امریکہ: ریپبلیکن رہنما کو مسلمان ہونے کی بنا پر عہدے سے ہٹانے کی قرارداد نامنظور

واشنگٹن: امریکہ میں ایک رہنما کو ان کے مسلمان ہونے کی بنا پر عہدے سے ہٹانے کی کوشش کرنے والوں کو اس وقت منہ کی کھانی پڑی جب انہیں ہٹانے کے لئے لاے گئی ایک قرارداد منظور نہیں ہو پائی۔ معاملہ ٹیکساس کاؤنٹی کا ہے جہاں پر پاکستانی نژاد شاہد شفیع کو ان کے مذہبی عقائد کی بنیاد پر برطرف کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔ شاہد شفیع ٹیکساس کاؤنٹی سے ریپبلیکن پارٹی کے نائب صدر ہیں اور انہیں کی پارٹی کے کچھ رہنما ان کے خلاف قرارداد لے کر آئے تھے۔

ڈاکٹر شاہد شفیع پیشہ سے ایک سرجن اور ساؤتھ لیک سٹی کاؤنسل کے رکن ہیں۔ وہ 1990 میں پاکستان سے جاکر امریکہ میں آباد ہوئے ۔ وہ سال 2009 میں امریکہ کے شہری بنے۔
غیر ملکی خبررساں اداروں کے مطابق ٹونٹ کاؤنٹی کے صدر ڈالرل ایسٹن نے قرارداد نامنظور ہونے کے بعد کہا کہ ٹورنٹ کاؤنٹی ریپبلیکن کے ارکان کی اکثریت کی طرف سے شاہد شفیع کے خلاف لائی گئی قرارداد کے خلاف ووٹنگ کرنا ہماری اخلاقی اقدار کے عزائم کی تصدیق کرتا ہے، جو کسی بھی طرح کے مذہبی اور نسلی بھید بھاؤ پر روک لگاتی ہیں۔

وائس آف امریکہ کی رپورٹ کے مطابق ریپبلیکن پارٹی کا جو دھڑا شاہد شفیع کو ہٹانے کے لئے قرارداد لایا تھا اس کی قیادت کاؤنٹی پرسینکٹ کی سربراہ ’ڈوری اوبرائن‘ کر رہی تھیں۔ ڈوری نے اپنی ایک فیس بک پوسٹ میں کہا تھا کہ اُن کے پاس ووٹوں کی خاصی تعداد ہے، ’’اور کوئی شک نہیں کہ شفیع کو عہدے سے ہٹایا جا سکتا ہے‘‘۔

ڈاکٹر شفیع کی پارٹی سے وفاداری پر شک کا اظہار کرتے ہوئے، اوبرائن نے کہا ہے کہ ’’یہ بات واضح نہیں آیا وہ ریپبلیکن یا ڈیموکریٹ پارٹی کی پالیسیوں کے ساتھ ہمدردی رکھتے ہیں‘‘۔ اُن کا کہنا تھا کہ ’’چونکہ وہ اسلامی عقائد کے پابند ہیں، اس لیے میں نہیں سمجھتی کہ وہ نائب صدر رہنے اور ٹورنٹ کاؤنٹی کے ریپبلیکنز کے نمائندے کے طور پر کام کرنے کے اہل ہیں‘‘۔

قبل ازیں، ٹیکساس ریپبلیکن پارٹی کے کئی معروف لیڈروں نے شفیع کی حمایت میں بیان دیا ہے، جن میں سینیٹر ٹیڈ کروز، ٹیکساس لینڈ کمشنر جارج پی بش اور ایوان نمائندگان کے سابق اسپیکر جو اسٹروس شامل ہیں۔

