امامت کی اہلیت

سوال :   شرائط امامت کیا ہیں ؟ کونسا شخص امامت کرسکتا ہے ؟
نام …
جواب :   شرعاً ایسے شحص کی امامت درست ہے جو تمام شرائط صحت نماز کا جامع ہو۔ یعنی مسلم ہو، عاقل ہو ، بالغ ہو، طہارت وضوء ، غسل، شرعی طریقہ سے انجام دیتا ہو، صحیح الاعتقاد ہو، تلاوت قرآن صحیح تجویدکے موافق کرتا ہو، احکام صلاۃ فرائض واجبات سنن و مفسداتِ نماز سے واقف ہو ، ہیئت اسلامی و سنن نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا عامل ہو ۔ فاسق و فاجر معلن یعنی علانیہ احکام شریعت و سنن کی خلاف ورزی کرنے والا نہ ہو، نیز اخلاق ذمیمہ کا مرتکب نہ ہو۔ جیسا کہ تنویر الابصار میں ہے : اعلم باحکام الصلوۃ ثم الاحسن تلاوۃ و تجوید اللقرأۃ ثم الاورع ای اکثر اتقا ء للشبھات … ثم الاحسن خلقا … عالمگیری جلد اول باب الامامۃ میں ہے ۔ و یجتنب الفواحش الظاہرۃ۔

مسجد کا پانی کرایہ دار کو فراہم کرنا
سوال :  کسی بھی مسجد کے بورویل یا نل کا پانی جو حاصل کرنے کیلئے برقی کا استعمال بھی ہوتا ہے اور اس برقی کے استعمال پر محکمہ برقی کو بل بھی ادا کرنی پڑتی ہے تو کیا اس پانی کو بذریعہ کنکشن مسجد ہی کے کرایہ دار جو کہ مسجد سے متصل مکان میں کرایہ سے ہیں کو بلا کسی معاوضہ کے دیا جانا درست ہے یا پھر اس کا کوئی معاوضہ لے کر دیا جائے یا بالکلیہ طور پر دیا ہی نہ جائے ۔ برائے مہربانی رہنمائی فرمائیں اور عنداللہ ماجور ہوں ۔
نام ندارد
جواب :  مسجد کی ملکیت کے کرایہ دار کو جو جائیداد کرایہ پر دی گئی اس میں پانی دینا بھی شامل ہے تو پھر مسجد کی برقی استعمال کر کے کرایہ دار کو پانی دیا جاسکتا ہے ۔ کرایہ دار جوکرایہ دیتا ہے اس میں پانی کے مصارف شامل رہیں گے ۔ اگر کرایہ میں پانی دینا شامل نہ ہوتو پھر اس سے برقی کا خرچ لیکر پانی دیا جائے ۔ بالکلیہ پانی نہ دینا درست نہیں ۔ بہتر صورت  یہ ہے کہ کوئی صاحب خیر یا چند افراد ملکر مسجد کی ضروریات اور مصلیوں کے وضو و طہارت خانوں نیز دیگر مسلمانوں کیلئے پانی کا اہتمام کر کے برقی کے مصارف برداشت کرلیں ‘ ان کے حق میں یہ ثواب جاریہ رہے گا ۔

مرحوم کے قرض کی ادائیگی
سوال :  میرے بڑے بھائی کا حال ہی میں انتقال ہوا، انہوں نے بینک سے قرضہ حاصل کیا تھا اور اس کی کئی قسطیں ادا کردئے تھے ۔ اچانک ان کا انتقال ہوگیا ۔ بینک کو مزید رقم واجب الادا ہے ۔ ان کا فلائیٹ تھا جس کو فروخت کیا گیا ، جس کی  قیمت چند لاکھ روپئے آئی ہے۔
معلوم کرنا یہ ہے کہ مرحوم کے ذمہ جو بینک کا قرضہ ہے اس کو ان کی متروکہ جائیداد سے ادا کیا جائے گا یا اس بارے میں شرعاً کیا حکم ہے ؟
محمد اقبال متین ، مراد نگر
جواب :  مرحوم کی متروکہ جائیداد سے ان کے ورثہ میں حسب احکام شرع تقسیم سے قبل تجہیز و تکفین کے مصارف وضع کئے جاکر جس نے خرچ کئے ہیں اس کو دینا ، پھر مرحوم کے ذمہ قرض یا بیوی کا مہر واجب الادا ہو تو ادا کرنا ۔ بعد ازاں مر حوم کسی غیر وارث کے حق میں کوئی وصیت کرے توا یک تہائی مال سے اس کی تعمیل کرنا ضروری ہے ۔ بعد ازاں جو باقی ر ہے وہ ورثہ میں تقسیم ہوتا ہے۔ لہذا مرحوم نے جو بینک کا قرض حاصل کیا تھا اس کی مابقی واجب الادا رقم ان کے متروکہ سے قبل تقسیم ادا کی جائے گی ۔

