امریکہ ،اقوام متحدہ انسانی حقوق کونسل سے دستبردار

ممبران پر منافقت کا الزام ، امریکی فیصلہ مایوس کن ، کمشنر زید رعدالحسین کا ریمارک

واشنگٹن ،20 جون (رائٹر) امریکہ نے منگل کو اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل سے باہر ہونے کا اعلان کر دیا۔اقوام متحدہ میں امریکی سفیر نکی ہیلی نے کہا کہ کسی بھی ملک نے اقوام متحدہ میں اصلاحات کی ہماری مہم سے جڑنے کی ہمت نہیں دکھائی، لہذا امریکہ اس سے باہر ہونے کا اعلان کر رہا ہے ۔انہوں نے کہا ’’ایسا کرتے وقت میں یہ واضح کر دینا چاہتی ہوں کہ امریکہ کا یہ قدم انسانی حقوق کے عزائم سے پیچھے ہٹانا نہیں ہے‘‘’۔اقوام متحدہ کی کونسل برائے انسانی حقوق 2006 ء میں قائم کی گئی تھی اور کونسل کو ان ممالک کو ممبران بنانے پر تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا تھا جن ممالک کے انسانی حقوق کے ریکارڈ پر سوال اٹھتے ہیں۔ اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل نے ایک بیان میں امریکی فیصلہ کے حوالہ سے کہا ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ امریکہ کونسل کا ممبر رہے ۔اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے کمشنر زید رعد الحسین نے امریکی فیصلہ کو ’مایوس کن لیکن حیران کن نہیں‘ قرار دیا ہے ۔امریکہ کی جانب سے یہ فیصلہ ایسے وقت کیا گیا ہے جب ٹرمپ انتظامیہ کی غیر قانونی طور پر امریکہ آنے والے تارکین وطن کو ان کے بچوں سے علیحدہ کرنے کی پالیسی کو شدید تنقید کا سامنا ہے ۔نکی ہیلی نے کونسل کی ممبر شپ چھوڑنے کا اعلان وزیر خارجہ مائیک پومپیو کے ہمراہ مشترکہ پریش کانفرنس میں کیا۔نکی ہیلی نے کونسل کو ’’سیاسی تعصب کی گندگی‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ میں اس بات کو بالکل واضح کرنا چاہتی ہوں کہ اس قدم کا مقصد انسانی حقوق کی ذمہ داریوں سے پیچھے ہٹنا نہیں ہے ۔یاد رہے کہ گذشتہ سال نکی ہیلی نے اقوام متحدہ کی کونسل برائے انسانی حقوق میں خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ ماننا مشکل ہے کہ اسرائیل کے خلاف قراردادیں منظور کی جاتی ہیں لیکن وینزویلا کے خلاف ایک قرارداد پر بھی غور نہیں کیا جاتا جہاں درجنوں مظاہرین کو قتل کر دیا گیا۔ 2006 میں اس کونسل کو اقوام متحدہ کے کمیشن برائے انسانی حقوق کی جگہ قائم کیا گیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اس کمیشن میں ان ممالک کو ممبران بنایا گیا جن کے انسانی حقوق کے ریکارڈ پر سوالیہ نشان تھے ۔اس کونسل کے 47 ممبران تین سال کے لیے منتخب کیے جاتے ہیں۔ کونسل کا مقصد قراردادوں کے ذریعے انسانی حقوق کی پامالیوں پر روشنی ڈالنا ہے ۔