اقلیتوں اور دلتوں میں اتحاد واتفاق وقت کی اہم ضرورت

ووٹ کی اہمیت سمجھنے پرزور‘ ٹی ماس ساوتھ زون کمیٹی کا قیام‘ ظہیر الدین علی خان‘ ویرا بھدرم‘ کانچہ ایلیا‘ ویملااکا اوردیگر کا خطاب
حیدرآباد۔ریاست تلنگانہ میں پسماندگی کا شکار طبقات کی آبادی کا تناسب93فیصد سے زیادہ ہے مگر آزادی کے بعد سے لیکر اب تک پسماندہ طبقات کی نمائندگی کرنے والی کسی بھی قیادت کو اقتدار نہیں ملا اسکی وجہہ پسماندگی کاشکار ایس سی ‘ ایس ٹی ‘ بی سی اور اقلیتوں کے درمیان میں اتفاق واتحاد کی کمی ہے ۔

مذکورہ پسماندہ طبقات کے ووٹوں سے اقتدار پر فائز ہونے والی قیادتیں آج ہزاروں کروڑ کے مالک ہیں جبکہ انہیں ووٹ دینے والوں کی آبادی کا بڑا حصہ دووقت کی روٹی اور سرچھپانے کے لئے چھت سے آج بھی محروم ہے ۔ حالات او ر وقت کی تبدیلی کے باوجود پسماندگی کا شکار طبقات میں اتحاد واتفاق کی کمی کا فائدہ سات فیصد آباد ی پر مشتمل سیاسی قائدین اٹھارہے ہیں اور ہماری سیاسی طور پر نمائندگی کے دعویدار لوگ حکمرانوں کے ہاتھوں کی کٹ پتلی بنے ہوئے ہیں۔ آج یہاں مادنا پیٹ میں ٹی ۔

ماس(تلنگانہ ماس اینڈ سوشیل آرگنائزیشن فورم) کی حیدرآباد ساوتھ زون کمیٹی کے قیام کے موقع پر منعقدہ جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے جناب ظہیر الدین علی خان نے ان خیالات کا اظہار کیا۔سی پی ائی ایم تلنگانہ اسٹیٹ سکریٹری ٹی ویر ا بھدرم‘ پروفیسر کانچہ ایلیا‘ مولانا حامد حسین شطاری‘ویملا اکا صدر ٹی یو ایف‘داس رام نائیک‘ جے بی راجو‘ محترمہ جمیلہ نشاط جناب‘نعیم اللہ شریف‘ جناب اقبال جاوید‘ جناب عبدالقدوس غوری‘ جناب محمد عباس‘ مسٹر دھرما نائیک کے علاوہ بائیں بازو تحریکوں سے جڑے درجنوں سماجی کارکنوں اور سیاسی قائدین نے بھی اس جلسہ عام سے خطاب کیا۔

جناب ایم اے ستار‘ مہناج قریشی‘ محمد کلیم الدین‘ محمد بابر خان‘ حسن فاروقی‘ شوکت علی‘ عبدالطیف کے علاوہ دیگر نے جلسہ کے کامیاب انصرام میں اہم رول ادا کیا۔

سینکڑوں کی تعداد میں موجود مرد او رخواتین سے خطاب کرتے ہوئے جناب ظہیرالدین علی خان نے کہاکہ ہمیں اپنے ووٹ کی اہمیت کو سمجھنے کی ضرورت ہے انہو ں نے کہاکہ ووٹ ہمارا سب سے بڑا ہتھیار ہے اور پیسوں کے لالچ میں اس کا استعمال ہمیں پانچ سالوں تک پریشان حال زندگی گذارنے پر مجبور کردیگا جو پچھلے ساٹھ سالوں سے ہوتا آرہا ہے۔ انہوں نے مزیدکہاکہ اب وقت آگیا ہے کہ ہم متحد ہوجائیں اور پسماندگی کاشکار طبقات میں سے کسی ایک کو اقتدارپر بیٹھانے کا منصوبہ بنائیں۔

انہوں نے کہاکہ ہم پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی کہ ملک کے کسی بھی کونے میں اگر کسی دلت پر ظلم ڈھایاجاتا ہے تو تمام مسلمان دلتوں کے ساتھ ملکر اس ظلم کے خلاف آواز اٹھائیں اور اگر ملک کے کسی کونے میں مسلمانو ں کو نشانہ بنایاجاتاہے تو دلتوں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ مسلمان کی آواز بن جائیں۔ انہوں نے کہاکہ ایک بار ہمارے درمیان اتحاد قائم ہوگیا تو سارے ملک میں اونا اور دادری جیسے واقعات دوبارہ رونما نہیں ہونگے۔

