الیکشن اور علمائے کرام کی ذمہ داریاں

ظفر آغا
ہندوستان میں چناؤ کا موسم آیا نہیں کہ ملک میں علمائے کرام کی بہار آجاتی ہے ۔ چھوٹے ، بڑے عالموں میں’ملت اسلامیہ‘ کا درد جاگ اٹھتا ہے ۔ ملت کی فلاح کے لئے چھوٹے بڑے جلسوں کا انعقاد شروع ہوجاتاہے ۔ اپنی اپنی پسند یا پھر اپنے اپنے مفاد کے تحت کسی پارٹی یا کسی حکومت کی ناکامی یا کامیابی پر غور ہوتاہے بلکہ چند معزز و محترم علمائے دین کسی بڑی سیاسی شخصیت یا حاکم کے ساتھ کسی پلیٹ فارم پر نظر آتے ہیں اور پھر جب چناؤ بالکل نزدیک ہوتے ہیں تو علمائے دین کا کسی پارٹی کے حق میں کوئی فتوی یا حکم آجاتا ہے ۔ چناؤ ختم ہوجاتے ہیں عموماً زیادہ تر علمائے دین اور قائدین ملت کے دلوں سے ملت کا غبار اتر جاتا ہے ۔ مسلم ملت پھر اپنے مسائل سے ویسے ہی زیر بار ہوجاتی ہے جیسے چناؤ سے قبل رہتی تھی جبکہ ملت کا درد جتانے والوں کے بینک بیلنس اور گاڑی گھوڑوں میں اضافہ ہوجاتا ہے ۔
الغرض چناؤ ’ملت اسلامیہ‘ کے متعدد علمائے دین اور خود ساختہ قائدین ملت کے لئے موسم بہار کی طرح آتا ہے ، جسکے درمیان اس قسم کے حضرات کو طرح طرح کے پھلوں اور میوہ جات سے لطف اندوز ہونے کا موقع حاصل ہوتا ہے ۔ اور بھلا کیوں نہ ہو جمہوریت میں ہر کسی کو اختیار ہے کہ وہ اپنے ذاتی یا پھر اجتماعی مفاد کے لئے شور مچائے ۔ پھر چناؤ کا موقع توہوتا ہی اس لئے ہے کہ اس موقع پر حکومت نے ملک کے مختلف سماجی حلقوں کے لئے جو وعدے کئے تھے آیا ان پر عمل ہوا کہ نہیں اس بات کا جواب طلب کیا جائے ۔ صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ اس موقع پر ملک کے مختلف سماجی اور سیاسی گروہ چناؤ کے نزدیک یہی کام کرتے ہیں جو عموماً مسلم علماء کرتے ہیں ۔ لیکن ہم مسلمانوں اور دیگر گروہوں میں ایک بات کا فرق ہے ۔ دوسرے سماجی اور سیاسی گروہوں میں یہ کام عام طور پر انکے مذہبی پیشوا نہیں کرتے جبکہ مسلمانوں میں یہ کام خاص طور پر علمائے دین ہی کرتے ہیں ۔ یہ بات کچھ عجیب وغریب ہے گو ہم مسلمانوں کو عجیب نہیں محسوس ہوتی ہے ۔ یہ کچھ عجیب اس لئے ہے کہ بابری مسجد اور رام مندر قضیے کے وقت سے ملک میں سیکولرازم کی بقا کے لئے سب سے زیادہ شور مسلمان ہی کرتے ہیں ۔ یہ مسلمان ہی ہیں جن کو آر ایس ایس اور سنگھ پریوار کی سیاست پر سب سے زیادہ اعتراض ہے ۔ ہم وشوا ہندو پریشد کی جانب سے دھرم گروؤں کی سیاسی سرگرمیوں کے خلاف بھی شور مچاتے ہیں ۔ مودی سے ہم کو یہ خطرہ ہے کہ وہ ملک کو سنگھ کے ہندو راشٹر ماڈل میں تبدیل کرسکتا ہے چنانچہ مندروں کے نام پر مندروں کو چلانے والے جب سیاست کرتے ہیں تو مسلمان سیکولرازم کی دہائی دیتا ہے ۔ اس کے برخلاف جب خود مسلمانوں کا سیاسی مسئلہ ہوتا ہے خواہ وہ چناؤ کا موقع کیوں نہ ہو تو ہم مسلمان خود مسجد کے صحنوں کے استعمال تک سے گریز نہیں کرتے ہیں ۔ مثلاً ایمرجنسی کے بعد سے دہلی کی جامع مسجد میں چناؤ کے تعلق سے ہر اہم چناؤ کے موقع پر سیاسی سرگرمی ہوتی ہے ۔ اسی طرح ہم سادھوی رتھمبرا کی اشتعال انگیز تقاریر پر تو اعتراض کرتے ہیں ، لیکن ہمارے پلیٹ فارم سے جب کوئی مقرر جذباتی تقریر کرتا ہے تو ہم پر اس قدر ’جذبہ ایمانی‘ طاری ہوجاتا ہے کہ ہم نعرہ تکبیر لگانے سے بھی گریز نہیں کرتے ۔ لیکن یاد رکھئے کہ اگر نعرہ تکبیر لگے گا تو جئے سیارام اور ہر ہر مہادیو کا بھی نعرہ گونجے گا ۔ اگر علمائے دین سیاسی پلیٹ فارم پر سرگرم ہوں گے تو پھر وشوا ہندو پریشد بی جے پی کی حمایت میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے گی ۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ پھر مودی خود کو ’ہندو ہردے سمراٹ‘ کی سیاست بھی کرے گا اور اصولی بنیاد پر مسلمانوں کویہ حق بھی نہ دیا جائے گا کہ وہ اس بات کی مخالفت کریں ۔ کسی بھی ملک میں اقلیتوں کے لئے زندگی آسان نہیں ہوتی ۔ ہم ہندوستانی مسلمان بحیثیت اقلیت آزادی کے بعد سے آج تک طرح طرح کے مسائل کے شکار رہے ہیں ۔ ہر مسئلہ کے حل کے لئے ہندوستانی مسلمان سیکولرازم کی دہائی دیتے ہیں ۔ ہمارے یہاں سیکولرازم کے یہ معنی تو نہیں ہیں کہ ملک کی ہر قوم اپنے مذہبی عقائد اور حقوق سے بے بہرا ہوجائے ۔ لیکن سیکولرازم کے یہ معنی ضرور ہیں کہ حکومت مختلف عقائد کے درمیان کسی قسم کا بھید بھاؤ نہ کرے ۔ اسی نقطہ نگاہ سے آزادی کے بعد سے اب تک اس بات کا لحاظ رکھا جاتا ہے کہ ہر مذہب کے علماء سیاسی پلیٹ فارم سے دور رہیں اور سیاسی معاملات میں دخل اندازی سے گریز کریں ۔ لیکن مسلمان ملک کی اکثریت یعنی ہندوؤں سے تو اس بات کی امید رکھتے ہیں کہ اسکے دھرم گرو اور اس کی وشوا ہندو پریشد جیسی تنظیمیں سیاست سے دور رہیں جبکہ علمائے دین اور طرح طرح کی اسلامی تنظیمیں کھل کر سیاست میں پیش پیش رہیں گی ۔
آخر یہ دوہرا معیار کب تک ! سادھو سنت سیاست سے دور رہیں اور علمائے دین مساجد کے صحنوں سے سیاست پر فتوے صادر کریں ۔ یہ دوہرا معیار کب تک ! اگر ہم ملک میں حقیقتاً سیکولر سیاست کے حامی ہیں تو ہندوستانی مسلمانوں کو اپنی سیاست کے دوہرے معیار بدلنے ہوں گے ! پھر دوسرا اہم سوال یہ ہے کہ ہم آزادی کے بعد سے جس دینی اور سماجی قیادت کی تقلید کرتے آئے ہیں وہ قیادت مسلم مسائل حل کرنے میں کامیاب بھی ہوئی کہ نہیں ؟ ۔ پچھلے ساٹھ برسوں کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ ملک میں مسلم مسائل سنگین تر ہوتے گئے جبکہ ملک میں مسلم الیکشن کمیٹیاں اور طرح طرح کی جماعتیں مدرسوں سے گول ٹوپیاں پہنا کر مجمع اکٹھا کرکے نعرۂ تکبیر کے سائے میں سیاست کرتی رہیں ۔ ہاں اس قسم کی سیاست کرنے والوں کی دولت اور گاڑیوں میں تو اضافہ ہوا جبکہ ملت کا حال کبھی گجرات اور کبھی مظفر نگر ہوتا رہا ۔ اس لئے عقل سے کام لیجئے اور روایتی مسلم قیادت سے گریز کیجئے کیونکہ یہ قیادت اب اپنے قومی مفاد کے بجائے اپنے ذاتی مفاد کے لئے پیش پیش ہے ۔ اور اگر ابھی بھی آپ نے نعرہ تکبیر کی سیاست کی تو پھر جے سیارام کا نعرہ بھی لگے گا ۔ اور جے سیارام کے نعرے تلے اب کے کسی اور کا نہیں بلکہ مودی کا راج ہوگا ۔