الیکشن کا بخار

میرا کالم سید امتیاز الدین

جب بھی موسم بدلتا ہے تو کچھ نہ کچھ بیماریاں پھیلتی ہیں ۔ عام طور پر بچے یا پھر بوڑھے جن کی قوت مدافعت کم ہوتی ہے ، ان بیماریوں کا شکار ہوتے ہیں ۔ ہمارے ملک میں ہر پانچ سال میں جب انتخابات ہوتے ہیں تو الیکشن کا بخار شروع ہوجاتا ہے جس کا شکار بالعموم سیاسی لیڈر ہوتے ہیں یا پھر کسی حد تک عوام ۔ سیاسی رہنماوں کو دوبارہ کرسی سنبھالنے کی فکر لاحق ہوتی ہے اور عوام قیاس آرائیوں اور پیشن گوئیوں میں مبتلا ہوجاتے ہیں ۔
عام طور پر برسراقتدار لوگ اپنے کارناموں کی فہرست مرتب کرتے ہیں اور ووٹ دینے والوں کو اپنے زرین کارناموں کی یاد دلاتے ہیں کیونکہ پبلک کا حافظہ ذرا کمزور ہوتا ہے ۔ یوں بھی ان دنوں کارناموں کو یاد کرنے بیٹھو تو گھٹالوں کی یاد تازہ ہوجاتی ہے ۔ اس لئے جدید طریقہ کار یہ ہے کہ اپنی خوبیاں بیان کرنے کی بجائے دوسروں کی برائیاں بڑھا چڑھا کر بیان کی جائیں تاکہ ووٹرس دوسروں کی طرف رخ کرنے کی بجائے ان کی جانب التفات کرنے لگیں ۔ ایک حیرت انگیز بات ہم نے یہ بھی سنی کہ ’’اوروں کی طرف دیکھا ہے بار بار ہماری طرف بھی دیکھو ایک بار‘‘ ۔ آج کل ٹی وی بھی الیکشن کی تشہیر کا اہم ذریعہ بن گیا ہے ۔

ہر پارٹی اپنی مقبولیت میں اضافہ کرنے کے لئے انتہائی طویل اشتہارات دکھا رہی ہے ۔ بعض اشتہارات ہماری سمجھ سے باہر ہیں ۔ مثال کے طور پر کسی صاحب کو دکھایا جاتا ہے کہ وہ ضروری کام سے سفر پر نکلنے والے ہیں ۔ اچانک صوفے پر بیٹھے بیٹھے ان کی آنکھ لگ جاتی ہے ۔ وہ خواب میں دیکھتے ہیں کہ سارا شہر یکلخت پرانے زمانے میں تبدیل ہوگیا ہے ۔ اے ٹی ایم سے پیسے نکلوانا چاہتے ہیں لیکن اے ٹی ایم کا کہیں پتہ نہیں ۔ ہاسپٹل کی سہولت نہیں ہے ۔ فلائی اوور غائب ہوگیا ہے ۔ ان کو گہری نیند سے بیدار کیا جاتا ہے تو ان کو جان کر بے حد خوشی ہوتی ہے کہ ساری گم شدہ چیزیں پھر سے موجود ہوگئی ہیں ۔ وہ ان ساری سہولتوں کی فراہمی کا سہرا حکومت کے سر باندھتے ہیں اور ایک عالم سرخوشی میں سفر پرروانہ ہوجاتے ہیں ۔ اسی طرح ایک ریاست کی خوش حالی اور ترقی کا ڈھنڈورہ پیٹا جاتا ہے اور درپردہ یہ خوش خبری سنائی جاتی ہے کہ اگر آپ ہمیں کامیابی دلائیں گے تو ملک کی ہر ریاست ایسی ہی بن جائے گی ۔ یہ اشتہارات اتنے لمبے وقفے تک دکھائے جاتے ہیں اور اس قدر جلدی جلدی ان کو دوبارہ ، سہ بارہ دکھایا جاتا ہے کہ طبیعت اکتا جاتی ہے ۔ ابھی کل کی بات ہے کہ ہم ٹی وی پر ایک دلچسپ ڈرامہ دیکھ رہے تھے کہ اچانک کسی پارٹی کا اشتہار شروع ہوگیا ۔ ہم وقت گذاری کے لئے باتھ روم میں چلے گئے ۔ جب ہم دوبارہ ٹی وی کے سامنے آکر بیٹھے تو دیکھا کہ الیکشن کا اشتہار بدستور جاری تھا ۔ہمارا ذاتی خیال ہے کہ ایسے لمبے لمبے اشتہارات سے مقبولیت کی بجائے دیکھنے والوں میں بیزاری پیدا ہوجاتی ہے ۔

