ایزابیل زیڈ
ڈونالڈ ٹرمپ کو براک حسین اوباما کے جانشین بنے چار ہی ماہ گزرے ہیں لیکن خود امریکی ماہرین معاشیات کو اندیشے ہورہے ہیں کہ دنیا کی بڑی طاقت معاشی انحطاط کی طرف بڑھ رہی ہے۔ امریکہ ہو یا کوئی بھی دیگر ترقی یافتہ قوم، اُن کے پاس مادہ پرستی کو زیادہ اہمیت ہوتی ہے جس کا لازمی نتیجہ ہوتا ہے کہ وہ دیگر ممالک کے مقابل معاشی طور پر طاقتور رہتے ہیں اور اسی کے بل بوتے پر وہ دیگر دنیا پر رعب جماتے ہیں اور انھیں برتری والا موقف حاصل رہتا ہے۔ جب یہی بنیادی عنصر کی حالت ڈگمگانے لگے تو ایسے ترقی یافتہ ملکوں کیلئے مزید کوئی تشویش کی بات نہیں رہتی اور وہ ہر طرح سے جٹ جاتے ہیں کہ کسی طرح منفی معاشی رجحان پر قابو پایا جائے۔
اس سارے معاملے میں ذرائع ابلاغ کا اہم رول ہوا کرتا ہے اور کسی بھی حکومت کی یہی کوشش ہوتی ہے کہ وہ میڈیا پر قابل لحاظ کنٹرول قائم رکھے اور وہی باتیں عوام تک جانے دیں جو وہ چاہتے ہیں۔ امریکہ میں اگرچہ موجودہ طور پر اصل دھارے والا میڈیا یہی مثبت تصویر پیش کرنے کوشاں ہے کہ ملک میں معاشی بحالی ہورہی ہے، لیکن بعض بہت الجھن آمیز علامتیں ہیں کہ 2008ء جیسی معاشی سست روی سر پر ہے۔ امریکی جی ڈی پی (مجموعی دیسی پیداوار) 2017ء کے پہلے سہ ماہی میں ایسی شرح پر آگے بڑھا جو تین سال میں اس کی بدترین شرح ہے، اور سالانہ شرح کے اعتبار سے جائزہ لینے پر محض 0.7 فیصد کا اضافہ ہوا، لیکن یہ تو بس ایک بڑے معاملے کی شروعات ہے۔ یہاں سات علامتوں یا اشاروں کو پیش کیا جاتا ہے کہ معاشی سست روی کا ایک اور دَور آنے ہی والا ہے۔
قومی قرض کا چڑھنا
ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر کانگریس اور ٹرمپ تیزی سے بڑھتے ہوئے قومی قرض کو روکنے کیلئے عملی اقدامات نہیں کرتے ہیں تو اقتصادی بکھراؤ لازماً ناگزیر ہے۔ حکومتی مصارف مسلسل بے قابو ہورہے ہیں، امریکہ پر بدستور 20 ٹریلین ڈالر کا قرض ہے اور اس میں ٹھہراؤ کے کوئی آثار نظر نہیں آرہے ہیں۔ مزید یہ کہ حکومتی تخمینوں سے اشارہ ملتا ہے کہ بنا فنڈ والے مالی واجبات میں 127 ٹریلین ڈالر ہیں، جس کا مطلب ہے کہ جب عوام سے کئے گئے وعدوں کو پورا کرنے کا وقت آئے تو حکومت کے پاس فنڈز کا فقدان رہے گا۔ ان معاملوں میں سوشل سکیورٹی بھی ہوسکتا ہے یا اور کوئی بھی عوامی مسئلہ۔
کنزیومر دیوالیہ پن میں اُچھال
ڈسمبر 2016ء اور جنوری 2017ء ایسے اولین مواقع ثابت ہوئے جب دیوالیہ پن کے وقوع میں گزشتہ سال کے مقابل اضافہ نوٹ کیا گیا اور ایسا متواتر سات برسوں سے ہورہا ہے۔ جب مارچ میں دیوالیہ پن کے ادخال کے معاملے میں سال بہ سال کے اعتبار سے مزید چار فیصد کا اضافہ دیکھنے میں آیا تو یہ واضح ہوگیا کہ معیشت پریشانی میں مبتلا ہے۔
ریٹیل کاروباروں کا بند ہونا اور دیوالیہ پن میں اضافہ
