میرا کالم سید امتیاز الدین
پتہ نہیں ایسا کیوں ہوتا ہے کہ بعض اوقات ایسے سانحے رونما ہوتے ہیں کہ مدتوں ان کا اثر ہمارے دماغ پر چھایا رہتا ہے ۔ لاکھ کوشش کے باوجود رہ رہ کے ایک ہی خیال ذہن میں آتا رہتا ہے ۔ ہم کو اچھی طرح یاد ہے کہ جب مولانا ابوالکلام آزاد کا انتقال ہوا تھا تو ہم نویں جماعت کے طالب علم تھے ۔ اس وقت تک ہم مولانا کے اعلی مقام اور مرتبے سے بھی پوری طرح واقف نہیں تھے ۔ ان کے جلوس جنازہ کی ریڈیو کامنٹری اردو میں عیاذ انصاری اور انگریزی میں میلول دی میلو (Melville de Mellow) نے اتنے اثر انگیز انداز میں دی تھی یوں لگتا تھا جیسے ہم سارا منظر آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں ۔ بہرحال کئی دنوں تک ہم اداس رہے ۔ جب سے ہم نے نیپال اور ہندوستان کے بہت سے شہروں کے ہلاکت خیز زلزلے کی خبریں پڑھی ہیں دل پر ایک بوجھ سا ہے ۔ ہم کو حیرت ہوئی کہ اس زلزلے کے اثرات نیوزی لینڈ جیسے دور افتادہ مقام پر بھی محسوس کئے گئے ۔
آج کے اخبار سے پتہ چلتا ہے کہ صرف نیپال میں مرنے والوں کی تعداد دس ہزار تک پہنچ گئی ہے ۔ لوگ ہراسانی کے عالم میں ہیں ۔ سیاح بھاگنے کی فکر میں ہیں ۔ دنیا کے بڑے بڑے ملک امداد کی پیشکش کررہے ہیں لیکن ہمیں یہ جان کر خوشی ہوئی کہ سب سے پہلے اور سب سے بڑھ کر اس آفت کی گھڑی میں جس نے نیپال کی بھرپور مدد کی ہے وہ ہندوستان ہے ۔ دن کے بارہ بجے یہ خوفناک زلزلہ آیا اور شام کے چار بجے تک ہندوستانی فضائیہ کے C130 طیارے اور ہیلی کاپٹر امدادی کاموں کے لئے نیپیال پہنچ گئے ۔ C130 طیاروں کی خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ وہ زیادہ سامان لے جاسکتے ہیں اور ان کے لئے صرف 3500 فیٹ یعنی تقریباً 400 گز کا رن وے مل جائے تو وہ لینڈ کرسکتے ہیں ۔ ہماری ٹیمیں وہاں اتنا اچھا کام کررہی ہیں کہ نیپالی عوام اپنی حکومت کے خلاف نعرے لگارہے ہیں اور نریندر مودی زندہ باد کے نعروں سے فضا گونج رہی ہے ۔
علامہ اقبال نے کہا تھا
پربت وہ سب سے اونچا ہمسایہ آسماں کا
وہ سنتری ہمارا وہ پاسباں ہمارا
لیکن آج حیرت ہوتی ہے کہ اسی سنتری اور پاسبان کے بطن سے یہ زلزلہ رونما ہوا جس نے ساری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ۔ نہ جانے کتنے کوہ پیما جاں بحق ہوگئے ۔ شاید ہمالہ کو اپنی بار بار پیمائش پسند نہیں آئی کیونکہ کئی برس پہلے ہی ٹنسنگ نارکے اور اس کا آسٹریلیائی ہم سفر ہمالہ کی چوٹی پر اپنے اپنے ملکوں کے جھنڈے گاڑ چکے ہیں اور ہمالہ بھی شاید روز روز کی کوہ پیمائی سے تنگ آچکا تھا ۔ ایک نئی تحقیق سے یہ بھی پتہ چلا ہے کہ خود ہمارا ملک زلزلہ کے دوران چند سکنڈ میں دس فیٹ آگے کو سرک گیا ۔ ہمارا خیال ہے کہ جب سے دنیا بنی ہے زلزلہ آتے رہے ہیں لیکن ان کی شہرت اس لئے نہیں ہوئی کہ ان دنوں نہ انٹرنیٹ تھا ، نہ ٹی وی نہ ریڈیو اور نہ ہی رابطے کے دوسرے وسائل ۔ فلک بوس عمارتیں نہیں تھیں ۔ چھوٹے چھوٹے مکانات رہے ہوں گے جن کے گرنے سے بہت بڑا نقصان بھی نہیں ہوتا ہوگا ۔ سیاحوں کی کثرت کہاں ہوگی ۔ زیادہ سے زیادہ ابن بطوطہ ، ہیون سانگ یا فاہیان ٹایپ کے ایک دو اصحاب ہلکا پھلکا سفر نامہ لکھ کر یا ایک آدھ شادی کرکے رخصت ہوگئے ہوں گے ۔ ایسے میں زلزلوں کا حساب کتاب کون رکھے گا ۔ ہندوستان میں سب سے بڑا زلزلہ شاید 1934 ء کے آس پاس آیا جس میں بہت تباہی پھیلی ۔ اس کے بعد پچھلے دس پندرہ برسوں میں ترکی ، چین ، ایران وغیرہ میں زلزلے آتے رہے جن میں ہلاکتیں بھی بہت ہوئیں اور امدادی کام بھی بہت ہوا ۔ مصیبت یہ ہے کہ زلزلے ہمیشہ اچانک آتے ہیں ۔ غنیمت ہے کہ نیپال کا زلزلہ دن کے وقت آیا ۔ اگر رات میں آیا ہوتا تو لوگ خواب غفلت سے خواب عدم میں چلے جاتے ۔ جانی نقصان اور زیادہ ہوتا ۔
اللہ کے فضل و کرم سے ہم نے زلزلے کی تباہ کاریاں تو نہیں دیکھی لیکن زلزلے کے معمولی جھٹکے محسوس کئے ہیں ۔یہ 1983 کی بات ہے ۔ ہم برسرکار تھے ۔ نمائش میدان سے قریب مرکزی حکومت کے کسی دفتر (شاید جیالوجیکل سروے آف انڈیا) کی کئی منزلہ عمارت بن کر تیار ہوئی تھی جس کے لئے ایچ ٹی (HT) سپلائی دینی تھی ۔ ہم اپنے عملہ کے ساتھ کام میں لگے ہوئے تھے ۔اتنے میں ایسا لگا جیسے زمین کے نیچے سے کوئی چیز بل کھاتی ہوئی نکل گئی ۔ ایسی آواز آئی جیسے ہوائی جہاز کی ہوتی ہے ۔ سب لوگ تیزی سے باہر نکل گئے اور مزید کسی زلزلے کا انتظار کرنے لگے ۔ بڑی مشکلوں سے ان کو ہمت دلا کر اندر لانا پڑا ۔ کسی نہ کسی طرح کام مکمل ہوا اور ہم کھلی ہوا میں باہر آئے ۔ دوسرا اتفاق یوں ہوا کہ آج سے کوئی بیس سال پہلے فجر سے ذرا پہلے جبکہ ابھی ہم سورہے تھے یوں لگا جیسے کسی نے ہم کو اٹھانے کے لئے پلنگ ہلادیا ہو ۔ آنکھ کھلی تو گھڑی پر نظر پڑی ۔ فجر کا وقت ہورہا تھا ۔ ہم نے سمجھا کہ یہ نماز کے لئے اٹھانے کا کوئی قدرتی انتظام تھا ۔ ہم مسجد پہنچے تو کچھ احباب مسجد کے صحن میں کھڑے تھے ۔ انھوں نے پوچھا ’کیا تم نے زلزلے کا جھٹکا محسوس کیا‘ ۔ تب ہم کو پلنگ کا ہلنا سمجھ میں آیا ۔ یہ لاتور کے زلزلے کا اثر تھا جو حیدرآباد میں بھی محسوس کیا گیا ۔
