محمد ریاض احمد
ہندوستان میں جب سے نریندر مودی کی زیر قیادت بی جے پی حکومت نے اقتدار سنبھالا ہے قوم پرستی کے نام پر فرقہ پرستی کا بازار گرم کردیا گیا ہے اور ہر روز کسی نہ کسی مسئلہ پر عوام میں مذہبی منافرت کا زہر گھولا جارہا ہے۔ اس طرح نام نہاد و خود ساختہ قوم پرست اپنا سیاسی مفاد حاصل کرنے میں کامیاب ہو رہے ہیں۔ ہم ہندوستانیوں کی بدقسمتی یہ ہے کہ ہم بہ آسانی مذہبی، سیاسی، سماجی اور تہذیبی استحصال کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ذات پات اور مذہب کے نام پر ہمیں بہ آسانی تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ ہم بات کررہے بی جے پی حکومت کی جس کے اقتدار میں آنے کے بعد سے ہندوستان کی حالت ہی بدل کر رہ گئی ہے۔ سیکولر ازم پر فرقہ پرستی اور مذہبی بنیاد پرستی کو حاوی کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ مختلف بہانوں سے غیر ہندوؤں پر حملے کئے جارہے ہیں اور انہیں نشانہ بنایا جارہا ہے۔ ملک میں فی الوقت مسلمان اور عیسائی فرقہ پرستوں کے نشانہ پر ہیں۔ مندر۔ مسجد ، لو جہاد، گاؤ کشی، گھر واپسی، مسلم پرسنل لا میں مداخلت طلاق ثلاثہ اور کئی ایک غیر ضروری موضوعات کے تحت مسلمانوں اور عیسائیوں کو قتل کیا جارہا ہے۔ بعض مقامات پر دلتوں پر بھی حملے ہو رہے ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو ملک میں فی الوقت ایک عجیب قسم کی بے چینی پھیلی ہوئی ہے۔ ایک ایسی بے چینی جہاں اقلیتوں میں اپنی جان و مال کے تحفظ کو لے کر خوف و خدشات پائے جاتے ہیں لیکن یہ رجحان کسی بھی طرح ہندوستان جیسے سیکولر ملک کے لئے ٹھیک نہیں ہے۔ اقلیتیں بھی اچھی خاصی تعداد میں ہیں۔ اقلیتوں کو ساتھ لئے بناء ہندوستان ترقی کی راہ پر گامزن نہیں ہوسکتا۔ اس لئے حکومت کا فریضہ ہے کہ وہ بلا لحاظ مذہب و ملت، رنگ و نسل، علاقہ و زبان تمام مذاہب کے ماننے والوں کو ساتھ لے کر چلے، سب کے ساتھ یکساں سلوک روا رکھے۔ وزیر اعظم، ان کے کابینہ رفقاء اور ارکان پارلیمنٹ نے اپنے عہدہ اور رازداری اور رکنیت کا حلف لینے کے دوران یہ عہد کیا تھا کہ وہ دستور کے مطابق فرائض انجام دیں گے۔ ایسا کوئی کام نہیں کریں گے جس سے ملک و قوم کو نقصان پہنچے۔ مطلب ملک سے غداری، بے وفائی نہیں کریں گے۔ ملک کو کسی بھی طرح نقصان نہیں پہنچائیں گے۔ اگر آج دیکھا جائے تو وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت میں ملک کو اس کے جمہوری اداروں اور اس کی گنگا جمنی تہذیب کو جو نقصان پہنچارہا ہے اس کی مثال تاریخ میں نہیں ملے گی۔ بی جے پی قائدین اور وزراء کھلے عام دستور میں تبدیلی سے متعلق اپنے منصوبوں کا اعلان کررہے ہیں۔ دستور بدل دینے کا مطالبہ کرنے والے عناصر محب وطن ہندوستانی ہرگز نہیں ہوسکتے کیونکہ ہندوستان کے دشمن ہی ہندوستان کے دستور کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہیں۔ ہندوستان کے غدار ہی ہندوستان کے دستور پر شکوک و شبہات کا اظہار کرتے ہیں۔ ہندوستان کو تباہ و برباد کرنے کے خواہاں عناصر کے ذہنوں میں ہی دستور ہند کے تئیں بے حرمتی کا گندہ جذبہ پایا جاتا ہے۔ اب حکمراں جماعت کے قائدین کو یہ غور کرنا چاہئے کہ وہ کس فریم میں بیٹھتے ہیں۔ محب وطن ہندوستانیوں میں ان کا شمار ہوتا یا پھر غداروں کے صفوں میں وہ نظر آتے ہیں، اس کا فیصلہ وہ اپنے قول و فعل میں پائے جانے والے تضاد کے ذریعہ بہ آسانی لگاسکتے ہیں۔ اگر کسی سے یہ کہا جائے کہ ملک کو نقصان پہنچانے والے کو کیا کہا جاتا ہے تو ہم سمجھتے ہیں کہ کے جی سے لے کر پی جی کا اور 5 سے لے کر 95 سال تک کا بچہ و بوڑھا یہی کہے گا کہ ’’ملک کے دشمن، ملک کے غدار‘‘ ہی ملک کو نقصان پہنچانے کے در پر رہتے ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ فرقہ پرستی سے ہندوستان کا فائدہ ہوتا یا نقصان؟ دستور کو بدلنے سے ہمارے وطن عزیز اور اس کے عوام کا فائدہ ہوتا یا نقصان؟ ان سوالات کا یہی جواب ہے کہ فرقہ پرستی اور دستور کو بدلنے سے نقصان کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ بی جے پی قائدین نہ صرف ملک کو نقصان پہنچارہے ہیں بلکہ ہندوستان کو تباہی و بربادی کی طرف ڈھکیل رہے ہیں۔ تعلیمی نصاب میں بھی تبدیلیاں کی جارہی ہیں۔ ہندوستان کی سیکولر تاریخ کو توڑ مروڑ کر پیش کیا جارہا ہے۔ مسلم بادشاہوں کو ہندو مخالف یا ہندوؤں کے دشمنوں کی حیثیت سے پیش کیاجارہا ہے۔ انہیں غیر ملکی بتایا جارہا ہے جبکہ جہانگیر سے لے کر بہادر شاہ ظفر اور ان کی اولاد سب کے سب ہندوستان میں پیدا ہوئے اور ہندوستان میں ہی سپرد خاک ہوئے۔ سنگھ پریوار کو مسلم حکمرانوں خاص طور پر عالم گیر اورنگ زیب ؒسے عداوت ہے، حالانکہ ہندوستان کی تاریخ میں اورنگ زیب وہ واحد بادشاہ گذرے ہیں جن کے دور میں ہندوستان حقیقت میں متحدہ ہندوستان بن گیا تھا۔ موجودہ ہندوستان سے دگنے رقبہ کو اورنگ زیب کے دور میں ہندوستان کہا جاتا تھا لیکن فرقہ پرستوں کے باعث ہندوستان متحد نہیں رہ سکا۔ بی جے پی اور اس کی مرکزی و ریاستی حکومتیں شہروں کے نام تبدیل کرنے پر عمل کررہی ہیں۔ یہ ایسی پالیسی ہے جس کے ذریعہ وہ دراصل ہندوتوا کے خفیہ ایجنڈہ کو اگے بڑھانے کی خواہاں ہے۔ نام بدلنے سے ہندوستان کی تہذیب نہیں بدل جاتی۔ ساری دنیا جانتی ہے کہ مسلم حکمرانوں نے ہندوستان کو کس طرح سونے کی چڑیا میں تبدیل کردیا تھا اور انگریزوں نے اسے کس طرح تباہ و برباد کردیا اور آج انگریزوں کی مخبری کرنے والے اور جنگ آزادی کی مخالفت کرنے والوں کی اولاد بھی وہی کام کررہی ہے۔ ’’پھوٹ ڈالو اور حکومت کرو‘‘ کی پالیسی پر وہ عمل پیرا ہیں۔ انہیں جان لینا چاہئے کہ وہ لاکھ کوششیں کرلیں ہندوستان کبھی بھی ہندو راشٹر نہیں بن سکتا۔ سیکولرازم اس کی شناخت اور پہنچان ہے اترپردیش میں یوگی آدتیہ ناتھ جیسے شخص کو بی جے پی نے عہدہ چیف منسٹر پر فائز کیا ہے۔ اپنی فرقہ پرستی اور مسلم دشمنی کے لئے یوگی آدتیہ ناتھ بدنام ہیں۔ یوگی نے جیسے مسلم شہروں کے نام تبدیل کرنے کی قسم کھا رکی ہے۔ انہوں نے الہ آباد جیسے تاریخی شہر کا نام تبدیل کردیا ہے۔ ان کی کابینہ نے الہ آباد کے نام کو تبدیل کرکے پریاگراج رکھنے کی تجویز کو منظوری دے دی ہے۔ یوگی آدتیہ ناتھ کی حکومت کا دعویٰ ہے کہ الہ آباد ماضی میں پریاگراج کے نام سے مشہور تھا۔ حکومت کے اس اقدام پر کانگریس اور سماج وادی پارٹی نے شدید برہمی کا اظہار کیا ہے اور اس اقدام کو انتخابی حربہ قرار دیا جبکہ دانشوروں، ماہرین تعلیم، ادبی شخصیتوں، قانون دانوں اور سیاستدانوں نے اس مسئلہ پر ملے جلے ردعمل کا اظہار کیا۔ کانگریس کا استدلال ہے کہ الہ آباد کے نام کو تبدیل کرنے سے ملک کی جدوجہد آزادی میں الہ آباد کو جو اہمیت رہی ہے وہ ختم ہو جائے گی اور پھر اس میں کوئی معقولیت بھی نہیں ہے۔ یوپی حکومت کے ترجمان سری کانت شرما ہیں جو وزیر توانائی کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے ہیں۔ ان کی فرقہ پرستی کا حال یہ ہے کہ انہوں نے الہ آباد کا نام تبدیل کرنے کی نہ صرف مدافعت کی بلکہ یہاں تک کہہ دیا کہ جو لوگ اس پر اعتراض کررہے ہیں ان کا اعتراض بے بنیاد ہے۔ یہ حکومت کا حق ہے کہ شہر کا نام تبدیل کرے۔ ضرورت پڑنے پر یوگی آدتیہ ناتھ حکومت مزید شہروں اور سڑکوں کے نام تبدیل کردے گی اور ماضی میں جو غلطیاں کی گئیں اس کا ازالہ کیا جائے گا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ الہ آباد کا نام تبدیل کرنے کے منصوبہ کی ریاستی گورنر رام نائک نے بھی تائید کی ہے۔ یہ بتایا جارہا ہیکہ اس سلسلہ میں سادھو سنتوں نے مطالبہ کیا تھا۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ سادھو سنت جو بھی مطالبہ کریں گے کیا یوگی آدتیہ ناتھ ان مطالبات کو قبول کرے گی۔ جہاں تک الہ آباد کا تعلق ہے یہ ایک قدیم شہر ہے۔ اگر بنگلور کا نام تبدیل کرکے بنگلورو رکھ دیا جاتا ہے یا پھر کلکتہ کو کولکتہ کردیا جاتا ہے ، بمبئی کو ممبئی بنا دیا جاتا ہے اور بنگلور کو بنگلورو قرار دیا جاتا ہے تو اس میں کوئی حیرت کی بات نہیں لیکن الہ آباد کا نام تبدیل کرکے اسے پریاگراج کردیاجاتا ہے تو حکومت کے اقدام پر نہ صرف حیرت بلکہ افسوس کرنے کو دل چاہتا ہے اور دماغ یہ سوال کرنے لگتا ہے کہ آخر عقل کے ان اندھوں کو ملک تباہ و برباد کرنے کی اجازت کس نے دی ہے۔ اس شہر کو مغل بادشاہ اکبر نے الہ آباد کا نام دیا تھا اور اس سے پہلے اس کا نام پریاگراج تھا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ یوگی آدتیہ ناتھ کے اقدام پر سیکولر جماعتیں بھی خاموشی اختیار کی ہوئی ہیں۔ اگر ہندوستان میں فرقہ پرست اسی طرح شہروں کے نام بدلتے رہیں گے، اقلیتوں پر حملے جاری رکھیں گے، ان کے حقوق کو سلب کرنے کی کوشش کریں گے تو پھر ہندوستان کو تباہی و بربادی سے بچانا مشکل ہو جائے گا۔ جہاں تک الہ آباد کا سوال ہے اس تاریخی شہر کی بنیاد مغل شہنشاہ اکبر اعظم نے ڈالی تھی اور اسے الہ آباد کا نام دیا لیکن شاہ جہاں کے دور میں اسے الہ آباد سے بدل کر اللہ باد کردیا گیا لیکن بعد میں الہ آباد کے نام سے ہی وہ مشہور ہوا۔ یوگی اور ان کے حامی مورخین جس پریاگراج شہر کی بات کررہے ہیں وہ قریب کا کوئی شہر ہوگا۔ ایک بات ضرور ہے کہ یوگی آدتیہ ناتھ نے 2019 کے عام انتخابات کو دیکھتے ہوئے یہ قدم اٹھایا ہے اور ممکن ہے کہ آنے والے دنوں میں اترپردیش کے مزید شہروں کے نام بھی تبدیل کئے جائیں گے۔
mriyaz2002@yahoo.com
یوگی جی …
9 مغل بادشاہوں کی مائیں ہندو تھیں
