امراؤ جان اداؔ ایک نظر میں

سید محمد افتخار مشرف
مرزا ہادی رسواؔ نے اپنے پہلے ناول افشائے راز میں جو 1896 ء میں طبع ہوا ، مرزا رسوا کو ایک ایک کردار کی حیثیت سے متعارف کرایا تھا ۔ انہوں نے اس ناول میں قارئین کو یہ یقین دلانے کی کوشش کی کہ ناول کے واقعات حقیقت پر مبنی ہیں ،مرزا رسوا نے بہم پہنچائے لیکن اس کے بعد کے تمام ناولوں میں مرزا ہادی اس ذمہ داری سے بھی دست کش ہوگئے اور مصنف کی حیثیت سے اپنے بجائے صرف مرزا رسوا کا نام لینے لگے ۔ اس طرح وہ اس نئے نام سے معروف ہوئے ۔
رسوا کے دوسرے ناولوں کے برخلاف ’’امراؤ جان ادا‘‘ ایک طوائف کا سیدھا سادا واقعہ ہے جو اس نے خود بیان کیا ہے وہ ایک مسلم غریب مگر شریف گھرانے کی لڑکی تھی ۔ اس کے والد فیض آباد میں جمعدار تھے ۔ وہ نہایت سیدھے سادے اور سچے آدمی تھے ۔ پڑوس میں ایک بدمعاش دلاور خان رہتا تھا وہ ایک دفعہ گرفتار ہوا ۔ جمعدار نے اس کی چال کے بارے میں سچی گواہی دے دی ۔ دلاور خان قید ہوگیا تھا وہ رہائی کے بعد جمعدار سے بدلہ لینے پر تلا ہوا تھا ۔ چنانچہ ایک دن جمعدار کی آٹھ سال کی لڑکی امیرن کا اغوا کرلیا پھر رات میں بیل گاڑی میں ڈال کر نکل گیا تاکہ اس کو مار کر کہیں ڈال دے ۔ بیل گاڑی پر اسکے ساتھ اس کا دوست پیر بخش بھی تھا ، جس نے صلاح دی کہ امیرن کو لکھنؤ میں کہیں بیچ ڈالا جائے ۔ چنانچہ یہ لوگ لکھنؤ پہنچے اور پیر بخش کے بھائی کے گھر امیرن کو اتار دیا گیا ۔ لکھنؤ میں ایک مشہور کوٹھے دار خانم کے یہاں بیچا گیا ۔ خانم نے امیرن کا نام بدل کر امراؤ کردیا ۔ اس کو موسیقی اور پڑھنے لکھنے کی تعلیم دی ۔ اس کی طبیعت موسیقی کی طرف راغب ہوئی اس نے ادبی ذوق بھی پیدا کرلیا ، دوران تعلیم ایک لڑکا مرزا اس کے ساتھ پڑھتا تھا ۔ پہلے دونوں لڑتے جھگڑتے تھے ، مگر پھر ایک دوسرے سے محبت کرنے لگے ۔ خانم کو خبر ہوئی تو انہوں نے امراؤ جان کو طوائف بنادیا ۔ دیکھتے ہی دیکھتے اس کا شمار بھی اعلی طوائفوں میں ہونے لگا ۔ امراؤ کے آشناؤں میں سب سے نمایاں نام نواب سلطان کا ہے جن کو امراؤ جان دل سے چاہتی تھی ۔ پھر ایک فیضو نامی ڈاکو امراؤ جان کو خانم کے گھر سے بھگالے گیا ۔ فیضو اور اسکے ساتھی ڈاکو راستے میں گھیر لئے گئے اور امراؤ بمشکل تمام کانپور پہنچی ، جہاں وہ اپنے لئے ایک کمرہ لے کر پیشہ کرنے لگی اور وہ وہاں بھی بہت جلد مشہور ہوگئی ۔ کانپور میں ایک بیگم صاحبہ سے ملاقات ہوئی جو وہی رام دئی تھی جو امراؤ کے ساتھ بکنے کے لئے لائی گئی تھی ۔ اسکے بعد خانم کے یہاں کے لوگ کانپور پہنچ جاتے ہیں اور امراؤ کو منا کر لکھنؤ واپس لے آتے ہیں ۔ جب غدر پڑا تو وہ لکھنؤ کے شاہی دربار سے متعلق تھی اور جب انگریزوں نے اودھ کے باغیوں پر حملہ کیا تو وہ فیض آباد پہنچ گئی ۔ ایک دن اس کے گھر کے قریب مجرے کے لئے بلائی گئی ۔ اسکی ماں نے اس کو پہچانا اور دونوں مل کر خوب روئیں ۔ دوسرے دن اس کا بھائی قتل کرنے آیا ۔ مگر آخر میں امراؤ کا پورا حال سن کر اسے چھوڑ دیا ۔ امراؤ پھر لکھنؤ چلی آئی اور یہاں پر چمکنے لگی ۔
محمود علی خان نے دعوی کیا کہ امراؤ میری منکوحہ ہے ۔ اسی وقت اکبر علی خان نامی ایک شخص امراؤ کی مدد کے لئے آگے آئے ۔ امراؤ ان کے گھر پر تین سال رہی ایک دن درگاہ میں اس کی ملاقات رام دئی سے ہوئی جو نواب سلطان کی بیگم نکلی ، جنھیں امراؤ نے اپنے زمانے میں دل سے چاہا تھا ۔ امراؤ کو اس کی حالت پر رشک آیا اور اپنی قسمت پر افسوس ۔ آخر میں ایک دن امراؤ جان اپنی بہت سی سہیلیوں یعنی طوائفوں کے ساتھ نینی تال سیر کرنے گئی تھی اور سب سے الگ سڑک کے کنارے چل رہی تھی کہ اس نے ایک آدمی کو گھاس کاٹتے ہوئے دیکھا ۔ وہ ڈر گئی یہ وہی دلاور خان تھا جو اس کو گھر سے اٹھالایا تھا ، پولیس کو اطلاع دی گئی ۔ دلاور خان پکڑا گیا اور اسے پھانسی ہوگئی ۔ یہ ہے امراؤ جان ادا کی زندگی کا پورا خاکہ ۔ اس قصے کی تمام دلچسپی نفسیاتی ہے ۔ امراؤ جان اردو کا پہلا ناول ہے جو نہایت سڈول اور خوبصورت ہے ۔ رسوا کے اس ناول میں ایک مخصوص شخص اور امراؤ جان کو لے کر اس کی زندگی کے حالات گذرے ہوئے زمانے کے ساتھ ساتھ اور بدلے ہوئے ماحول سے متعلق دکھائے گئے ہیں ۔ امراؤ جان کے قصے میں واقعات اس تناسب کے ساتھ مربوط ہیں کہ پورا ناول ایک شاندار عمارت کا تاثر پیدا کرتا ہے ۔ پہلا باب ایک مختصر شاعرہ کے حوالے سے ہے جس میں امراؤ جان آتی ہے اور اپنے ادبی ذوق کا اثر قائم کرتی ہے ۔ اس سے متوازن آخری باب ہے ان دونوں ابواب کے درمیان پورا قصہ ہے ۔ پورا ناول ایک بہترین اثر رکھتا ہے اور یہ اثر شروع سے آخر تک بہت ہی دلچسپ ہے ۔ اپنا قصہ امراؤ جان نے خود بیان کیا ہے ۔ تکنیک کے لحاظ سے یہ اردو میں کردار نگاری کی بہترین مثال ہے ۔ امراؤ جان کو ہم ایک غیر معمولی طوائف ضرور سمجھتے ہیں اور اس کی سوانح حیات سننے کے لئے تیار ہوجاتے ہیں ۔ اس کے اس مطلع میں ساری زندگی کا درد پوشیدہ ہے ۔
کس کو سنائیں حال دل زار اے اداؔ
آوارگی میں ہم نے زمانے کی سیر کی