اقلیتی اقامتی مدارس میں داخلے کی اپیل

کریم نگر۔ 16 مئی (سیاست ڈسٹرکٹ نیوز) ریاستی حکومت اقتدار کے حصول کے ساتھ ہی چناؤ منشور پر عمل آوری کی منصوبہ بندی کے سی آر نے شروع کردی۔ انہوں نے الیکشن سے قبل تعلیمی ترقی اور معیاری تعلیم کا وعدہ کیا تھا، بالخصوص اقلیتی طبقہ کے بچوں کو مفت تعلیم کی غرص سے اقلیتی امامتی انگلش میڈیم اسکولس کا قیام عمل میں لایا جارہا ہے۔ پہلے مرحلے میں 71 مدارس کے قیام کے بہترین انتظامات کئے گئے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار رکن پارلیمنٹ ونود کمار نے چنتہ کنٹہ شانتی نگر کریم نگر منڈل کے مضافاتی علاقہ کی غریبوں کی بستی میں سرکاری اسکولس کے میدان میں منعقدہ بیداری پروگرام میں کیا۔ اس پروگرام میں ناراداس لکشمن ایم ایل سی کے علاوہ مسلم گریجویٹ اسوسی ایشن کے ذمہ داران ساجد فخرالزماں، محمد خواجہ رضوان اور ایس کے محمود موجود تھے۔ ونود کمار نے کہا کہ پچھلے سال مدارس کے قیام کے لئے جی او جاری کردیا گیا تھا لیکن عمارتوں کا حصول نہ ہونے کی وجہ یہ پروگرام ادھورا ہی رہا لیکن امسال کرایہ کی عمارتیں حاصل کرکے اقلیتی اقامتی اسکولس قائم کئے جارہے ہیں۔ ناراداس لکشمن نے کہا کہ سرکاری طور پر اقلیتی اقامتی مدارس کی تشہیر کی جارہی ہے۔ اولیائے طلبہ اس طرف خصوصی توجہ دیں اور اپنے بچوں کو ان مدارس میں داخلہ دلوائیں۔ ظہور خالد اور ایس کے محمود نے کے سی آر کے مسلم دوست اور خیر خواہ بنایا۔ انہوں نے کہا کہ آج تک کسی بھی حکومت نے مسلمانوں کی تعلیم کی طرف کبھی توجہ نہیں دی۔ ہر وقت الیکشن کے موقع پر مسلمانوں کو سبز باغ دکھاتے رہے اور کامیابی حاصل کرنے کے بعد کامیابی حاصل کرنے کے بعد پانچ سال تک پلٹ کر نہیں دیکھا جس کی وجہ سے مسلمانوں کی معاشی حالت دلتوں سے بھی بدتر ہے۔ کے سی آر بھی چاہتے ہیں کہ دیگر قوموں کی طرح مسلمان بھی تعلیمی میدان میں ترقی کریں جلسے کا آغاز قاضی افتخار صاحب کی تلاوت کلام پاک سے ہوا۔ ابتدائی طور پر ضلع پریشد معاون رکن محمد جمیل الدین نے اقامتی انگلش میڈیم اسکولس کے قیام اس کی غرض و غایت اور اس کی اہمیت و افادیت کے بارے میں بتایا۔ جلسہ کی کارروائی محمد الطاف احمد سیکریٹری گریجویٹس اسوسی ایشن نے چلائی۔ اس موقع پر او ایس ڈی اقلیتی بہبود اسکولس محمد عبدالمجید اسپیشل آفیسر ڈاکٹر کرشنیا، ٹی آر ایس ضلع صدر شنکر ریڈی، صدر ضلع شعبہ تعلیم سید اکبر حسین، وینو گوپال، ایس شاردا، عبدالصمد، نواب خیرالدین، مقیت علی شاہ، خواجہ نظام الدین جاوید کے علاوہ دیگر انجمنوں کے صدور و اراکین اور اولیائے طلباء کی کثیر تعداد موجود تھی۔