محمد ریاض احمد
امریکہ اور چین کے درمیان اقتصادی ، تجارتی ، دفاعی اور خلائی سائنس کے شعبوں میں جس طرح کی کشیدگی جاری ہے اس سے لگتا ہے کہ نہ صرف ان دونوں ملکوں بلکہ ساری دنیا میں حالات ٹھیک نہیں ہیں ۔ آثار و قرائن اور سازشی منصوبوں کو بے نقاب کرنے کا دعوی کرنے والے داراوں خاص کر میڈیا کا ایک گوشہ اور مخصوص ذہنیت کے حامل افراد کے تجزیوں کا جائزہ لینے سے امریکہ اور چین کے درمیان جاری رسہ کشی اور عالمی نظام میں برتری کیلئے ان کی کھینچا تانی کی شدت کا پتہ چلتا ہے ۔ساتھ ہی کئی سوالات بھی ابھر آتے ہیں ۔ اگر موجودہ حالات پر سازشی منصوبوں کو بے نقاب کرنے والوں کی باتوں پر یقین کرلیا جائے تو فی الوقت امریکہ اور چین ایک دوسرے کے خلاف حالت جنگ میں ہیں ۔ ایک ایسی غیر محسوس جنگ جو آنے ولے دنوں میں دنیا کی معیشت کو تباہ کرکے رکھ سکتی ہے ۔ امریکہ کے خلاف چین نے کافی عرصہ سے سائبر جنگ چھیڑ رکھی ہے لیکن جاریہ ماہ اس نے اپنی کرنسی یوان کی قدر میں اچانک کمی کرتے ہوئے ساری دنیا کو حیران کردیا ۔ اس کی وجہ چینی حکومت نے یہ بتائی کہ ملک میں معاشی سست روی کے پیش نظر برآمدات میں اضافہ کی خاطر یوان کی قدر میں کمی کی گئی ہے ۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ چین نے یوان کی قدر میں یوں ہی کمی نہیں کی بلکہ امریکی ڈالر کے چلن کو ختم کرنے کی خاطر اس نے یہ چال چلی تھی ۔ چینی کمیونسٹوں کی اس چال پر امریکہ حواس باختہ ہوگیا اور اس نے چین کے صنعتی شہر تیانجن پر اپنے خلائی ہتھیار Rods of God کے ذریعہ ایسا حملہ کیا کہ تیانجن شہر کی اینٹ سے اینٹ بج گئی ۔ ساری بندرگاہ اور اس کے صنعتی گودام تباہ و برباد ہو کر رہ گئے ۔ 180سے زائد لوگ مارے گئے زائد از 500 شدید زخمی ہو کر اسپتالوں میں دم توڑ رہے ہیں جبکہ اس حملہ میں چین کو زبردست مالی نقصان بھی برداشت کرنا پڑا ہے ۔ چینی حکام اگرچہ تیانجن بندرگاہ میں پیش آئے خطرناک دھماکوں کو صنعتی گوداموں میں رکھے ہوئے کیمیائی مادوں کے کیمیائی تعامل کا نتیجہ قرار دے رہے ہیں لیکن مغربی میڈیا کے بعض گوشوں نے اسے دنیا پر بالادستی کیلئے چین پر امریکہ کا پہلا انتباہی حملہ قرار دیا ہے ۔ حیرت اس بات کی ہے کہ اوباما انتظامیہ کا کوئی عہدہ دار یا امریکی محکمہ دفاع پنٹگان کے حکام تیانجن پر حملہ کے بارے میں میڈیا کے ذریعہ منظر عام پر آئی رپورٹس کی توثیق کررہے ہیں اور نہ ہی تردید اس کا مطلب یہ ہوا کہ دال میں کچھ کالا ضرور ہے ۔ آپ نے مائک آدمس کا نام ضرور سنا ہوگا 48 سالہ اس امریکی شخص نے اپنی ویب سائٹ نیچرل نیوز کے ذریعہ امریکی حکومت ، سائنس و ٹکنالوجی کے اداروں اور دفاعی محکموں یہاں تک کہ امریکی محکمہ دفاع کی ناک میں دم کررکھا ہے ۔