پچھلے اتوار کو تو عجیب تماشا دیکھنے میں آیا ۔ ایک ہی دن اور تقریباً ایک ہی وقت میں تین مختلف جماعتوں نے اپنے جلسے منعقد کردئے ۔ بہار کے لئے خصوصی موقف کو لے کر بہار کے چیف منسٹر دھرنے پربیٹھ گئے ۔ چونکہ اتوار کا دن تھا ،شاید اسی لئے اس دن بند کا انتخاب کیا گیا تاکہ بند کامیاب دکھائی دے ۔ دکانیں ، دفاتر ، مدارس ، اس دن یوں بھی بند تھے ۔ دوسری طرف یو پی میں ایک پارٹی نے بہت بڑے میدان میں اپنے جلسے کا اہتمام کیا جس میں اس کے وزارت عظمی کے امیدوار نے ایک دھواں دھار تقریر کی ۔ تقریر کی تھی مخالفین کی تمام کمزوریوں کا تفصیلی جائزہ تھا ۔ حب الوطنی پر ایک نظم تھی اور قول و قرار کا ایک پٹارہ تھا ۔ چونکہ بہت سی باتوں کے بھول جانے کا خطرہ رہتا ہے اس لئے یادداشت کا کاغذ سامنے رکھا تھا ۔ ایک بار ہوا سے وہ کاغذ گر بھی گیا لیکن بڑی خوبی سے اسے اٹھالیا گیا ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ الیکشن کی تقریریں بہت محنت سے تیار کی جاتی ہیں اور ایسی تقاریر تیار کرنے والے تقریر کرنے والے سے زیادہ دماغ لڑاتے ہیں ۔ لیکن دماغ لڑانے میں کبھی لغزش بھی ہوجاتی ہے ۔ بعض باتوں کا مطلب غلط بھی نکل سکتا ہے ۔ مثال کے طور پر اس بھاشن میں کہا گیا کہ ہماری پارٹی کی زوردار لہر چل رہی ہے اور بہت جلد یہ لہر سونامی میں تبدیل ہوجائے گی ۔ اب آپ ہی سوچئے کہ سونامی نے کتنے ملکوں میں تباہی پھیلائی تھی اور آج بھی کہیں سونامی کی پیش قیاسی کی جاتی ہے تو کیسی پریشانی محسوس ہوتی ہے اگر لوگ سمجھیں کہ ان صاحب کو فتح سے ہمکنار کرنا سونامی کو دعوت دینا ہے تو یہ ان کے حق میں کوئی اچھی بات نہیں ہوگی۔

تیسرا جلسہ اروند کجریوال صاحب کا تھا ۔ کجریوال سیاست کے کوچے میں نووارد ہیں لیکن ان کی ایمانداری ، حق گوئی اور راست بازی کا اتنا چرچا ہوگیا ہے کہ ہر پارٹی دل ہی دل میں ان سے خوفزدہ ہے ۔ وہ نظام حکومت میں ایک انقلابی تبدیلی کے خواہاں ہیں ۔ سچ پوچھئے تو وہ سارے نظام شمسی کے خلاف دکھائی دیتے ہیں ۔ انھوں نے اپنی تقریر میں نام بنام تمام سربرآوردہ شخصیتوں کے سیاہ کارنامے گنوائے ۔ پٹرول اور گیاس کی قیمتیں کیوں بڑھ رہی ہیں ۔ چائے والا کس کے ہیلی کاپٹر میں سفر کررہا ہے ۔ فلاں صنعت کار کا سوئس بینک اکاونٹ نمبر کیاہے ۔اور تو اور انھوں نے اپنی جیب سے ایک چٹھی نکالی اور اس صنعت کار کے سوئس بینک کا اکاونٹ نمبر پڑھ کر سنادیا ۔ ہم نہیں جانتے کہ یہ نمبر صحیح ہے یا غلط ۔ اگر یہ نمبر غلط ہے تو اس صنعت کا رکا کام ہے کہ وہ کجریوال صاحب سے کہے کہ آپ نے میرا اکاونٹ نمبر غلط پڑھ دیا ۔ صحیح نمبر حاضرِ حدمت ہے ۔ پتہ نہیں کجریوال صاحب کی پارٹی کو کتنی نشستیں ملیں گی لیکن یہ ضرور ہے کہ اچھے اچھوں کا پتّہ کاٹنے میں ان کا ہاتھ رہ سکتا ہے ۔ ان کا مخالف سبزی خور ہو یا گوشت خور ، وہ ہر ایک کے لئے کباب میں ہڈی بنے ہوئے ہیں ۔ اروند کجریوال نے یہ شوشہ بھی چھوڑ دیا کہ اگر مودی جی بنارس سے چناؤ لڑتے ہیں تو وہ ان کا مقابلہ کریں گے ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ مودی جی خبردار کردینے کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہیں اور گوشۂ عافیت ڈھونڈتے ہیں یا اس چیلنج کو قبول کرتے ہیں ۔