اگر آپ نے محسوس کیا کہ حالیہ عرصے میں کئی بزنس ٹھپ ہوتے دیکھنے میں آئے ہیں تو اس کی وجہ ریکارڈ تعداد میں اسٹورز کا بند ہوجانا ہے۔ ماہرین کے تخمینے کے مطابق رواں سال کے ختم تک زائد از 8,000 اسٹورز بند ہوجائیں گے، جو 6,163 ریٹیل بزنس کو تالا پڑنے کے 2008ء کے ریکارڈ کو پیچھے چھوڑ دے گا۔ Bankruptcies (تجارتی؍ کاروباری اداروں کا دیوالیہ نکل جانا) بھی مائل بہ عروج ہیں، جیسا کہ 2017ء کے ابتدائی تین ماہ میں ہی 14 ریٹیل چینس نے ’بینکرپٹسی پروٹکشن‘ یا لکویڈیشن (کاروبار کے خاتمے کی کارروائی) کیلئے درخواستیں داخل کئے ہیں۔ یہ 2016ء کے برعکس ہے جب تمام سال میں صرف 18 بینکرپٹسی فائلنگس درج ہوئی تھیں۔
شرح ترقی سے کہیں آگے ہے گزربسر کا خرچ
گزشتہ 13 برسوں میں گھرانہ کی آمدنی میں 28 فیصدی شرح پر بڑھی ہے، لیکن اسی مدت میں زندگی گزارنے کے اخراجات میں 30 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ صارفین کو درپیش بعض سب سے بڑے اخراجات نے بھی آمدنی میں بڑھوتری کی رفتار کو ڈرامائی طور پر پیچھے کردیا ہے، جیسا کہ 2003ء سے طبی مصارف میں57 فیصد کا اضافہ ہوا، غذائی مصارف 36 فیصد بڑھ گئے اور اسی مدت میں امکنہ کی لاگتوں میں 32 فیصد اضافہ ہوا۔
’اسٹوڈنٹ لون ‘ کے قرضوں کی بہتات
اسٹوڈنٹ لون انڈسٹری میں کچھ عرصہ سے قابل گرفت رویہ دیکھنے میں آیا ہے، لیکن اسٹوڈنٹ لونس کے عنوان کا قرض 2004ء میں 260 ملین ڈالر سے بڑھ کر 2016ء میں 1.31 ٹریلین ڈالر ہوگیا ہے۔ عدم ادائیگی کی شرح لگ بھگ 11.2 فیصد ہے۔ یہ یقین کرنا مشکل ہے کہ 18 سالہ طلبہ کو دسیوں یا سینکڑوں ہزاروں ڈالر کے قرض کسی ضمانت کے بغیر دیئے جاتے ہیں۔ انھیں اس کی واپس ادائیگی کی امید بھی کم رہتی ہے، کیونکہ اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ زائد از ایک تہائی کالج گرائجویٹس کی تنخواہیں کسی ہائی اسکول ڈپلوما کی تنخواہ کے لگ بھگ ہوتی ہیں۔
’کار لون‘ کی عدم ادائیگی میں اضافہ
ڈسمبر میں چھ ملین امریکی کار لون کی ادائیگیوں کے معاملے میں خطاکار پائے گئے جب کہ ریکارڈ تعداد میں لوگوں نے کار لون لے رکھے ہیں۔ سادہ سی بات ہے کہ خاطی لوگ دراصل ایسے کار لون کے متحمل ہی نہیں، اور انھوں نے طویل مدتوں کے قرض لے کر خود کو اور معیشت کو پریشانی میں ڈال دیا ہے۔ درحقیقت، آٹو لون کی ادائیگی میں ناکامی کی شرحیں اب رہن کی ناکامی کی شرحوں کے قریب پہنچ رہی ہیں جس کی 2008ء کی تشویشناک معاشی صورتحال سے قبل نشاندہی ہوئی تھی۔
ایمرجنسی کیلئے بچتوں کا فقدان
ہر 10 امریکیوں میں سے چھ کے پاس 500 ڈالر تک نہیں کہ ایمرجنسی حالات یا غیرمتوقع اخراجات کی صورت میں استفادہ کرسکیں۔ عوام کے پاس ہر ماہ اپنے معمول کے اخراجات کی پابجائی کے بعد کچھ نقدی بچتی ہی نہیں؛ اور ایسی صورتحال لاکھوں افراد کو کچھ معمولی نوعیت کا بھی غیرمتوقع خرچ پیش آجائے تو اقتصادی طور پر پٹری سے اُتار دینے کا موجب بن سکتی ہے۔