اس کا دعوی ہے کہ تیانجن میں دھماکوں کے جو واقعات پیش آئے دراصل وہ چین پر امریکہ کا خلائی حملہ تھا اس حملے کے ذریعہ امریکہ نے چین کو اپنی حد میں رہنے اور امریکی معیشت پر ضرب لگانے سے باز رہنے کا انتباہ دیا ہے ۔ مائک آدمس جس کی ویب سائٹ کا مشاہدہ کرنے والوں کی تعداد 7 ملین سے تجاوز کرگئی ہے ، کاکہنا ہے کہ وہ اگرچہ کرپٹ اوباما انتظامیہ سے سخت نفرت کرتا ہے لیکن اپنے ملک امریکہ سے بے انتہا محبت رکھتا ہے جبکہ اس کی نظر میں چین ایک برائی ہے اور بڑا شیطان ہے وہاں کی کمیونسٹ حکومت نے اپنے عوام کو غلام بنا رکھا ہے ۔ ان کی آزادی چھین لی ہے اسکے علاوہ چینی حکومت انسانی حقوق کی مسلسل خلاف ورزیوں کا ارتکاب کرتی جارہی ہے ۔اس نے کمیونسٹ حکومت کی مخالفت کرنے والوں کی زبانیں بند کرنے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے ۔ صرف حالیہ عرصہ کے دوران چین نے اس کے خلاف آواز بلند کرنے والے کم از کم 15000 مرد و خواتین کو قید خانوں میں ٹھونس دیا ہے ۔ مائک آدمس کا کہنا ہے کہ چین نے امریکہ پر حملہ کرنے کی تیاریاں مکمل کرلی ہیں اور 7000 میل دور سے ہی اس نے امریکہ کو تباہ و برباد کرنے کے منصوبوں پر عمل آوری شروع بھی کرلی ہے ۔
اس کیلئے وہ روایتی جنگ نہیں لڑرہا ہے ۔چین میں موجود ناراض اور حکومت مخالف عناصر کے معتبر ذرائع سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ چین نے امریکہ کے خلاف جنگ کا جو منصوبہ بنایا ہے وہ تین پرتی اور اچانک حملوں کا ہے تاکہ امریکہ کو کسی بھی طرح سنبھلنے کا موقع نہ مل سکے ۔امریکہ کے خلاف چینی جنگ کا جیسا کہ ہم نے ذکر کیا ہے تین پرتی ہوگی اس کا پہلا حصہ امریکی ڈالرس اور اس کے قرضوں پر حملہ کرنا ہے ۔ دوسرے حصہ میں امریکی انفراسٹرکچر پر بڑے پیمانے پر سائبر حملے شامل ہیں ۔ چینی منصوبے کے تیسرے حصہ میں امریکی فوجی سیٹلائٹس پر حملے شامل ہیں جن کا مقصد فوجی مواصلات ، بینکوں کے رقمی لین دین یا کاروبار ،ہنگامی خدمات اور سیٹلائیٹس کمیونکیشن سے مربوط دیگر سسٹمس میں خلل پیدا کرتے ہوئے انھیں متاثر کرنا ہے ۔ اب چلتے ہیں امریکہ کے خلاف چینی جنگ کے پہلے حصہ پر چین ساری دنیا میں اپنی خود کی Gold backed currency (ایسی کاغذی کرنسی جس کی قدر سونا کے مساوی ہوتی ہے) کا چلن چاہتا ہے ، اگر دنیا میں موجودہ کاغذی کرنسی ڈالرس کا چلن ختم ہوجائے تو امریکی معیشت کی بلند و بالا عمارت اسی طرح زمین دوز ہوجائے گی جس طرح 9/11 دہشت گردانہ حملوں میں نیویارک کے ٹوئین ٹاورس زمین دوز ہوئے تھے ۔ چین چاہتا ہے کہ گولڈ بیاک کرنسی کو عالمی لین دین یا کاروبار کی کرنسی بنا کر دنیا بھر میں امریکی قرضوں کی قدر بھی گرادے ۔ اگر چین gold backed currency کا چلن شروع کرانے میں کامیاب ہوجاتا ہے تو امریکی معیشت خود بخود اپنے انجام کو پہنچ جائے گی اور دنیا میں صرف چینی کرنسی کا چلن ہوگا ۔ دنیا میں گولڈ بیاک کرنسی کے چلن کی خاطر ہی چین گذشتہ 15 برسوں سے مسلسل سونا خریدتا جارہا ہے ۔