بہرحال آج کل ہر کس و ناکس الیکشن کی تیاری میں لگا ہوا ہے ۔ ہم نے سنا تھا کہ ووٹنگ مشین میں جہاں امیدواروں کے نام اور ان کا انتخابی نشان رہتا ہے وہیں ایک خانہ ایسا بھی رکھنے کی تجویز ہے کہ ووٹر یہ رائے دے کہ کوئی بھی امیدوار موزوں نہیں ۔ اگر ایسی گنجائش ووٹنگ مشین میں موجود ہو اور رائے دہندوں کی اکثریت دانستہ یا نادانستہ یہی کھٹکا دبادے تو ایسا چونکادینے والا نتیجہ بھی آسکتا ہے کہ فلاں حلقے سے کوئی بھی امیدوار منتخب نہ ہوسکا سب نااہل قرار دئے گئے ۔ آنجہانی جئے پرکاش نارائن نے اندرا گاندھی کے دور میں ایک آندولن چلایا تھا جو بہت کامیاب رہا تھا ۔ انا ہزارے جی نے بھی بدعنوانیوں کے خلاف ایک تحریک شروع کی تھی جس کا سب سے بڑا فائدہ شاید عام آدمی پارٹی کو ہوا ۔ لیکن بعد میں اناّ جی اور کجریوال جی میں پتہ نہیں کیوں ان بن ہوگئی ۔ بہرحال انا ہزارے ان دنوں ممتا بنرجی کی مدح سرائی میں مصروف ہوگئے ہیں ۔

کچھ یہی حال ضابطہ اخلاق کا بھی ہے ۔ ابھی کچھ دن ہوئے ایک صاحب نے اپنے سیاسی حریف کے لئے ایک نازیبا لفظ استعمال کردیا ۔ اگر یہ رسمِ بدراہ پا جائے تو کیاعجب کہ لوگ اپنے حریفوں کو کھلم کھلا گالیاں دینے لگ جائیں ۔ یہ ہماری جمہوریت کے لئے کچھ اچھی بات نہیں ہوگی۔

الیکشن لڑنے میں کوئی مضائقہ نہیں ۔ ہر شہری یہ حق استعمال کرسکتا ہے ۔ ہمیں یاد ہے کہ ایک صاحب تھے جن کا نام تھا کاکا جوگندر سنگھ دھرتی پکڑ ۔ جب بھی صدر جمہوریہ کے انتخاب کا موقع ہوتا دھرتی پکڑ میدان میں اترتے ، الیکشن ہارتے اور اپنی دھرتی پکڑتے ہوئے گھر لوٹ جاتے ۔ آج کل ہمارے بیشتر رہنما وزارت عظمی کے امیدوار بھی ہیں ۔ ایک جماعت نے تواپنا صدارتی امیدوار نامزد بھی کردیا ہے لیکن سنا ہے کہ دو خواتین بھی جو اپنے اپنے علاقوں میں کافی اثر رکھتی ہیں ، وزیراعظم بننے کی آرزو مند ہیں ۔ ایک بزرگ سیاست داں گزشتہ بیس سال سے اس عہدے کے خواہش مند تھے اب بادل ناخواستہ خاموش ہوگئے ہیں کیونکہ ان کی درازیٔ عمر ان کے حق میں سودمند نہیں ہے ۔ ان کے رفقاء نے ان کو سرفروشی کی بجائے سرپرستی کا مشورہ دیا ہے ۔ بہرحال اور بھی چھپے رستم ہیں جو اپنی دلی آرزو دل میں چھپائے بیٹھے ہیں ۔ الیکشن کے نتائج آئیں گے تو پتہ چلے گا کہ کون کرسی پر بیٹھتا ہے اور کون دھرتی پکڑتا ہے ۔