مرکزی کابینہ میں ردوبدل پر بی جے پی کی دیرینہ حلیف شیوسینا کا تبصرہ
ممبئی ۔ 4 ستمبر (سیاست ڈاٹ کام) مرکزی مجلس وزراء میں ردوبدل کو سیاسی ضرورت قرار دیتے ہوئے بی جے پی کی ناراض حلیف شیوسینا نے کہا کہ نریندر مودی حکومت کے برسراقتدار آنے کے تین سال بعد بھی اس کے تجربے جاری ہیں۔ لوگ اب بھی ’’اچھے دن‘‘ کے منتظر ہیں۔ شیوسینا نے اپنے ترجمان سامنا کے اداریہ میں کہاکہ قلمدانوں کی تقسیم بی جے پی کا داخلی معاملہ ہے۔ سامنا کے اداریہ میں کہا گیا ہیکہ لیکن ہم اس پر خاموش نہیں بیٹھ سکتے کیونکہ اس کا اثر قومی سلامتی پر اور ملک کی ترقی پر مرتب ہوتا ہے۔ اداریہ کا عنوان ’’اچھے دن‘‘ رکھا گیا ہے۔ اس میں تحریر کیا گیا ہیکہ مودی حکومت نے اپنے تین سال مکمل کرلئے ہیں لیکن وزارتوں کے بارے میں جس کے تجربے ہنوز جاری ہے۔ لوگوں کو ’’اچھے دن‘‘ کے کرشمہ کا ہنوز انتظار ہے۔ 2014ء کے بی جے پی کے انتخابی نعرے کا حوالہ دیتے ہوئے اداریہ میں کہا گیا ہیکہ مودی اور ’’قومی صدر بی جے پی‘‘ امیت شاہ نے جن افراد کو مجلس وزراء میں شامل کرنے کیلئے منتخب کیا ہے، ان میں سے ایک اپنی عمر کے آخری مرحلہ میں ہے۔ ممکن ہیکہ ان کے انتخاب کی یہی وجہ ہو حالانکہ ان کے زیادہ کمسن ساتھی اپنی چھاپ چھوڑ نہیں سکے۔ ادھو ٹھاکرے زیرقیادت پارٹی جو مہاراشٹرا مرکز دونوں جگہ حکومتوں میں شامل ہے، کہا کہ حالانکہ نوٹوں کی تنسیخ مکمل طور پر ناکام ہوچکی ہے۔ افراط زر اور بیروزگاری بڑھتی جارہی ہے۔ غذا، لباس اور رہائش گاہ کے بنیادی مسائل ممبئی جیسے شہروں میں برقرار ہیں۔ طلبہ میں نتائج میں تاخیر کی وجہ سے الجھن پائی جاتی ہے۔ یونیورسٹیوں میں نیراج پھیلا ہوا ہے۔ بہار، آسام، اوڈیشہ، یوپی جیسی ریاستیں سیلاب سے تباہ ہوچکی ہیں۔ سرکاری دفاتر میں ہونے والی اموات جاری ہیں۔ کونسی وزارت نے کونسے مسئلہ کی یکسوئی کی ہے حالانکہ سریش پربھو کو وزارت ریلوے سے سبکدوش کردیا گیا ہے۔ یہ شعبہ لڑکھڑا رہا ہے۔ صفائی مہم مکمل انتشار کا شکار ہے لیکن اوما بھارتی کو بچا لیا گیا۔ کابینہ کی توسیع بی جے پی کی ایک ضرورت تھی اور پارٹی نے یہی کیا ہے۔