امریکہ عالم اسلام کو مسلکی بنیادوں پر تقسیم کرنے میں مصروف

محمد مبشرالدین خرم

کرۂ ارض پر نظام حکمرانی کے متعلق کھلی وضاحتیں موجود ہونے کے باوجود بعض قوتیں چاہتی ہیں کہ زمین کے شمال و جنوب اور مشرق و مغرب پر ان کی حکمرانی قائم ہو لیکن ایسا قطعی ممکن نہیں چونکہ خالق کائنات نے ہر اس شئے کو اپنی ملک قرار دیا ہے جو اس نے پیدا کیا ہے اور وہی طاقت بروز محشر ان تمام چیزوں کو تباہ کردے گی۔ نظام حکمرانی خواہ کسی ملک و طرز کا ہو وہ عارضی نظام حکمرانی ہے جبکہ مستقل نظام حکمرانی وہ ہے جس میں نہ صرف مساوات کا درس ہے اور وہ نظام حکمرانی کسی کی حق تلفی کی اجازت نہیں دیتا۔ اس نظام حکمرانی کی تعلیمات میں کالے کو گورے یا عربی کو عجمی پر کوئی فوقیت حاصل نہیں ہے بلکہ یہ نظام حکمرانی کی تعلیمات میں صرف اگر کسی کو کسی پر فوقیت حاصل ہے تو وہ تقویٰ کی بنیاد پر ہے۔ جو لوگ زمین کے طول و ارض پر اس نظام حکمرانی کے قیام کے خواہشمند ہیں انہیں ہمیشہ ہی دہشت گرد قرار دینے کی کوششیں ہوتی رہی ہیں جبکہ یہ نظام حکمرانی کسی مذہب کے ماننے والے یا کسی مسلک سے تعلق رکھنے والے کے ساتھ ناانصافی کا درس نہیں دیتا۔ مغربی دنیا بالخصوص اسرائیل و امریکہ عالم اسلام کو مسلکی بنیادوں پر منقسم کرتے ہوئے ان میں موجود معاشرتی نظام و مذہبی اخوت کے خاتمہ کی کوشش میں مصروف ہے

اور ان کوششوں کا آ غاز آج سے نہیں بلکہ امریکہ نے جس وقت روس پر جنگ چھیڑی تھی ، اسی وقت سے کیا جانے لگا تھا اور اب یہ کوششیں دنیا کے ہر کونے تک پہنچنے لگی ہیں۔ عالم اسلام جو کہ کلمہ کی بنیاد پر متحد رہا ہے اور اسی کلمہ توحید کے باعث وہ ایک دوسرے کے درد کو محسوس کرتا ہے لیکن اس میں نفاق پیدا کرنے کی جو سازش امریکہ نے تیار کی ہے، وہ سازشیں اب سرزمین عراق پر کامیاب ہونے لگی ہیں۔ عراق و شام جو کہ زمانہ قدیم سے ہی متعدد انقلابی تبدیلیوں کا منبہ و مرکز رہا ہے ۔ اس سرزمین پر ایک مرتبہ پھر جس طرح کی کوششیں کی جارہی ہیں اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ سرزمین عرب و عجم پر امریکہ اپنی بالواسطہ حکمرانی کو یقینی بنانے کی سازش میں مصروف ہے۔ گزشتہ چند برسوں سے شام میں جاری خانہ جنگی کی صورتحال میں امریکہ نے راست یا بالواسطہ طور پر اپنے مفادات کے تحفظ کی بیرونی کوشش کے ذریعہ دنیا کو یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ وہ شام کے معاملات میں راست مداخلت کا خواہشمند نہیں ہے

بلکہ وہ چاہتا ہے کہ شام خود اپنے داخلی معاملات کو اپنے ہی طور پر حل کرلے لیکن ایران نے شام کے مسئلہ پر جو موقف اختیار کیا وہ بالکلیہ طور پر علحدہ رہا اور ایران نے بشارالاسد کی حکومت کی حمایت میں افواج روانہ کی اسی طرح لبنان میں سرگرم حزب اللہ نے بھی شام میں جاری خانہ جنگی میں النصرہ باغیوں کے خلاف جنگ میں حصہ لیا۔ حزب اللہ جو کہ اسرائیلی افواج سے جنگ کا تجربہ رکھتی ہے ، نے شام میں النصرہ کے خلاف جدوجہد کی۔ اس کے باوجود النصرہ حلب کے علاوہ اطراف و ا کناف کے شہروں پر آج بھی اپنا قبضہ برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ عراق میں جاری خانہ جنگی کی صورتحال میں ’’الدولۃ الاسلامیہ فی العراق والشام‘‘ (داعش) کو سابق صدر عراق صدام حسین کے حامیوں کی حمایت حاصل ہے، وہیں صورتحال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے النصرہ کی جانب سے داعش کی حمایت کے اعلان اور متوقع انضمام نے مغرب بالخصوص امریکہ و اسرائیل کے ہوش اڑادیئے ہیں اور جو امریکہ اب تک عراق میں راست مداخلت یا جنگ مسلط کرنے کے متعلق سنجیدگی کا اظہار نہیں کر رہا تھا