امام سے پہلے مقتدی کا رکوع و سجود سے سر اٹھانا
سوال :  بعض وقت دیکھا جاتا ہے کہ لوگ اس قدر جلدی میں ہوتے ہیں کہ امام کے رکوع سے اٹھنے کا انتظار نہیں کرتے اور اس سے قبل اٹھ جاتے ہیں ۔ شرعی لحاظ سے اگر کوئی امام سے قبل رکوع اور سجدہ سے سر اٹھالے تو اس کا کیا حکم ہے ؟ :
محمد خالد بیگ، مستعد پورہ
جواب :  مقتدی پر امام کی پیروی کرنا لازم ہے۔ اگر کوئی مقتدی امام سے قبل رکوع اور سجدہ سے ا پنا سراٹھالے تو فقہاء نے صراحت کی کہ اس کے لئے دوبارہ رکوع اور سجدہ میں چلے جانا مناسب ہے تاکہ امام کی اقتداء اور اتباع مکمل ہوسکے اور امام کی مخالفت لازم نہ آئے ۔ دوبارہ رکوع اور سجدہ میں جانے سے تکرار متصور نہیں ہوگی ۔ حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح ص : 171, 170 میں ہے : من الواجب متابعۃ المقتدی امامہ فی الارکان الفعلیۃ فلو رفع المقتدی رأسہ من الرکوع اوالسجود قبل الامام ینبغی لہ ان یعود لتزول المخالفۃ بالموافقۃ ولا یصیر ذلک تکرار!
عذاب قبر اور شب جمعہ انتقال
سوال :  میری اہلیہ کا انتقال شب جمعہ ہوا اور ان کی نماز جنازہ جمعہ میں ادا کی گئی ۔ کئی پرسہ دینے والوں نے مجھے تسلی دی کہ جمعہ کے دن جن کا انتقال ہوتا ہے ان کو قبر کا عذاب نہیں ہوتا ۔ کیا یہ صحیح ہے ؟ کیا حساب و کتاب سے پہلے قبر میں عذاب دیا جانا ثابت ہے ؟ میری دعائیں اور استغفار سے میری مرحومہ اہلیہ کو کچھ فائدہ ہوگا یا نہیں ۔ ان سوالوں کا جواب جلد سے جلد دیں تو مجھ کو اطمینان ہوگا ؟
مصلح الدین ، ای میل امریکہ
جواب :  ارشاد الٰہی ہے: ’’ النار یعرضون علیھا غدواً و عشیاً و یوم تقوم الساعۃ ادخلوا آل فرعون اشد العذاب ‘‘ (المومن 46/40 ) یعنی ان کو صبح و شام آگ پر پیش کیا جائے گا اور جس دن قیامت قائم ہوگی حکم ہوگا کہ آل فرعون کو شدید ترین عذاب میں داخل کردو۔ اس آیت پاک میں قیامت سے قبل صبح و شام عذاب دیئے جانے کا  ذکر ہے ۔ اس سے فقہاء کرام نے عذاب قبر حق ہونے پر استدلال کیا ہے ۔ انبیاء علیھم الصلوۃ والسلام اپنے لئے اور مرحوم والدین اور عام مسلمانوں کے لئے دعائیں کیا کرتے تھے جیسا کہ قرآن مجید میں حضرت نوح علیہ الصلوۃ والسلام سے منقول ہے۔ ’’ رب اغفرلی ولو الدی ولمن دخل بیتی مؤمناً و للمؤمنین والمؤمنات‘‘ (نوح 28/71 ) تفسیر روح البیان میں سورہ الحشر 10/59 کے ضمن میں ہے ۔ قبر میں عذاب دیا جاتا ہے ۔ یہاں تک کہ درندے ان کی چیخ و پکار سنتے ہیں۔ (دیکھئے : الترغیب والترھیب ‘‘ ج : 2 ، ص : 361 ) ایک یہودن بی بی عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا کے پاس آئی اور عذاب قبر کا ذکر کی اور کہنے لگی ’’ اعاذک اللہ من عذاب القبر‘‘ اللہ تعالیٰ آپ کو عذاب قبر سے بچائے رکھے ۔ جب وہ خاتون چلے گئیں تو بی بی عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا نے نبی  کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے عذاب قبر سے تعلق استفسار کیا تو آپ نے فرمایا ہاں ’’ عذاب القبر حق ‘‘ قبر کا عذاب حق ہے ۔ (صحیح بخاری)۔
