اقوام متحدہ قیام امن فورسیس

ہر چہرے پر چہرہ ہو تو کیسے ہم یہ پہچانیں
کون ہے اپنا کون پرایا میں بھی سوچوں تو بھی سوچ
اقوام متحدہ قیام امن فورسیس
اقوام متحدہ کی قیام امن کوششوں میں کامیابی کا انحصار سلامتی کونسل کے رکن ممالک کی دیانتدارانہ شراکت داری پر ہے۔ نیویارک میں منعقدہ قیام امن چوٹی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے صدر امریکہ بارک اوباما، وزیراعظم ہند نریندر مودی اور دیگر قائدین نے اس بات پر زور دیا کہ قیام امن کو کامیاب بنانے کیلئے قیام امن افواج کو بھاری اسلحہ سے لیس کرنا نہیں ہے بلکہ اقوام متحدہ سلامتی کونسل کی اخلاقی فورسیس کی کارکردگی کو مؤثر بنانا ہے۔ سکریٹری جنرل اقوام متحدہ بان کی مون، وزیراعظم پاکستان نواز شریف اور دیگر عالمی قائدین کی کثیر تعداد کے درمیان صدر اوباما نے قیام امن کوششوں میں ناکامی کی اصل وجہ رکن ممالک کی جانب سے عدم تعاون بتائی ہے۔ ان ممالک کے درمیان فیصلہ سازی کے عمل میں کوئی رول نہ ہونے سے آج دنیا کے بیشتر مقامات پر بدامنی کی فضاء برقرار ہے خاص کر شام میں چار سال سے جاری خانہ جنگی کے لئے ملک کے سربراہ بشارالاسد کو ذمہ دار متصورکئے جانے کے باوجود انہیں اقتدار سے بیدخل نہیں کیا گیا۔ اقوام متحدہ قیام امن کی فوج میں ہندوستان بھی سب سے بڑا تعاون کرنے والا ملک ہے۔ اس کے 1,80,000 سپاہیوں نے اب تک ساری دنیا میں انجام دیئے گئے قیام امن کے 69 مشن کے منجملہ 48 مشن میں حصہ لیا ہے۔ اس سلسلہ میں وزیراعظم مودی نے اقوام متحدہ میں اصلاحات کے دیرینہ تقاضوں کو پورا کرنے کی جانب توجہ دلائی ہے جب تک اصلاحات کے عمل کو پورا نہیں کرلیا جاتا اقوام متحدہ قیام امن مشن کو کارآمد اور مؤثر نہیں بنایا جاسکے گا۔ اقوام متحدہ کے قیام کے 70 سال بعد بھی قیام امن کا مسئلہ برقرار ہے تو کارکردگی کے معاملہ میں اس کی کوتاہیوں کو ہی ذمہ دار ٹھہرایا جاسکتا ہے۔ اقوام متحدہ کے قیام امن مشن میں ہندوستان کے سرگرمی سے حصہ لینے کے باوجود اس ملک کو رکنیت کا حق نہیں دیا گیا ہے۔ لہٰذا اقوام متحدہ کو ازخود اپنے اندر تبدیلیاں لانے کی ضرورت ہے۔ عالمی سطح پر ہونے والی تبدیلیوں کے پیش نظر اصلاحات کے عمل کو شروع کیا جانا چاہئے۔ اصلاحات کے پروگرام پر بہت پہلے سے ہی کام ہوا ہے۔ اب اس پر فوری عمل آوری کی ضرورت ہے۔ یہاں کچھ معاملات میں سیکوریٹی کونسل کے پانچ مستقل رکن ممالک کا متفق ہونا بھی ضروری ہے۔ اقوام متحدہ میں تمام تر خامیوں کے باوجود اس کے 70 سالہ ماضی پر نظر ڈالی جائے تو اس نے ساری دنیا میں اب تک 170 سے زائد امن معاہدے کروائے ہیں۔ کئی ملکوں میں خانہ جنگی رکوانے میں اس عالمی ادارہ نے اہم رول ادا کیا ہے۔ تاہم فریق ممالک نے اپنے درمیان تنازعات کی از خود یکسوئی بھی کرلی گئی تھی۔ شام کے معاملہ میں اقوام متحدہ کے رکن ممالک امریکہ اور روس کا ٹکراؤ سے اس ملک کی جنگ زدہ کیفیت کو درست کرنے میں مدد نہیں مل رہی ہے۔ روس نے شام کے صدر بشارالاسد کی بھرپور سرپرستی کی ہے تو صدر امریکہ نے شام کی خانہ جنگی ختم کرنے کیلئے روس اور ایران کے ساتھ مل کر کام کرنے کا ارادہ ظاہرکیا۔ صدر امریکہ بارک اوباما نے قیام امن مشن چوٹی کانفرنس میں اس دکھ کا اظہار کیا ہے کہ شام کو اس وقت امن کی ضرورت ہے لیکن اس سلسلہ میں ہم پیشرفت نہیں کرسکتے ہیں۔ بشارالاسد کو ایک ظالم اور چار سال سے جاری خانہ جنگی کا اصل قصور وار قرار دیا گیا جس میں اب تک دو لاکھ سے زائد افراد ہلاک اور لاکھوں افراد بے گھر ہوئے ہیں۔ سکریٹری جنرل اقوام متحدہ بان کی مون نے پہلی مرتبہ شام کی صورتحال کو سنگین قرار دیتے ہوئے اس معاملہ میں اقوام متحدہ کی بے بسی کا اظہار کیا۔ ان کا مشورہ ہیکہ شام کی صورتحال کی بہتری کیلئے ضروری ہیکہ یہ مسئلہ عالمی عدالت انصاف سے رجوع کیا جائے ۔ شام میں جاری سرکاری سرپرستی کی ظلم و زیادتی کے جرائم کو معاف نہیں کیا جاسکتا۔ غور طلب امر یہ ہیکہ اقوام متحدہ جو خود کو دنیا بھر میں جمہوری اقوام کا محافظ سمجھتا ہے ازخود اندر سے کمزور ہے کیونکہ اس کی طاقت پانچ خانوں میں منقسم ہے۔ سلامتی کونسل میں ویٹو کا اختیار رکھنے والے پانچ مستقل ارکان ویٹو کے ذریعہ ہی اپنی بات منوانے کی کوشش کرتے ہیں۔ امریکہ، برطانیہ، فرانس، چین اور روس مل کر ساری دنیا میں اچھے برے کا فیصلہ کرنے کا ویٹو اختیار رکھتے ہیں تو پھر شام میں روس اور امریکہ کا ٹکراؤ قیام امن کے لئے خطرہ بن رہا ہے۔ بوسنیا، سربیا، یوگوسلاویہ، ویتنام اور عراق میں اقوام متحدہ کے رول سے ساری دنیا واقف ہے۔ اب یہ عالمی ادارہ شام کے معاملہ میں بھی اپنے رکن ممالک کو متحد کرنے میں ناکام ہورہا ہے۔ اقوام متحدہ نے 1945 میں اپنے قیام کے بعد سب سے بڑے اسرائیل اور فلسطین تنازعہ کو ہاتھ میں لیا تھا لیکن آج تک وہ فلسطین میں قیام امن کی جدوجہد میں کامیاب نہیں ہوا۔ محض اس لئے کہ یہودی لابی نے اقوام متحدہ کو بھی اپنی طاقت کے زیراثر کردیا ہے۔