ہم کو اس بات پر تعجب ہے کہ جاپان میں آئے دن زلزلے آتے رہتے ہیں ۔ لیکن وہاں کے لوگ معمول کی زندگی گزارتے ہیں اور ترقی یافتہ قوموں میں شمار ہوتے ہیں ۔ ہم نے کہیں پڑھا تھا کہ ایک صاحب پہلی دفعہ جاپان گئے اور کسی ہوٹل میں کھانے سے پہلے شراب منگوائی ۔ انھوں نے پہلا ہی گھونٹ لیا تھا کہ ان کی میز ہلتی ہوئی محسوس ہوئی اور وہ لڑھک کرکرسی سے گرپڑے ۔ انھوں نے بیرے کو بلا کر ڈانٹا کہ اتنی تیز شراب کیوں دی ۔ بیرے نے کہا حضور یہ شراب کا نشہ نہیں بلکہ ابھی ابھی زلزلہ آیا تھا ۔ اسی طرح ہم کو یاد ہے کہ بعض جاپانی آلات کی تنصیب کے لئے ایک جاپانی انجینئر ہمارے دفتر آیا تھا ۔ اسے گیسٹ ہاؤس میں ٹھہرایا گیا اور ہر قسم کی سہولتیں پہنچائی گئیں ۔ اس سے پوچھا گیا کہ آپ کو کسی چیز کی کمی تو نہیں محسوس ہورہی ہے اس نے ہنس کر کہا صرف زلزلوں کی کمی ہے ۔
افسوس کی بات ہے کہ لوگ ایسے پریشان کن موقعوں پر بھی افواہیں پھیلانے سے نہیں چوکتے جیسے مزید زلزلے آنے والے ہیں یا چاند کی گردش میں فرق آگیا ہے ۔ لوٹ مار اور ڈکیتی کا کاروبار بھی گرم ہے ۔ ہمیں یہ جان پر مسرت ہوئی کہ بابا رام دیو زلزلے کے وقت یوگا کے مظاہرے اور ایک یوگا سنٹر کے قیام کے سلسلے میں نیپال ہی میں مقیم تھے ۔ زلزلے سے وہ اتنے متاثر ہوئے کہ انھوں نے واپس آنے کی بجائے کھٹمنڈو میں ٹھہر کر امدادی کاموں میں شریک رہنے کا ارادہ کرلیا ۔ اس کے برخلاف ساکشی مہاراج نے حسب معمول ایک بیان دے ڈالا کہ راہل گاندھی کیدار ناتھ مندر گئے تھے اس لئے نیپال میں زلزلہ آیا ۔ یہ بات اتنی ہی بے تکی ہے جیسے کوئی یہ کہے کہ بابارام دیو کی وجہ سے زلزلہ آیا کیونکہ وہ بہ نفس نفیس وہاں موجود تھے ۔ کوئی آفت کسی کے آنے جانے سے نہیں آتی لوگوں کو سنبھل کر بات کرنی چاہئے ۔ ہمیں یہ جان کر بھی خوشی ہوئی کہ بعض ٹیلی فون کمپنیاں جن میں بی ایس این ایل بھی شامل ہے نیپال کو رعایتی شرحوں پر فون کرنے کی سہولت مہیا کررہی ہیں ۔ ہمیں پتہ نہیں کہ حکومتی سطح پر یا بعض معتبر فلاحی ادارے نیپال اور خود ہمارے ملک کے متاثرین کے لئے عطیات جمع کررہے ہیں ۔ اگر ایسی کوئی تحریک ہو تو ہمیں دل کھول کر اس میں حصہ لینا چاہئے ۔ آج ایک صاحب ہم سے ملنے آئے اور کہنے لگے ’میں نیپال کے لوگوں کی مدد کرنا چاہتا ہوں ۔ دراصل میں اپنے چھوٹے بچوں کے لئے کھانسی ،بخار کا شربت لاتا رہتا ہوں ۔ بعض شیشیاں ایسی ہیں جن میں دوا کی کافی مقدار باقی ہے اور دوا کی تاریخ وفات یعنی اکسپائری ڈیٹ (expiry date) ابھی دور ہے ۔ اگر کوئی ادارہ چیدہ چیدہ سامان لے جارہا ہو تو مجھے اسکا اتہ پتہ بتاؤ‘ ۔ ہم نے کہا ’حضرت! آپ جو استعمال شدہ دوائیں بھیجنا چاہتے ہیں بھلے ہی ان کی تاریخ وفات دور ہو لیکن ان کے استعمال سے استعمال کرنے والوں کی تاریخ وفات قریب آجانے کا امکان ہے ۔ اس لئے اس ارادے کو تو رہنے ہی دیجئے‘‘ ۔