انہوں نے کہاکہ تلنگانہ سے سوشیل انجینئرنگ کی شروعات وقت کی اہم ضرورت بنی ہوئی ہے۔ انہو ں نے اس موقع پر ٹی ماس کے قائدین کو مبارکباد پیش کرتے ہوئے ٹی ماس کے قیام کے مقاصد کی تکمیل کے لئے نیک تمناؤ ں کا بھی اظہار کیا۔مسٹر ٹی ویر ابھدرم نے ہجوم کے ہاتھوں ہونے والی ہلاکتوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ ملک میں جو نفرت کاماحول پیدا کیاگیا ہے اس پر قابو پانے کے لئے مرکزی او رریاستی حکومتو ں کی جانب سے موثر اقدامات کی کمی ہے۔ انہو ں نے مزیدکہاکہ مسلم اقلیت پر ڈھائے جانے والے مظالم کی روک تھام میں مرکزی اورریاستی حکومتیں پوری طرح ناکام ہوگئی ہیں۔ انہو ں نے کہاکہ ملک کے وزیراعظم سے مسلمانوں کو بھی کافی توقعات ہیں مگر انہو ں نے کبھی بھی مسلمانوں کے فلاح وبہبود میں بات نہیں کی ۔

انہوں نے کہاکہ یہی حال ریاست تلنگانہ کا بھی ہے جہاں پر مسلمانوں اور ایس سی‘ ایس ٹی ‘ بی سی طبقے کے جذبات سے کھلواڑ کیاجارہا ہے۔ انہو ں نے مزیدکہاکہ یہاں پر جمہوری حقوق کو سلب کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ اظہار خیال کی آزادی کو ختم کرنے کے لئے دھرنا چوک کو برخواست کرنے کی سازشیں کی جارہی ہیں اور اس کے خلاف اگر کوئی احتجاج کرتاہے تو کو جیل میں بند کرنے اور پولیس کے ذریعہ اس کو ہراساں وپریشان کرنے کاکام کیاجارہا ہے۔ ویر ا بھدرم نے کہاکہ بائیں بازو کی جانب سے اس بات کی پہل کی جارہی ہے ۔انہو ں نے کہاکہ ٹی ماس کے قیام کا مقصد اقلیتوں او ردیگر پسماندہ طبقات کے حقوق کی سیاسی لڑائی کو منزل تک پہنچانا ہے۔

پروفیسر کانچہ ایلیا نے اپنے تقریر میں کہاکہ آج مسلمانوں کے کھانے پینے پر روک لگانے کی کوششیں کی جارہی ہے جبکہ اسلام نے ہی دنیاکو کھانے پینے او رکپڑے پہننے کا طریقہ سیکھا ہے۔انہوں نے کہاکہ آج سارے ملک میں دلتوں اور مسلمانوں کو نشانہ بنانے کاکام کیاجارہا ہے ۔انہو ں نے مزیدکہاکہ جب تک ہمارے درمیان میں اتحاد قائم نہیں ہوتا تب تک ہم اسی طرح فسطائی طاقتوں کے ہاتھوں نشانہ بنتے رہیں گے۔ کانچہ ایلیا نے کہاکہ مسلم خواتین کے ساتھ انصاف کے نام پر مسلمانوں کے مذہبی معاملات میں مداخلت کی جارہی ہے جبکہ ہند وسماج میں دلت عورتوں کے ساتھ جوسلوک کیاجاتا ہے اس پر کوئی کاروائی کیوں نہیں کی جاتی۔

پروفیسر کانچہ ایلیا نے مزیدکہاکہ مرکزی اور ریاستی حکومتوں کو چاہئے کہ وہ دلت عورتوں کو مندر میں پوجا کرنے کی اجازت دیں ‘ ان کے ساتھ ہونے والی عصمت ریزی کے واقعات پر روک لگائیں اس کے بعد مسلم خواتین کی فکر کریں کیونکہ مسلم خواتین ایک منظم اور مکمل مذہب کے پیروکار ہیں۔انہوں نے کہاکہ آر ایس ایس ذہنیت کے لوگوں کا نظریہ ڈیرا سچا سودا کے سربراہ گرومیت رام رحیم واقعہ کے بعد منظرعام پر اگیا ہے۔

انہوں نے کہاکہ عصمت ریزی کے مرتکب مجرمین کو زیڈ زمرہ سکیورٹی فراہم کرنا ان کا نظریہ ہے۔ویملا اکا نے جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے ہجوم کے ہاتھوں ہونے والی ہلاکتیں اور ماؤسٹوں کے نام پر چھتیس گڑ سے لیکر تلنگانہ کے قبائیلی علاقوں میں پیش آنے والے فرضی انکاونٹر جمہوری نظام کے نام پر سب سے بڑا داغ ہیں۔

ویملا نے اس موقع پر گاؤ کشی کے نام پر ملک بھر میں جاری بربریت پر ایک انقلابی گیت بھی پیش کیا او رکہاکہ کھانا پینا‘ پہننا ہر ہندوستانی کا جمہوری حق ہے اس کے متعلق ہمیں فسطائی طاقتوں کے سبق کی ضرورت نہیں ہے ۔دیگر مقررین نے بھی ٹی ماس کے ساوتھ زون یونٹ کے قیام پر منتظمین کو دل کی گہرائیو ں سے مبارکباد پیش کی۔اروندیا اور پرجا ناٹاکالا منڈلی کے کارکنوں نے انقلابی گیت او ررقص پیش کیا۔