اور وزیراعظم عراق نورالمالکی پر ناراضگی ظاہر کر رہا تھا، اب عراق پر ایک اور جنگ مسلط کرنے کے متعلق منصوبہ بندی میں مصروف ہے ۔ ہفنگٹن پوسٹ میں شائع ایک مضمون میں یہ بات پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ مغربی دنیا کو عراق میں جاری حالات پر اس وجہ سے بھی بہت ز یادہ تشویش ہے کہ داعش کے حامیوں میں برطانوی نژاد نوجوان بھی شامل ہورہے ہیں اور القاعدہ کے نظریات کی حامل داعش کو ظاہری طور پر بہت کم حمایت عالمی سطح پر حاصل ہورہی ہے لیکن انٹرنیٹ کے دور میں ٹوئیٹر و فیس بک پر داعش کے حامیوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ امریکہ میں خاص طور پر ابوبکر البغدادی کی منصوبہ بندیوں کا جائزہ لیا جارہا ہے اور مغربی میڈیا ڈاکٹر ایمن الظواہری اور بغدادی کے درمیان اختلافات کی اطلاعات کے ذریعہ داعش کو حاصل ہونے والی حمایتوں میں تخفیف کا جائزہ لے رہا ہے۔ سر ز مین عراق اور شام میں پیدا شدہ صورتحال کے اثرات نہ صرف ان دو ممالک تک محدود ہیں بلکہ بلد الشام میں جاری ان حالات کے اثرات اردن، مصر، سعودی عرب، کویت ، ترکی ، قطر اور دیگر ممالک میں بھی محسوس کئے جانے لگے ہیں۔ مغرب کی طاغوتی قوتیں جس انداز سے مسلمانان عالم میں تفریق پیدا کرتے ہوئے انہیں مسلکی گروہوں میں تقسیم کرتے ہوئے اتحاد میں دراڑ پیدا کر رہی ہیں، اس کی بنیادی وجہ کا باریک بینی سے جائزہ لینے پر پتہ چلتا ہے کہ مسلمانان عالم کی طاقت کمزور کرتے ہوئے صیہونی قوتیں اپنی حکمرانی کی برقراری کیلئے کوشاں ہیں۔ صیہونی سازشوں کا یہ نتیجہ سامنے آرہا ہے کہ خون مسلم کی ارزانی پر بھی عالم اسلام خاموش تماشائی بنا ہوا ہے اور اپنے مفادات کے تحفظ کے علاوہ اپنے اطراف و اکناف کے ماحول کو باغی ہونے سے بچانے میں مصروف نظر آرہا ہے ۔ عراق میں پیدا شدہ حالات کیلئے مکمل طور پر جہاں امریکہ ذمہ دار ہے، وہیں نورالمالکی کی حکومت کی جانب سے اختیار کردہ دوہرا رویہ بھی برابر کا ذمہ دار ہے۔ صدام حسین کے دور اقتدار میں مقتدر طبقہ پر بھی اسی طرح کے الزامات عائد ہوتے رہے تھے اور گزشتہ چند برسوں سے عراق کے پڑوسی ملک شام کے اقتدار اعلیٰ پر بھی مخصوص طبقہ کی حمایت اور

