے ۔