ان تمام نکات کے پس منظر میں شاید ہی کوئی فرد ہو جو سخت اقتصادی حالات سے نمٹنے کی تیاری نہ کرے۔ اگر ابھی غفلت برتی جائے تو عنقریب بہت بُرے معاشی جھٹکے برداشت کرنے پڑسکتے ہیں۔
یہ بات خاص طور پر نمایاں اور قابل توجہ ہے کہ معاشی محاذ پر زیادہ تر منفی تبدیلیاں صدر ٹرمپ جائزہ حاصل کرنے کے بعد سے دیکھنے میں آئی ہیں۔ امریکہ میں کسی ریپبلکن پریسیڈنٹ کے ساتھ ایسا پہلی بار نہیں ہوا ہے۔ ریپبلکن صدور کے ساتھ اس معاملے میں طویل تاریخ رہی ہے اور ماضی قریب میں جارج ڈبلیو بش نے جب اقتدار سنبھالا تو امریکہ کے اقتصادی حالات میں نمایاں گراوٹ دیکھی گئی تھی۔ ماہرانہ اور باریک بینی سے تجزیہ نہ بھی کریں تو ظاہر طور پر یہ بات اُبھر آتی ہے کہ ڈیموکریٹ اقتدار کے بعد (خاص طور پر آٹھ سالہ) جب ریپبلکن پارٹی حکمرانی کی باگ ڈور سنبھالتی ہے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ قومی مفاد یا معقولیت کو ملحوظ رکھ کر نہیں بلکہ مخالف ڈیموکریٹ پالیسی کے تحت کام شروع کردیتے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ دو دہوں سے زائد کا جائزہ لیں تو ڈیموکریٹ حکومتوں نے بہتر معاشی پالیسیاں اپنائیں، اُن کے دور میں دنیا بھر میں مخصوص گوشوں کے خلاف بڑی جنگیں مسلط نہیں کی گئیں۔ اس کے برخلاف ریپبلکن دور میں ڈیموکریٹس کی مخالفت کے جذبے میں اقتصادی محاذ پر غلطیاں سرزد ہوجاتی ہیں اور امریکہ کو یکایک پوری دنیا میں چودھراہٹ قائم کرنے کا بھوت سوار ہوجاتا ہے۔
بے شک! صدر ٹرمپ نے ابھی کوئی جنگ شروع نہیں کی مگر انھیں وائٹ ہاؤس میں آئے ابھی عرصہ ہی کتنا ہوا ہے۔ دیکھئے! آگے آگے ہوتا ہے کیا؟ تاہم ، انتخابی مہم اور اُن کے ٹریک ریکارڈ کو دیکھتے ہوئے لگتا ہے کہ وہ زیادہ عرصہ اپنے فطری میلان کو دبائے نہیں رکھ پائیں گے۔ یہ عجیب بات ہے کہ ایک طرف وہ پڑوس میں میکسیکو کی سرحد پر دیوار تعمیر کرنا چاہتے ہیں تاکہ امریکہ میں غیرقانونی داخلہ بند ہوسکے (اس میں امریکی مفاد ہے لیکن صدر ٹرمپ بضد ہیں کہ سرحدی دیوار کی تعمیر کے اخراجات میکسیکو برداشت کرے!)؛ دوسری طرف ٹرمپ ٹیم کی طرف سے امریکی راز کا دشمن ملک روس کیلئے تبادلہ کئے جانے کی رپورٹس آئی ہیں۔ ولادمیر پوتین زیرقیادت روس کو بس کسی ڈیموکریٹ بالخصوص ہلاری کلنٹن کو منصب صدارت پر ہرگز نہیں دیکھنا تھا، اور اس کیلئے ٹرمپ کو مہرہ بنایا گیا۔ جب اس قسم کی متضاد پالیسیاں ہوں گی جن میں سے کچھ تو قومی مفاد کے مغائر بھی ہوں تو امریکہ کی معاشی طاقت کیسے قائم رہ سکتی ہے؟ یہ بھی حقیقت ہے کہ آج کے ’عالمی گاؤں‘ والے دَور میں امریکی معیشت میں سدھار اور بگاڑ کے عالمی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ چنانچہ امریکی معاشی ماہرین اور ٹرمپ اڈمنسٹریشن کا بروقت سنبھل جانا ضروری ہے۔