محمود شام، کراچی (پاکستان)
بجٹ کے دن تھے میڈیا اور عوام کے نزدیک سب سے اہم ضروری موضوع یہی ہونا چاہیے تھا۔ پہلے برسوں میں یہی ہوتا بھی رہا ہے لیکن اب کے دوسرے مسائل اتنے گھمبیر ہو چکے ہیں کہ بجٹ بہت پیچھے چلا گیا۔کسی زمانے میں دفتروں،گھروںاور دکانوں میں سب کی نظریں ٹی وی پر جمی ہوتی تھیں اور سب بیتاب ہوتے تھے جاننے کو تنخواہیں بڑھیں کہ نہیں کیا کیا مہنگا ہوگیا کیا سستا ہوا۔ اب کے لوگ یہ بھی نہیں دیکھ رہے تھے کہ وزیر خزانہ کتنی بار پانی پی رہے ہیں۔ تقریر آرام سے کر رہے ہیں یا تیز تیز۔ اپوزیشن تقریر غور سے سن رہی ہے یا ہنگامہ برپا کررہی ہے۔ چینلوں نے پچھلے برسوں کی طرح کئی روز پہلے سے بجٹ نشریات بھی شروع نہیںکیں۔ ہؤا یہ کہ ان سب کو راہ دکھانے والا تھا جیو چینل۔ وہ جس رستے پر چلتا زیادہ تر چینل بھیڑ چال اپناتے اور ویسے پروگرام تیار کرنے لگتے اب وہ عوام کے دباؤمیں آکر اکثر شہروں میں کیبل اپریٹرز نے بند کر رکھا ہے آئی ایس آئی کے خلاف خبروں سے لوگ مشتعل نہیں ہوئے تھے۔
جتنے اہل بیت کی توہین والے مارننگ شو سے ہوئے ہیں۔ ایک معاملہ تو یہ فوقیت لے گیا ہے دوسرے عمران خان نے نواز حکومت کے خلاف بڑے بڑے جلسے خود نواز شریف کے مضبوط گڑھ پنجاب میں شروع کر رکھے ہیں۔ عوام اس چنتا میں لگے رہتے ہیں کہ نواز سرکار اپنی مدت پوری کرسکے گی یا نہیں۔ نواز حکومت کے وزیر عمران کے بیانوں کے جواب میں مصروف رہتے ہیں۔ نواز حکومت نے طالبان سے مذاکرات کا ڈول ڈال کے سمجھا تھا لوگ اس میں زیادہ دلچسپی لیں گے اور ان کی توجہ خراب اکنامی اور کرپشن سے ہٹی رہے گی لیکن مذاکرات کی گاڑی چلی ہی نہیں۔ اس لئے دلچسپی کا سامان ہی نہیں بنا۔ طالبان میں پھوٹ کا سہرا نواز لیگ کے حا می اپنے سر باندھنا چاہتے ہیں۔ جبکہ اندر کی خبر رکھنے والے اسے فوج کی خفیہ ایجنسیوں کا کارنامہ قرار دیتے ہیں۔ مگر یہ پھوٹ بھی طالبان کو اپنی خونیں کارروائیوں سے نہیں روک سکی۔ اس ہفتے کئی وارداتیں ہوئی ہیں۔ جس میں فوج کے بڑے افسر خود کش بمباروںکا نشانہ بنے ہیں۔ عوام میں بھی شدید ردعمل ہے اور مسلح افواج میں بھی۔ جب یہ سطریں آپ کی نظروں کے سامنے ہونگی ممکن ہے اس وقت تک فوج کی طرف سے طالبان کے ٹھکانوں پربمباری ہوچکی ہو۔ ہم لوگ ایسے وسوسوں اور خدشوں میں ہی دن گزارتے ہیں۔ نواز حکومت دوسرے سال میں داخل ہو گئی ہے۔ لیکن دہشت گردی کے حوالے سے کوئی نتیجہ خیز کام نہیں کر سکی ہے حالانکہ لوگوں کی اکثریت اسی کواولین فریضہ خیال کرتی تھی اور ہے۔ دہشت گردی روکنے میں تو کوئی صوبائی حکومت ٹھوس قدم نہیں اٹھا سکی۔ چاروں صوبوں میں الگ الگ پارٹیاں راج کررہی ہیں۔ امن وامان صوبائی مسئلہ ہے سندھ خیبر پختون خوااور بلوچستان میں بم دھماکے ہوتے رہتے ہیں۔ پنجاب اس حوالے سے کچھ محفوظ ہے۔ اس میں پنجاب سرکار کی سخت پالیسیوں کا دخل ہے یا دہشت گرد تنظیموںکا نواز لیگ کے لئے نرم گوشہ۔ جنتا بھی دہشت گردی سے تنگ ہے اور کاروباری حلقے بھی۔