نیز رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے ثابت ہے کہ آپ جہاں جہنم کے عذاب ، دجال کے فتنہ سے پناہ مانگتے ہیں آپ قبر کے عذاب سے بھی پناہ طلب کرتے۔ چنانچہ سیدنا ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دعا مانگا کرتے، اے اللہ ! میں عذاب قبر ، عذاب جہنم ، زندگی و موت کے فتنہ سے تیری پناہ طلب کرتا ہوں اور میں تجھ سے مسیح دجال کے فتنہ سے پناہ مانگتا ہوں۔ (سنن نسائی ) حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے غلام حضرت ہانی بیان کرتے ہیں کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ جب کسی قبر پر کھڑے ہوتے تو اتنا روتے کہ داڑھی تر ہوجاتی، ان سے پوچھا گیا کہ جب آپ جنت اور دوزخ کا ذکر کرتے ہیں تو آپ روتے نہیں اور قبر کو دیکھ کر روتے ہیں تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ قبر آخرت کی پہلی منزل ہے جس نے اس سے نجات پائی ، اس کے لئے آئندہ بھی آسانی ہوگی اور جس نے اس سے نجات نہ پائی اس کیلئے آئندہ زیادہ سختی ہوگی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ، میں نے قبر سے بڑھ کر کوئی ہولناک منظر نہیں دیکھا۔
متذکرہ بالا آیت قرآنی ، احادیث شریفہ ، آثار صحابہ سے ثابت ہے کہ عذاب قبر حق ہے اور اس کا تصور سابقہ تمام ادیان سماویہ میں رہا ہے اور یہ آخرت کی پہلی منزل ہے ۔ انسان جو عمل دنیا میں کرے گا تو قبر میں اس کے آثار و نتائج حساب و کتاب سے پیشتر ظاہر ہوں گے ۔ مزید برآں احادیث سے یہ بھی ثابت ہے کہ جو مسلمان جمعہ کے دن یا شب جمعہ انتقال کرتا ہے اللہ تعالیٰ اسے قبر کے فتنہ سے محفوظ رکھتا ہے ۔ جیسا کہ الترغیب و ا لترھیب ج : 4 ، ص : 373 میں ہے ’’ عن ابن عمر عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال مامن مسلم یموت یوم الجمعۃ او لیلۃ الجمعۃ الا و قاہ اللہ من فتنۃ القبر ‘‘۔ ملا علی قاریؒ کے مطابق جمعہ یا شب جمعہ انتقال کرنے والے کو مطلقاً قبر میں نہ سوالات ہوں گے اور نہ عذاب ہوگا ۔ جیسا کہ مرقات المفاتیح جلد 3 صفحہ 242 باب الجمعہ میں ہے ۔ ای عذابہ و سوالہ وھو یحتمل الا طلاق و ا لتقید والاول ھو الاولی بالنسبۃ الی فضل المولی ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بعد تدفین ، میت کے لئے دعاء مغفرت کرنے کا حکم فرمایا ’’ استغفرو الاخیکم و اسالو الہ التثبت فانہ الان یسئل ‘‘ (سنن ابی داؤد) تم اپنے  بھائی کیلئے استغفار کرو اور ثبات قدمی کی دعاء کرو کیونکہ اب اس سے سوال کئے جارہے ہیں ۔ یعنی قرآنی آیات میں مرحوم مومنین خصوصاً والدین اور اساتذہ کرام کے لئے دعاء رحمت و مغفرت کرنے کے جواز و استحباب پر پر دلیل موجود ہے۔

اجتھاد