ایک طبقہ کو نظر انداز کرنے کی شکایات ہیں۔ ان شکایات کا راست فائدہ امریکہ کو ہورہا ہے جو مختلف طریقوں سے عالم عرب کی بے چینی کی کیفیت میں اضافے میں بڑی حد تک کامیاب ہوتا جارہا ہے ۔ مشرق وسطی بالخصوص فلسطین میں جاری اسرائیلی تباہ کاریوں و مظالم پر جہاں دنیا توجہ مبذول نہیں کر رہی ہے ، اس کا راست فائدہ اسرائیل کو ہورہا ہے۔ عالم اسلام میں فرقوں و مسلک کی بنیاد پر ہونے والی اس تقسیم کے فوائد حاصل کرنے والے تو متحد ہوتے جارہے ہیں لیکن مسلمان کئی خانوں میں بٹتے جارہے ہیں جس کے نتیجہ میں ان کی طاقت کمزور ہورہی ہے۔ اس بات کو بآسانی سمجھنے کیلئے عالمی سطح پر اسرائیل و امریکہ سے مسلم ممالک کے تعلقات کا اگر جائزہ لیا جائے تو یہ بات سامنے آئے گی کہ اسرائیل کی نظر میں جو ملک دہشت گردی کو فروغ دے رہا ہے ، امریکہ کی نظر میں وہ ملک اس کا حلیف بننے کا متحمل ہے۔ اگر کسی ملک کے متعلق امریکہ یہ رائے رکھتا ہے کہ اس کے معاملات میں مجھے مداخلت نہیں کرنی ہے تو اس ملک کے متعلق اسرائیل کی یہ رائے ہے کہ اگر اس مملکت کے معاملات میں مداخلت نہیں کی جاتی ہے تو اس کے سنگین نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔ ان حالات میں مسلمانوں بالخصوص جزائر عرب میں موجود حکمرانوں کو چاہئے کہ وہ اس صورتحال کی نوعیت کو سمجھتے ہوئے اس ادارہ کو کارکرد بنائیں جو مسلم ممالک کی سرحدوں اور اس میں بسنے والوں کے حقوق کے تحفظ کیلئے بنایا گیا ہے۔ عبدالرحمن الرشید مدیر العام العربیہ نیوز چیانل نے اپنے ایک تجزیہ کے دوران عراق کی موجودہ صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے یہ واضح کرنے کی کوشش کی کہ جو لوگ اسامہ بن لادن کی نعش کو سمندر میں غرق کرتے ہوئے یہ سمجھ رہے تھے کہ یہ سلسلہ اب ختم ہوجائے گا ، ان کے یہ خواب شرمندہ تعبیر تو نہیں ہوئے لیکن موجودہ صورتحال ان کے لئے مزید کربناک ثابت ہونے لگی ہیں۔ الشرق الاوسط کے ایک تجزیہ نگار نے ان حالات کو انتہائی تشویشناک قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگر سر زمین عراق پر حالات فوری قابو میں نہیں آتے ہیں تو اس کے اثرات پڑوسی ممالک پر مرتب ہوں گے ہی لیکن ساتھ ہی ساتھ مغربی دنیا کیلئے یہ حالات خطرہ کا باعث بن سکتے ہیں۔

مغرب اپنے بچاؤ کی خاطر عراق میں حالات کو معمول پر لانے کے بجائے عراق کو نئی الجھنوں میں الجھانے کی کوشش کر رہا ہے۔ برطانوی معتمد خارجہ ولیم ہیگ اور امریکی سکریٹری آف اسٹیٹ جان کیری کی عراق میں کرد اور دیگر قائدین بشمول وزیراعظم نورالمالکی سے ملاقاتوں کے بعدعراقی ذرائع ابلاغ کے مطابق یکم جولائی کو عراق میں حکومت کی تبدیلی کے سلسلہ میں پارلیمنٹ اہم فیصلہ کرسکتی ہے۔ اس نئی حکومت میں تمام طبقات کو نمائندگی کے ذریعہ قیام امن کی کوشش کرنے کے متعلق منصوبہ تیار کیا جارہا ہے۔ موجودہ صورتحال میں عراقی حکومت کو ایران کی فوجی امداد اور شام کے عراق پر فضائی حملوں کے بعد حالات تیزی سے ابتر ہوتے جارہے ہیں اور جزائر عرب میں بالخصوص سعودی عرب میں حکمراں طبقہ اس بے چینی کو محسوس کرتے ہوئے اپنی سرحدوں کے متعلق متفکر ہوچکا ہے۔ سعودی فرماں رواں نے جاریہ ہفتہ سلامتی کونسل کے اجلاس میں سرحدوں کی حفاظت کے علاوہ شہری علاقوں میں صیانتی انتظامات کو مزید بہتر بنانے کی ہدایات جاری کرتے ہوئے اپنے تفکرات کا اظہار کیا ہے، وہیں ترکی کی جانب سے اختیار کردہ رویہ بھی قابل غور ہے چونکہ ترکی اور کویت ایسے ممالک ہیں جہاں سے امریکہ عراق پر فضائی جنگ مسلط کرسکتا ہے۔ امریکہ اس بات پر بھی متفکر ہے کہ آیا جنگ مسلط کرنے کی صورت میں جو حالات پیدا ہوں گے کیا امریکہ انہیں برداشت کر پائے گا ؟ امریکہ میں کانگریس کے انتخابات جاری ہیں اور گزشتہ انتخابات میں کانگریس میں امریکی صدر بارک اوباما کی ڈیموکریٹک پارٹی کو اکثریت حاصل نہیں ہوپائی تھی۔ عراق کے یہ حالات اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کے تعلق سے ڈیموکریٹ نظریہ جنگ میں تبدیلی کے ذریعہ کانگریس میں اکثریت حاصل کرنے کی کوشش تو نہیں ہے؟
infomubashir@gmail.com