اگرچہ کہ ہمارا شہر بلکہ ہماری ریاست طبقات اعتبار سے محفوظ سمجھی جاتی ہے لیکن بعض حضرات اندیشوں میں گرفتار رہتے ہیں ۔ زلزلہ کی احتیاطی تدابیر میں ایک یہ بھی ہے کہ جھٹکا محسوس ہو تو فوراً کسی میز کے نیچے پناہ لے لیں ۔ ابھی کل ہم ایک ولیمہ کی دعوت میں شریک تھے ۔ دوران ضیافت بیرا جس کے ہاتھوں میں بریانی کی دو ڈشس تھیں ، تیزی سے ایک ڈش رکھ کر جانے لگا ۔ کھانے کی میز کو دھکا لگا ۔ ایک صاحب جو سرجھکا کر محوطعام تھے فوراً اسی حال میں میز کے نیچے چلے گئے ۔ ان کے بازو جو صاحب تھے انھوں نے فوراً ان سے کہا ’’بھئی یہ دھکا زلزلے کا نہیں بیرے کا ہے ۔ اپنی نشست پر واپس آؤ‘‘ ۔ وہ بہ دقت اپنی نشست پر آئے لیکن ’مابعد دھکہ‘ ان کے کھانے کی رفتار ویسی نہیں تھی ۔
ایک زلزلہ تو وہ ہوتا ہے جو زیر زمین ہوتا ہے اور بہت تباہی پھیلاتا ہے لیکن ایک زلزلہ ایسا ہوتا ہے جسے جذباتی زلزلہ کہتے ہیں ۔ یہ غیظ و غضب کی شکل میں نمودار ہوتا ہے اور کچھ کم تباہی نہیں پھیلاتا ۔ بعض گھروں میں صاحب خانہ ایسے ہوتے ہیں کہ شام میں جس وقت وہ گھر لوٹتے ہیں تو بچے کھیل کود چھوڑ کر کونوں میں دبک جاتے ہیں یا درسی کتابیں کھول کر پڑھنے کا ڈھونگ رچاتے ہیں ۔ بیوی دبے پاؤں کچن کا رخ کرتی ہے تاکہ کچھ کھلا پلا کر شوہر کو نارمل حالت میں لائے۔ اسی طرح بعض بیویاں بھی تندخو ہوتی ہیں ۔ ہمارے ایک دوست کی بیگم نے ان پر پابندی لگادی تھی کہ رات میں سات بجے سے پہلے انہیں گھر میں رہنا چاہئے ۔ ایک مرتبہ دوستوں کی محفل میں رات کے دس بج گئے ۔ وہ محفل سے ایسے اٹھے جیسے کوئی جہاں سے اٹھتا ہے ۔ ان کی لڑکھڑاہٹ دیکھ کر ہمدردوں نے پوچھا ’’خیریت تو ہے؟‘‘ ۔ ہمارے دوست نے سہمی ہوئی آواز میں صرف اتنا کہا
’زلزلہ‘ وہ جو ابھی پردۂ افلاک میں ہے
عکس اسکا مرے آئینہ ادراک میں ہے
بہرحال ہم ابھی زلزلے کی تباہ کاریوں سے مغموم تھے کہ ابھی ابھی خبر آئی ہے کہ روس کا ایک خلائی جہاز جو غذائی سامان لئے پرواز کررہا تھا بے قابو ہوگیا ہے اور سائنسدانوں کی مرضی کے خلاف زمین کی طرف لوٹ رہا ہے ۔ دیکھئے یہ خوان نعمت آفت بن کر کہاں گرتا ہے ؟اس سے پہلے اسکا بڑا بھائی اسکائی لیاب کئی لوگوںکی نیند اڑاچکا ہے ۔