واضح رہے کہ ڈاکٹر شفیع کو چھ ماہ قبل چیرمین ڈیرل ایسٹن نے نائب صدر مقرر کیا تھا۔ ایسٹن نے کہا کہ ’’یہ ایک انتہائی شرمناک امر ہے کہ ایسا سوچا بھی جا سکتا ہے۔ یہ پریشان کُن بات ہے‘‘۔
کاؤنٹی پرسینکٹ چیر کو لکھے گئے ایک حالیہ مراسلے میں، ایسٹن نے کہا ہےکہ یہ بے انصافی ہے کہ ایک مسلمان جو آٹھ سال سے پارٹی رکنیت رکھتا ہو، اس کے عطیات اور رضاکارانہ کام کو تو تسلیم کیا جائے لیکن ’’اچانک اُن کے مذہب کو نا مناسب قرار دے کر یہ کہا جائے کہ وہ پارٹی میں کسی عہدے پر تقرری کے لیے غیر موزوں ہے‘‘۔

ادھر ایک کھلے خط میں، شفیع نے کہا ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ ’’مسلمانوں کے خلاف زیادہ تر نفرت دہشت گردی کے خوف کے نتیجے میں ہے‘‘۔

اُنھوں نے کہا کہ ’’حقائق یہ ہیں کہ میں کبھی بھی نہ تو اخوان المسلمون یا کسی اور دہشت گرد تنظیم کے ساتھ منسلک رہا ہوں اور ناہی میرا تعلق’ کونسل آن امریکن اسلامک رلیشنز‘ سے ہے‘‘۔

بقول اُن کے ’’میں اس خیال کا ہوں کہ ہمارے ملک کے قوانین اور ہمارا آئین اور ضابطے ہمارے منتخب قانون سازوں کے منظور کردہ ہیں، میں نے کبھی کسی طور پر شریعت کے قانون کی بات نہیں کی۔ میں امریکی عدالتوں میں امریکہ کےقوانین کی مکمل حمایت کرتا ہوں‘‘۔ اُنھوں نے کہا کہ ’’مجھے اس بات پر فخر ہے کہ میں امریکی اور ریپبلیکن ہوں‘‘۔

شفیع نے ’واشنگٹن پوسٹ‘ کو بتایا کہ پہلی بار ایسا نہیں ہوا کہ بدقسمتی سے میرے سیاسی مخالفین نے میرے مذہب کو میرے خلاف استعمال کیا ہے۔‘‘
ادھر، ہیوسٹن سے تعلق رکھنے والے ڈیموکریٹ پارٹی کے سرکردہ رہنما، طاہر جاوید نے کہا ہے کہ مذہب کو بنیاد بنا کر کسی کی پارٹی کے لیے وفاداری پر شک کرنا، غیر اخلاقی اور غیر امریکی رویہ ہے۔

’وائس آف امریکہ‘ سے بات کرتے ہوئے، طاہر جاوید نے کہا کہ ’پرسینکٹ چیئر‘ ایک سرگرم سیاسی عہدہ ہوتا ہے، جہاں مقامی سطح پر اکثر اس قسم کی شکایات پیدا ہوتی ہیں، ’’لیکن یہ کبھی کامیاب نہیں ہوتیں‘‘۔ اُنھوں نے کہا کہ مذہبی امتیاز غیر آئینی اقدام ہوتا ہے، جس کی کوئی سیاسی جماعت بھی حمایت نہیں کرتی۔

الی نوائے سے ریپبلیکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے سرگرم رہنما، طلعت رشید نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ’’وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ مذہب کی بنیاد پر پارٹی کے کسی رکن کو ہٹایا جاسکتا ہے۔ جب کہ عین ممکن ہے کہ یہ کسی ضابطے کی پابندی نہ کرنے کی وجہ ہوگی‘‘۔

ساتھ ہی، طلعت رشید کا کہنا تھا کہ ’’سیاست سے وابستہ پاکستانی نژاد حضرات کو چاہیئے کہ وہ کھل کر پارٹی کی حمایت کیا کریں، یہ نہیں ہو سکتا کہ ہوں ایک جماعت میں، لیکن میانہ روی کی بات یا دعویٰ کریں‘‘۔