یہی وجہ ہے کہ اسے دنیا میں سونے کا سب سے بڑا خریدار کہا جاتا ہے ۔ مائک آدمس کے اس استدلال کی حقیقت کیلئے ہم نے چین کی معیشت ، عالمی کاروبار کی ڈالرس میں انجام دہی ، چین اور امریکہ کے پاس سونے کے ذخائر کا بغور جائزہ لیا جس سے یہ بات سامنے آئی کہ حقیقت میں چین پچھلے 15 ، 20 برسوں سے سونا اکٹھا کرتا جارہا ہے ۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ جاریہ سال امریکہ نے چین پر یہ الزام عائد کیا تھا کہ اس نے امریکہ کے خلاف معاشی جنگ چھیڑ رکھی ہے ۔ امریکی کامرس ڈپارٹمنٹ کی تحقیقات میں واضح طور پر کہا گیا تھا کہ چینی حکومت پارچہ جات و ملبوسات کی تیاری ، نت نئے میٹرئلس، دھاتوں کا کاروبار کرنے والی کمپنیوں ، ہلکے قسم کے صنعتی مادے بالخصوص کیمیائی مادوں کی تیاری میں مصروف اداروں ، ادویات ، طبی آلات اور زرعی قرض کو بہت زیادہ سبسڈی فراہم کررہی ہے ۔ جس کے نتیجہ میں امریکی کمپنیوں کا کاروبار تباہ ہورہا ہے ۔ جہاں تک چین کی جانب سے سونا جمع کرنے کا سوال ہے چینی حکومت نے رواں سال جولائی میں اعلان کیا تھا کہ 2009 سے اس کے سونے کے ذخائر میں 60 فیصد کا اضافہ ہوا ہے ۔ چین کی مرکزی بینک کا دعوی ہے کہ اس کے سونے کے ذخائر میں 1658 ٹن سونا ہے ۔ جو اپریل 2009 میں صرف 1054 ٹن تھا اس کے برخلاف امریکہ کے سونے کے ذخائر میں 8100 ٹن سونا بتایا جاتا ہے تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ چین جو دنیا کی دوسری بڑی معیشت ہے اس کے پاس سونے کے ذخائر میں 1658 ٹن سونا نہیں بلکہ 15000 ٹن سوٹا ہے اور یہی بات امریکہ کے لئے پریشانی کا باعث بنی ہوئی ہے ۔ امریکی حکومت سے لیکر امریکی صنعت کاروں ، بینکروں اور مالیاتی اداروں اور خاص طور پر دنیا کو سودی کاروبار کے شکنجہ میں کسنے والے یہودی ساہوکاروں کی نیندیں حرام ہوگئی ہیں ۔ انھیں اندازہ ہوگیا کہ اگر اس جنگ میں چین حاوی ہوجاتا ہے تو امریکی معیشت کا جنازہ بڑی دھوم سے نکلے گا اور اس کے ساتھ ساتھ ان کی اقتصادی اجارہ داری بھی دفن ہوجائے گی ۔ جیسا کہ سطور بالا میں ہم نے لکھا ہے کہ چینی حکومت نے اپنی کرنسی یوان کی قدر میں کمی کرتے ہوئے امریکہ کے خلاف جنگ میں پہلی کامیابی حاصل کرلی ۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ صرف ایک دن میں ہی عالمی بازار حصص میں 7000 لاکھ کروڑ روپئے کا نقصان ہوا ۔ عالمی کساد بازاری کو دیکھتے ہوئے چین کی مرکزی بینک نے شرح سود میں بھی کمی کردی ۔