سنگھ پر یوار مغل بادشاہوں کی دشمنی و عداوت میں اپنے تمام اخلاقی حدود کو پھلانگ دیتا ہے ، وہ یہ بھی نہیں سوچتاکہ آخر کس کے خلاف زبان درازی کر رہے ہیں۔ انہیں مغل بادشاہوں کے خلاف زہر فشانی سے پہلے یہ جان لینا چاہئے کہ 21 مغل بادشاہوں میں سے کم از کم 9 کی مائیں راجپوت ہندو تھیں، جن میں مریم الزمانی (جودھا بائی) وہ جہانگیر کی ماں تھیں، شاہ بیگم (من بائی) شاہ جہاں کی ماں ، رحمت النساء (نواب بائی) بہادر شاہ اول کی ماں ، نظام بائی (جہاندار شاہ کی ماں) ، اودھم بائی (قدسیہ بیگم) احمد شاہ بہادر کی ماں ، انوپ بائی (عالمگیر دوم کی ماں) اکبر شاہ دوم کی والدہ بھی ہندو تھیں۔ اسی طرح بلال کنور (زینت محل) شاہ عالم دوم کی ماں ، لال بائی (قدسیہ بیگم) بہادر شاہ دوم کی ماں شامل ہیں۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مغل بادشاہوں نے کس طرح ہندوستان میں سیکولرازم کو فروغ دیا ۔ جہاں تک محی الدین محمد اورنگ زیب عالمگیر کا سوال ہے سنگھ پریوار کو یہ معلوم ہونا چاہئے کہ اورنگ زیب ہندوستان کی تاریخ کے سب سے کامیاب حکمراں تھے۔ ان کے دور میں یعنی 1707 تک بھی ہندوستان کو دنیا کی سب سے بڑی معیشت ہونے کا اعزاز حاصل تھا ۔ جنوب میں 4 ملین مربع کیلو میٹر تک عالمگیر کی حکومت وسعت اختیار کر گئی تھی ۔ اس وقت 158 ملین نفوس پر مشتمل آبادی پر ان کا کنٹرول تھا ۔ ہندوستان کی معیشت 90 ارب ڈالرس تھی یعنی اس وقت دنیا کی قومی مجموعی پیداوار کا 25 واں حصہ ہندوستانی معیشت پر مشتمل تھا ۔ مغل بادشاہوں نے فن تعمیر کی شاہکار بے شمار عمارتیں قلعے ،مقبرے ، باغ، محلات، مساجد اور مینار تعمیر کرواتے ہوئے ہندوستان کی شان و وقار میں غیر معمولی اضافہ کیا ۔ آج ان کے بسائے ہوئے شہروں کے نام تبدیل کئے جارہے ہیں۔ صرف یوگی ہی نہیں ، ان کی طرح چیف منسٹر راجستھان وسندھرا راجے نے بھی ریاست میں کئی مواضعات کے ناموں کو ہندو ناموں سے تبدیل کردیا ۔ اس طرح کے قائدین کو یہ جان لینا چاہئے کہ فرح ٹاؤن ریلوے اسٹیشن کا نام تبدیل کر کے دین دیال دھام ریلوے اسٹیشن اور مغل سرائے جنکشن کا نام تبدیل کر کے دین دیال اپادھیائے جنکشن رکھنے سے حقیقت تبدیل نہیں ہوتی ۔ 443 سال تک الہ آباد کے نام سے پکارے جانے والے شہر کا نام تبدیل کرنے والوں اور ان کے آقاؤں کو چاہئے کہ وہ پہلے اپنے ذہنوں میں فرقہ پرستی ، تعصب ، جانبداری ، اقلیتوں سے دشمنی کی جو گندگی بھری ہوئی ہے اسے اچھے خیالات ، امن و امان ، محبت و ہمدردی سے تبدیل کریں۔ الہ آباد کا نام تبدیل کرنے سے پہلے یوگی اور بی جے پی قا ئدین کم از کم مولوی لیاقت حسین کو یاد کرلیتے جنہوں نے الہ آباد میں انگریزوں کے دانت کھٹے کردیئے تھے، انہیں 1857 ء کی غدر کو بھی یاد رکھنا چاہئے تھا جس نے جدوجہد آزادی کی تحریک کو ایک نئی جہت عطا کی تھی ۔ انہیں یہ بھی یاد رکھنا ہوگا کہ تم نصاب میں تبدیلی کرلو ، تعلیم کو زعفرانی رنگ میں رنگ دو ، تاریخ کو مسخ کردو ، نئی نسل کو دعوغ گوئی کے ذریعہ غلط راہ پر ڈال دو اس کے باوجود تم اس ملک کی جمہوریت اس کے سیکولرازم اور انسانیت نوازی کو بدل نہیں سکتے۔ ہندوتوا کے نام پر تم جو کچھ بھی کر رہے ہو اس سے صرف ہندو ازم بدنام ہورہا ہے اور کوئی حقیقی ہندو ایسا ہرگز نہیں کرسکتا۔