اقتدار کے مزے اور جمہوریت

دیو استبداد جمہوری قبا میں پائے کوب
تو سمجھتا ہے یہ آزادی کی ہے نیلم پری
اقتدار کے مزے اور جمہوریت
اقتدار کے مزے ہمیشہ صاحب اقتدار کے خاندان والے اور ان کے چہیتے اڑاتے ہیں ۔ قربانی تو بے چارے پارٹی کارکن دیتے ہیں ۔ ہندوستان پر حکومت کرنے والی پارٹیوں میں خاص کر کانگریس نے اقتدار کو خاندان کے اردگرد ہی مرکوز رکھا تھا ۔ اب بی جے پی کی حکمرانی میں سنگھ پریوار کی شکل میں ایک ہی چھت تلے رہنے والوں نے مزے لوٹنا شروع کیا ہے ۔ جب اقتدار سے محروم پارٹی حکمراں پارٹی کو تنقید کا نشانہ بناتی ہے تو اپنے دور حکمرانی کی غلطیوں کو فراموش کرتی ہے ۔ ان دنوں نریندر مودی حکومت اپوزیشن کی تنقیدوں کا سامنا کررہی ہے ۔ اصل اپوزیشن کانگریس کو ہر ریاست میں شکست کا منہ دیکھنے کے بعد یہی غم ستا رہا ہے کہ مرکز کا اقتدار کب حاصل ہوگا ۔ کانگریس کی نوجوان قیادت راہول گاندھی نے مودی حکومت کے خلاف مضبوط مورچہ نکالا ہے اس سلسلہ کی کڑی کے حصہ کے طور پر نئی دہلی کے رام لیلا میدان پر منعقدہ ’ جن آکروش ‘ ریالی منعقد کی گئی ۔ اس جلسہ کے مقررین کا لب و لہجہ حکومت کے خلاف ہی تھا ۔ اپوزیشن نے حکومت کی ناکامیوں اور وعدہ خلافیوں کی طویل فہرست تیار کرلی ہے ۔ صدر کانگریس نے اس امید کے ساتھ مہم شروع کی ہے کہ 2019 کے عام انتخابات کے بعد ان کی پارٹی کو اقتدار ملنے کو یقینی بنایا جائے ۔ جن پارٹیوں کو اپنی ہی سربراہی میں ملک کے جمہوری عمل سے روگردانی کے الزامات کا سامنا ہے ۔ وہ دوسروں پر یہ الزام عائد کرتے ہوئے پاکیزہ نہیں معلوم ہوتیں ۔ مودی حکومت پر الزام عائد کیا جارہا ہے کہ اس نے جمہوریت کا گلا گھونٹ دیا ہے ۔ کانگریس کی ریالی میں سابق وزیراعظم منموہن سنگھ اور سابق صدر کانگریس سونیا گاندھی نے مودی حکومت کی ناکامیوں کو پیش کرتے ہوئے عوام میں بیداری لانے کی کوشش کی ۔ اپوزیشن کی ان تنقیدوں میں ایک سچائی یہ ہے کہ مودی حکومت میں جو واقعات رونما ہورہے ہیں وہ ماضی میں کبھی نہیں دیکھے گئے ۔ دستوری اداروں کو کمزور کرنے والی کارروائیوں سے عوام کو واقف کروانا ضروری ہے ۔ خاص کر انصاف کے صدر مقام عدالت عالیہ کے امور میں حکومت کی مداخلت خطرناک ہے ۔ سپریم کورٹ کے ججس کے تقرر کا مسئلہ ہو یا فیصلہ سازی کا معاملہ ، حکومت اپنی مرضی مسلط کرنے کی کوشش کی ہے ۔ ایک طرف مودی حکومت اپنے تمام انتخابی وعدوں کو پورا کرنے میں ناکام ہے تو دوسری طرف گذشتہ چار سال کے دوران ملک کے عوام کی سلامتی کو خطرہ بڑھتا جارہا ہے ۔ روزگار کے مواقع ختم ہوتے دکھائی دے رہے ہیں ۔ ملک کا نوجوان طبقہ اپنے مستقبل پر فکر مند ہے ۔ اقلیتوں ، دلتوں اور خواتین پر ہونے والے حملوں کے باوجود یہ حکومت اپنی خرابیوں کا جائزہ لینے سے قاصر ہے ۔ پارلیمنٹ کو بھی حکومت نے خاطر میں نہیں رکھا بلکہ اپوزیشن کے تحریک عدم اعتماد کو بھی چالاکی سے ردی کی ٹوکری میں ڈالدیا ۔ پارلیمنٹ کو شروع سے آخر تک چلنے ہی نہ دیا جانا سوائے ایک سازش کے کچھ نہیں ہوسکتا ۔ ملک میں پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا جارہا ہے ۔ اس پر حکومت سے سوال کیا جائے تو وہ مختلف بہانے بناکر سوال کو ٹال دیتی ہے ۔ بنکوں سے رقومات غائب ہورہے ہیں ۔ عوام کی جمع پونجی خطرے میں ہے ۔ ملک کے اس بحران کی صورتحال سے نکالنے کے لیے اپوزیشن کے پاس بھی سوائے تنقیدوں کے کوئی منصوبہ نظر نہیں آرہا ہے ۔ کانگریس کی خرابی یہ ہے کہ وہ سیاست کی بساط میں ہمیشہ فتح کا خواب دیکھتی ہے جیسا کہ صدر کانگریس راہول گاندھی نے جن آکروش ریالی میں اپنے خواب کی تعبیر بھی دکھاتے ہوئے کہا کہ اب کانگریس یہاں سے ہر جگہ کامیاب ہوتے جائے گی ۔ پارٹی سربراہ آخر خوش فہمی کا کس بنیاد پر شکار ہوتے ہیں ۔ جب کہ ان کی پارٹی میں نا اہلی کا سلسلہ ہنوز جاری دکھائی دیتا ہے ۔ وزیراعظم مودی سے حال ہی میں لندن کا دورہ کے موقع پر ان سے پوچھا گیا تھا کہ ان کی صحت کا راز کیا ہے تو انہوں نے برجستہ جواب دیا تھا کہ وہ ہر روز سو گالیاں کھاتے ہیں ، یہی ان کی صحت کا راز ہے ۔ اگر اپوزیشن کانگریس کو اس بات میں سبق ملتا ہے تو وہ حکومت پر تنقیدیں کرنے کے لیے وقت ضائع کرنے سے زیادہ عوام اور ملک کی ترقی کے لیے منصوبہ سازی پر دھیان دے اور اپنے منصوبوں اور ریالیوں کو عوام کے سامنے پیش کر کے یقین دہانی کروانے پر محنت کرے تو شاید اب کی بار کانگریس کی سرکار کا خواب پورا ہوجائے ۔۔