اس کے باوجود عالمی بازار حصص میں سست روی کا سلسلہ ہنوز جاری ہے ۔ اس ہفتہ شنگھائی کی بازار حصص میں تقریباً 16 فیصد کی کمی آئی ۔ اس کمی نے عالمی بازار بالخصوص امریکی معیشت میں ہلچل مچادی ہے اور امریکی حکومت کو خوف و ہراس میں مبتلا کردیا ۔ چین نے تین ہفتے قبل یوان کی قدر میں کمی کرتے ہوئے دنیا کو بتایا تھا کہ اس کا مقصد برآمدات میں اضافہ کرنا تھا ۔ چینی کرنسی کی قدر میں کمی سے امریکی خام تیل کی قیمت فی بیارل 40 ڈالرس تک پہنچ گئی ہے ۔ آپ کو بتادیں کہ امریکہ بظاہر کاغذی کرنسی ڈالرس کے بل بوتے پر خود کو دنیا کا سپر پاور بنایا ہوا ہے لیکن امریکی حکومت پر 18000 ارب ڈالرس کا قرض ہے ۔ جبکہ امریکی عوام نے جو 13.88 کھرب ڈالرس کا قرض حاصل کیا ہے اس میں دلچسپی کی بات یہ ہے کہ چینی سرمایہ کاروں کا حصہ 1.3 کھرب ڈالرس اور جاپانی سرمایہ کاروں کا حصہ 1.2 کھرب ڈالرس ہے ۔ ان تمام باتوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ چینی اقتصادی محاذ پر امریکہ کو تباہ کرنے کے منصوبوں پر تیزی سے عمل آوری کررہا ہے ۔ چین نے امریکہ کے خلاف جنگ کے دوسرے حصہ کے طور پر سائبر حملوں کا طریقہ اپنایا ہوا ہے ۔ چینی فوج میں باضابطہ سائبر آرمی ڈیویژن کام کرتا ہے اور اس کی کارستانیوں کے بارے میں امریکی میڈیا نے بہت کچھ لکھا ہے ۔ حال ہی میں چینی ہیکروں نے امریکہ کے حساس محکمہ جات بشمول امریکی فوجیوں کے ڈاٹا بیس چرانے میں کامیابی حاصل کرلی جس سے امریکی حکومت سے لیکر امریکی محکمہ دفاع پنٹگان پر کپکپی طاری ہوگئی تھی ۔ حد تو یہ ہے کہ سائبر جنگ میں چین کو اس قدر کامیابی حاصل ہوئی کہ وہ امریکہ کی آبی سہولتوں ، جوہری توانائی کی تنصیبات ، شہروں کے انفراسٹرکچر ، مواصلات ، ریفائنریز تک رسائی حاصل کرلی ہے اور وہ اس جنگ کے ابتدائی مرحلوں میں انھیں ایک ساتھ نشانہ بنائے گا ۔ رپورٹس میں حالیہ عرصہ کے دوران کئے گئے پانچ جائزوں کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا گیا کہ پی ایل اے کی حکمت عملی یہ ہے کہ جس وقت ڈالرس کے خلاف چین اپنی Gold backed currency کا اعلان کرے گا تب ہی مذکورہ سہولتوں وتنصیبات پر متواتر سائبر حملے کئے جائیں گے اور یہ حملے امریکہ کیلئے تباہ کن ثابت ہوں گے ۔ چین فی الوقت امریکہ کے کمپیوٹر نٹ ورک کے نظام کو تباہ کرنے کے منصوبے رکھتا ہے ۔ وہ شہروں ، سڑکوں اور پلوں پر راست حملہ کرنے کے بجائے کمپیوٹر نٹ ورکس کو اپنے حملوں کا نشانہ بنا کر مفلوج کردے گا ۔ ان حملوں کا جسے Computationally amplified warfare کا نام دیا گیا ہے امکانی طور پر نیوکلیئر پاور پلانٹس ، واٹر پمپنگ اسٹیشن اور ٹریٹمنٹ سہولتیں ، ذرائع حمل و نقل اور لاجسٹک کمپنیاں ، تیل کی ریفائنریز ، کریڈٹ کارڈ پروسیسر ، رقمی لین دین کے مراکز ، اسپتال اور کلینکس ، مواصلاتی مراکز بشمول سیٹلائیٹس اور زمین پر موجود ترسیلی نٹ ورکس نشانہ بنیں گے ۔ اپنی جنگی حکمت عملی کے طور پر چین امریکی فوجی سیٹلائیٹس کو تباہ کرنے کے لئے بھی تیار ہے ۔ اگر چین فوجی ، مواصلاتی سیٹلائیٹس پر حملے کرنے میں کامیاب ہوجائے تو اس سے امریکی فوج مفلوج ہو کر رہ جائے گی ۔ بینکنگ کاروبار بند ہوجائے گا ملک میں بے چینی اور نراج کی کیفیت پیدا ہوگی ۔ اس طرح کے سازشی منصوبوں کا دعوی کرنے والوں کا کہنا ہے کہ چینی شہر تیانجن میں جو دو دھماکہ ہوئے دراصل وہ چین پر امریکہ کا خلائی ہتھیار کے ذریعہ حملہ تھا اس کے علاوہ دوسرے ذرائع کا کہنا تھا کہ اس حملہ کا مقصد چینی صدر ژی لی پنگ کو قتل بھی کرنا تھا کیونکہ وہ 12 اگست کو تیانجن بندرگاہ کے اس راستے سے گذرنے والے تھے جہاں دھماکے ہوئے ۔ عین وقت پر راستہ تبدیل کرتے ہوئے چینی صدر نے امریکی منصوبے کو خاک میں ملادیا ۔ مفروضہ پیش کرنے والوں نے تیانجن دھماکوں کو امریکی حملہ قرار دیا ہے ان کے دعوؤں میں سچائی بھی دکھائی دیتی ہے ۔ یہ دھماکہ چینی کرنسی کی قدر میں کمی کے چند دنوں بعد ہی کیا گیا ۔ ان دھماکوں کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ ان کی شدت شدید زلزلوں کے برابر تھی ۔ خود چین کے قومی زلزلہ نٹ ورک کے حکام نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ پہلے دھماکہ کے باعث آنے والے جھٹکہ تین ٹن نائٹرو ٹولیون (ٹی این ٹی) سے ہونے والے دھماکہ کے برابر تھا اور دوسرا دھماکہ اس سے سات گنا زیادہ یعنی 21 ٹن ٹی این ٹی سے ہونے والے دھماکوں کے مساوی تھا ۔ دھماکے اس قدر شدید تھے کہ 70 لاکھ کی آبادی نے اس کی آوازیں سنی اور آگ کے شعلوں کو کم از کم 36گھنٹے بلند ہوتے ہوئے دیکھا ۔ سماجی رابطے کی سائٹس پر عوام کا کہنا تھا کہ انھیں تو ایسا لگا جیسے شہر پر ایٹم بم گرایا گیا ہو ۔ ان دونوں دھماکوں سے صنعتی گودام میں کوئی چیز صحیح و سالم باقی نہیں رہی ۔ ہزاروں گاڑیاں اور کنٹینرس تباہ ہوگئے ۔ عمارتیں گر گئیں ۔ اہم بات یہ ہے کہ بندرگاہ کے گوداموں میں دھماکوں کے وقت 700 ٹن سوڈیم سائنائیڈ کے علاوہ کیلشیم کاربائیڈ اور دیگر کیمیائی مادوں کی وافر مقدار موجود تھی ۔ مائک آدمس اور جنگ کا مفروضہ پیش کرنے والوں کا دعوی ہے کہ یہ دھماکہ دراصل امریکی خلائی حملہ کا نتیجہ تھے ۔ امریکہ نے چین کو اپنی حد میں رہنے کے لئے ایک انتباہ دیا ہے ۔ ہوسکتا ہے کہ آنے والے دنوں میں پینٹگان Rods of God نامی خلائی ہتھیاروں سے سرزمین چین پر مزید تباہی مچائے ۔ پہلے ہی دھماکوں میں تیانجن کی زمین پر وسیع و عریض سوراخ پڑگئے ہیں اور ان سوراخوں سے گرم گرم پانی ابل رہا ہے ۔ یہ بات بھی غور طلب ہپے کہ چینی حکومت نے 3کیلومیٹر تک لوگوں کا تخلیہ کرادیا گیا ہے ۔ میڈیا بھی وہاں نہیں جاسکتا جبکہ حیاتیاتی و کیمیائی ہتھیاروں کے کم از کم 200 ماہرین بھی نقصانات کا جائزہ لے رہے ہیں ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس حملہ کے جواب میں چین کیا کرتا ہے ۔
mriyaz2002@yahoo.com