جیون کی ناؤ ان طوفانوں میں اسی طرح سفر کر رہی تھی کہ لندن سے اچانک خبر آگئی کہ متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین کو منی لانڈرنگ کیس میں گرفتار کرلیا گیا ہے۔ چینلوں پر یہ اطلاع چلی اور ساتھ ہی ملک کے سب سے بڑے صنعتی تجارتی مرکز کراچی کت شٹر گرنے شروع ہو گئے۔ خوف کی لہر ہر علاقے محلے میں دوڑنے لگی۔ مجھے اپنے بیٹے کی فیملی کو ائرپورٹ چھوڑ کر اپنے رسالے کے دفتر جانا تھا۔ دونوں طرف دکانیں بند ہورہی تھیں ایک افراتفری تھی موٹرسائکل والے جہاں جی چاہ رہاتھا وہاں گھس رہے تھے۔کچھ بسوں ٹرکوں والے سڑک کے درمیان بنی رکاوٹوں پر پیئے چڑھا کر سڑک کے دوسری طرف جانا چاہ رہے تھے۔ یہ مناظر ہم کراچی میں بہت دیکھ چکے ہیں لیکن اس بار گھبراہٹ زیادہ دکھائی دے رہی تھی۔ میں ائرپورٹ پہنچنے اور بچوں کو چھوڑنے میں تو کامیاب ہوگیا اور خدا کا شکر بھی ادا کررہا تھا مگر واپسی پر افراتفری کے سیلاب میں پھنس گیا۔ آگے جاسکتا تھا نہ پیچھے۔گھر دفتر دونوں ایک جیسے فاصلے پر تھے لیکن کسی سمت جانا ممکن نہیں تھا ایک بار تو مجھے یہ سوچ کر کپکپی طاری ہوئی کہ گاڑی کو آگ لگ سکتی ہے فائرنگ کی زد میں آسکتا ہوں۔ جس راستے کی کوشش کرتے تھے وہی رکا ہوا۔ خیر بڑی مشکل سے ائرپورٹ واپسی میں کامیابی ہوئی طے یہی کیا کہ ائرپورٹ پارکنگ میں پناہ لی جائے۔ ہوا بھی چل رہی تھی فون پر حالات سے آگاہی ہورہی تھی ساڑھے تین گھنٹے بعد افراتفری ختم ہوئی تو واپسی کا رخ کیا اب سڑکیں سنسان تھیں راستے بند کرنے والے بھی گھر چلے گئے تھے
اور گھبرائے ہوئے شہری بھی۔ اب کے ایم کیو ایم نے احتجاج کا پر امن طریقہ اختیار کیا ہے کہ انہوں نے معاملات طے ہونے اور صورت حال واضح ہونے تک دھرنا دینے کا اعلان کیا۔ دوسرے دن رات گئے تاجروں دکانداروں پٹرول پمپ مالکان ٹرانسپورٹ والوں سے کہا کہ وہ اپناکاروبار معمول کے مطابق چلائیں۔ا سکول کالج بھی تعلیم جاری رکھیں۔ ورنہ کراچی میں تو ہفتے ہفتے کی ہڑتالیں بھی چلی ہیں۔ لندن سے ابھی تک کوئی اچھی خبر نہیں آئی ہے۔ شہر میں تناؤ ہے۔ پورے ملک کا یہی حال ہے مگر شاباش ہے پاکستانیوں کو کہ انہوں نے ایسے خراب حالات میں جینے کا طریقہ سیکھ لیا ہے۔ مشکلات کا مقابلہ کرتے رہتے ہیں۔ اچھے دنوں کی آس میں جیون کی گاڑی کھینچتے رہتے ہیں۔ بعض تجزیہ کار کسی بڑی گھٹنا کی چیتائونی دے رہے ہیں کہ یہ جو کچھ بیت رہا ہے یہ کسی بڑے طوفان کے آنے کی علامت ہے حکومت، سیاسی پارٹیوں اور میڈیا کو اسکی تیاری کرنی چاہیے۔
mahmoodshaam@gmail.com
صرف ایس ایم ایس کے لیے:92-3317806800