سوال :  جاننا چاہتا ہوں کہ اجتہاد کیا ہے ۔ ہمارے خطیب صاحب سے میں نے اجتھاد کا لفظ سنا ہوں۔ اس کے معنی اور مطلب کیا ہے اور اس پر کب اور کیسے عمل کیا جاسکتا ہے ۔ مہربانی فرماکر اجتہاد کے بارے میں مکمل تفصیل، شرعی اعتبار اور احکامات کے مطابق ارشاد فرمائیں تو ممنون رہوں گا ؟
محمد عارف، حیدرگوڑہ
جواب :  اجتھاد ، جھد سے ماخوذ ہے جس کے معنی کوشش کرنا ، مشقت اٹھانا ہے۔ اصطلاح میں اجتھاد (حکم شرعی کو معلوم کرنے کے لئے فقیہ کی تابحد امکان کوشش کرنے کا نام اجتھاد ہے ۔ اجتھاد ، قرآن سے ہو یا سنت سے اس کا درجہ قیاس ہے ۔ مجتھد وہ شخص کہلاتا ہے جو قرآن و حدیث سے جدوجہد کر کے ذاتی طور پر حکم شرعی کو متعین کرتا ہے اور مقلد جو کسی مجتھد یا امام کے قول کو دلیل کے بغیر تسلیم کرلیتا ہے ۔
اجتھاد کی بنیاد یہ آیت شریفہ ہے ۔ والذین جاھدوا فینا لنھد ینھم سبلنا ۔ (وہ لوگ جو ہم میں اجتھاد کئے ہم ضرور ان کو ہمارے راستوں کی رہنمائی کریں گے ۔ چنانچہ نبی ا کرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ بن جبل کو یمن کا والی مقرر کیا تو ارشاد فرمایا ’’ تم فیصلے کس طرح کرو گے ۔ انہوں نے عرض کیا ’’ کتاب اللہ ‘‘ سے ۔ فرمایا اگر کتاب اللہ میں نہ ملے تو کیا کرو گے۔ عرض کیا سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر اس میں بھی نہ پاؤ تو کیا کروگے ۔ حضرت معاذ بن جبلؓ نے جواب دیا ’’ میں اپنی رائے سے اجتھاد کروں گا‘‘۔ اس سے واضح ہے کہ اجتھاد امت کی ایک مستقل ضرورت ہے کیونکہ قرآنی آیات اور احادیث شریفہ محدود ہیں اور عوام الناس کے مسائل و حالات ان گنت ہیں۔ ایسی صورت میں اجتھاد کی ضرورت درکار ہے ۔ ورنہ شریعت میں تعطل لازم آئے گا۔
اہلسنت والجماعت کے نزدیک مجتھد مطلق کا درجہ چار ائمہ کرام حضرت امام اعظم ابوحنیفہ ، حضرت امام مالک حضرت امام شافعی  اور حضرت امام احمد بن حنبل علیھم الرحمتہ والرضوان کو حاصل ہے۔ ممکن ہے اور مجتھد مطلق گزرے ہوں لیکن ان کی فقہ ائمہ اربعہ کی طرح مدون و مرتب نہیں ہوپائی۔ اکثر و بیشتر فقہاء مجتھدین ایسے گزرے ہیں جو اصول میں کسی نہ کسی امام کے پابند رہے۔ البتہ فروع و جزائیات میں آزاد۔
اجتھاد ہر کس و ناکس کا کام نہیں بلکہ یہ فقیہ کا عمل ہے ۔ جب کوئی نیا مسئلہ در پیش ہوتا ہے تو فقیہ اپنی رائے سے قرآن و حدیث صحابہ کرام و ائمہ سلف کے اقوال کی روشنی میں اجتھاد کرتا ہے اور یہ اجتھاد خطا سے محفوظ نہیں رہتا۔ غلطی کا امکان برقرار رہتا ہے ۔ البتہ بصورت صواب و درستگی مجتھد دوہرے اجر کا مستحق قرار پاتا ہے  اور بصورت خطا اپنے اجتھاد پر ایک اجر کا حقدار ہوتا ہے ۔ اجتھاد ایک عظیم فن ہے جس کے لئے فقیہ کا قرآن و سنت اقوال صحابہ ، فقہاء کے اقوال کے علاوہ اپنے زمانے کے احوال و ظروف سے واقف ہونا ضروری ہے ۔ کسی مسئلہ کے استنباط و استخراج کے اعلیٰ درجہ کی عقل اور اونچے درجہ کی فہم درکار ہوتی ہے اور یہ عام آدمی توکجا کسی جید عالم کا بھی منصب نہیں۔ (تفصیلات کیلئے دیکھئے رسم المفتی لابن عابدین شرح عقائد نسفی۔ الورقات فی اصول الفقہ للجوینی۔ اعلام الموقعین لابن قیم)