اقلیتی حقوق ’کامل‘ ، دستورساز اسمبلی کے مباحث میں امبیڈکر کا موقف

صدرنشین مسودہ کمیٹی کا موقف رہا کہ سماج کی تنظیم عوام پر چھوڑ دینا چاہئے ، دستورہند میں سکیولرازم اور سوشلسٹ کی اصطلاحوں کی ضرورت نہیں
نئی دہلی ، 30 نومبر (سیاست ڈاٹ کام) بھیم راؤ امبیڈیکر جو ہندوستانی دستور کی مسودہ کمیٹی کے صدرنشین رہے، انھوں نے اقلیتی حقوق کیلئے پُرزور وکالت کی تھی جبکہ دستورساز اسمبلی میں یکم مئی 1947ء کو عبوری رپور ٹ برائے بنیادی حقوق پر مباحث منعقد کئے گئے تھے۔ تاہم ڈاکٹر امبیڈکر نے زائد از ایک سال بعد ایسی تجویز کی مخالفت کی تھی کہ الفاظ ’’سوشلسٹ‘‘ اور ’’سکیولر‘‘ دستور کے آرٹیکل 1 میں شامل کئے جائیں۔ گزشتہ چند دنوں میں امبیڈکر، دستور ہند اور حتیٰ کہ ’’عدم رواداری‘‘ جیسے موضوعات پر پارلیمنٹ کے اندرون اور بیرون مباحث دیکھنے میں آئے ہیں، جبکہ فلمی ستاروں شاہ رخ خان اور عامر خان کو اس مسئلے پر اظہار تشویش کرنے پر ہدف تنقید بنایا جارہا ہے۔ ’’اقلیتوں کیلئے حقوق کامل حقوق ہونے چاہئیں۔ انھیں ایسے کسی بھی نکتہ کے تابع نہیں رکھنا چاہئے کہ کوئی دیگر فریق اقلیتوں کیلئے اسی دائرۂ کار میں کیا کرنا چاہے گا،‘‘ یہ الفاظ امبیڈکر کے ہیں، جو انھوں نے 1947ء میں کہے، جو کے ایم منشی کی اس تجویز کے خلاف بطور احتجاج کہے گئے کہ سرکاری تعلیمی اداروں میں داخلے کے معاملے میں اقلیتوں کے خلاف امتیاز اور انھیں لازمی مذہبی تعلیم سے منع کرنے سے روکنے والے فقرہ کو مزید غوروخوض کیلئے کسی کمیٹی سے رجوع کیا جائے۔ جہاں منشی نے کوئی استدلال پیش نہیں کیا، وہیں امبیڈکر نے کہا: ’’اس تجویز کیلئے حمایت میں واحد وجہ جو کوئی محسوس کرسکتا ہے وہ یہ کہ ہمیں لازماً انتظار کرنا اور دیکھنا چاہئے کہ پاکستان اسمبلی کی جانب سے اقلیتوں کو کیا حقوق دیئے جاتے ہیں، قبل اس کے کہ ہم ان حقوق کا تعین کریں جو ہم علاقہ ٔ ہندوستان میں دینا چاہتے ہیں … میں اس طرح کے کسی نظریہ کی ضرور مخالفت کروں گا۔‘‘ انھوں نے مزید کہا تھا کہ اگرچہ حکومت پڑوسیوں کے ساتھ سفارتی طور پر رابطے میں رہ سکتی ہے کہ وہاں اقلیتوں کے حقوق یقینی بنائے جاسکیں، لیکن وہ اس بات کے حق میں نہیں کہ اس سے یہاں اُن کے (اقلیتوں کے) حقوق متاثر ہوں۔ تاہم مسئلہ سکیولرازم پر اُن کے موقف سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ سمجھتے تھے کہ سکیولرازم آفاقی قدروں میں سے ہے جس کا دستور ہند میں خصوصیت کے ساتھ تذکرہ کرنے کی چنداں ضرورت نہیں ہے۔ نومبر 1948ء میں بہار کے رکن کے ٹی شاہ کی پیش کردہ ترمیم کہ الفاظ ’’سکیولر، وفاقی اور سوشلسٹ‘‘ ہندوستان کا تعارف پیش کرنے والے آرٹیکل 1 کے فقرہ 1 میں شامل کئے جائیں، اسے امبیڈکر کی تائید نہ ملی۔ انھوں نے زور دیا کہ عوام پر یہ فیصلہ چھوڑ دینا چاہئے کہ ’’سماج کو اس کے سماجی اور معاشی پہلو میں وقت اور حالات کے اعتبار سے کس طرح منظم کیا جانا چاہئے‘‘ اور دستور کو اُن سے یہ آزادی نہیں چھیننا چاہئے۔ ’’سکیولرازم‘‘ پر کچھ بھی خصوصیت سے کہے بغیر امبیڈکر نے اپنا موقف پیش کیا کہ اگرچہ سوشلزم ہوسکتا ہے کئی گوشوں کو موجودہ دور میں سامراجیت کے مقابل بہتر نظام نظر آسکتا ہے، لیکن مستقبل میں لوگ ہوسکتا ہے سماجی تانے بانے کی کوئی اور شکل کو ترجیح دینے لگیں گے۔ تاہم انھوں نے یہ بھی کہا تھا کہ بعض ہدایتی اصولوں میں اشتراکیت کا پہلو موجود ہے۔ ڈاکٹر امبیڈکر کو جواہرلال نہرو کی 13 ڈسمبر 1946ء کو دستور کے اغراض و مقاصد کی بابت پیش کردہ قرارداد پر بھی مایوسی ہوئی تھی۔ اس قرارداد نے انصاف، مساوات، اظہار خیال اور عقیدہ ، مذہب اور عبادت کی آزادی نیز اقلیتوں اور پسماندہ طبقات کیلئے حفاظتی اقدامات کو دستور ہند کے مقاصد میں پیش کیا تھا۔ ڈاکٹر امبیڈکر کو اس میں ’’خالصتاً ریاکاری‘‘ اور اُن اقدار کی ’’غیرضروری‘‘ تکرار نظر آئی جو فرانسیسی اعلامیہ حقوق انسان میں محفوظ ہیں، جو اَب ’’ہمارے ذہنی خاکے کا جز لاینفک‘‘ ہیں۔