محمد جسیم الدین نظامی
کہتے ہیں کہ ،ایک چور پورے ادب و احترام کا مظاہر کرتے ہوئے مندر میں داخل ہوا اور وہاں رکھی مورتی چوری کر نے لگا ، اچانک اس کے پیچھے قدمو ں کی آہٹ ہوئی.. وہ مڑا تو اس نے دیکھا کہ ایک آدمی جوتوں سمیت مندر میں چلا آرہا ہے یہ دیکھ کر چور کو غصہ آیا، ان سے مخاطب ہو کر بولا اگر میں مصروف نہ ہوتا تو تجھے مندر کی ’’اپوترتا‘‘ (بے حرمتی) کا مزہ چکھا دیتا…. ’’سیکوالرزم بنام کمیو نل از م ‘‘ کا حال بھی کچھ ایساہی ہوچکا ہے ….بظاہر دو مختلف نظر یا ت رکھنے والی جماعتیں جمہوری اقدار اور اسکے تقدس کی پاسداری کی دعویدار ہے مگر اپنے قول و فعل میں ناقابل تردید تضاد کے باعث دونوں ہی جماعتیں لو ک تنترکے اس مندر کی بے حرمتی کا مرتکب ہیں… دن کے اجالے میں جو جماعتیں سیکولرازم کی چادر اوڑھ کر ، جمہوریت ،سیکولر اقدار اوربھائی چارے کا فلگ شگاف نعرے لگاتے لگاتے اپنا حلق سکھالیتی ہیں .. اقتدار کی ہوس انہیں رات کے اندھیرے میں کمیونلز ازم کی دہلیز ٖپر سجود نیاز لٹانے پر مجبور کردیتی ہے. ….مگر شکوہ ان سے نہیں جو متضاد نظریات کے اس جنگ میں ’’پانڈو‘‘ کی طرح سامنے سے حملہ آورہے …گلہ ان سیکولرازم کے علمبرداروں سے ہے جو ’’ کوروں‘‘ کی طرح سازش کرکے ’’ابھیمنو ‘‘ کی موت کا سبب بنتا ہے… اسمبلی انتخابات کی جنگ 2017کا بگل بجتے ہی ہر پارٹی نے اپنا سب کچھ داؤ پر لگا دیا ہے ۔سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ اترپردیش کا الیکشن نہ صرف 2019کے لو ک سبھا انتخابات کا سیمی فائنل ہے بلکہ اس سے قومی سیاست کی مستقبل کی راہ بھی طے ہوگی…اس انتخابی جنگ میں جہاں طرف ایک مضبوط نظریاتی پارٹی جسے ہم فرقہ پرست کہتے ہیں، پورے دم خم کے ساتھ اپنے طویل المیعاد منصوبے کے ساتھ میدان میں موجود ہے تو دوسری طرف اسکے مقابلے کیلئے ’’سیکولراز م کے علمبردار پارٹیوں کی اک’’ بھیڑ ‘‘ ہے جن میں سے ہر ایک کا دعوی ہے کہ ’’علاج تنگی داماں انہیں کے گلشن میں ہے‘‘….مایاوتی کا فرمان ہے کہ ،اگر بی جے پی کو ہراناہے ،تو مسلمانوں کو بی ایس پی کو ووٹ دینا ہی ہوگا.. ..ایس پی بھی مسلمانوںکو یہ احساس کرانے میں کامیاب ہوگئی ہے کہ اگر یوپی کے اقتدار پر بی جے پی قابض ہوگئی تو مظفر نگر جیسے حالات کا پھر سے سامنا کرنا پڑسکتاہے….کانگریس توپیدائشی طور پراس زعم میں مبتلاء ہے کہ مسلم وو ٹ انکے آباواجداد کی میراث ہے …رہ گئی دیگرچھوٹی موٹی پارٹیاں تو وہ بھی انہی کے نقش قد م پرگامز ن ہیں…. مگر ان میں سے کوئی ہمیں یہ تو سمجھادے کہ بی جے پی کو ہرانے کا ’’ٹھیکہ‘‘ صرف مسلمانوں کے حوالے کیو ںکردیا گیاہے؟…اگر جمہوری اقدار کا تحفظ ، سیکولرازم کی برقراری،آپسی بھائی چارے کی حفاظت ،ملک کی ترقی سب کو عزیر اورسب کی ضرورت ہے .. توفرقہ پرستی کا جنازہ نکالنے ’’مسلم کندھوں ‘‘ کی ہی ضرورت کیوں؟بی جے پی کو شکست دینے کی تمنا جتنا بہوجن سماج وادی کو ہے ،اتنی ہی آروز سماج وادیوںکو بھی ہے… بی جے پی کو اقتدار سے دور رکھنے کا جوجوش جذبہ جتنا کانگریس میں ابلتارہتا ہے، ٹھیک ویسی ہی خواہش’’ بکھرے ہوئے تارو کی طرح‘‘ مسلم سیاسی جماعتوںکی بھی ہے….جب سب کا مقصد ایک ،سب کے دعوے ایک جیسے تو یہ سب آپس میں ’’متحد ‘‘ ہوکر دشمن کا ’’متحدہ مقابلہ‘‘ کیو ں نہیں کرتے ؟ جیسا کہ بہار میں کیا گیا … بی جے پی کے خلاف صرف مسلمانو ںسے ’’متحدہ مسلم ووٹ ‘‘دینے کے احکام کیو ںجاری کئے جاتے ہیں؟…بی جے پی کو اقتدار سے دور رکھنے کیلئے اگر بہار میں دو کٹرحریف نتیش اورلالو ایک ہوسکتے ہیں،تو یوپی میں سماجوادی اوربی ایس پی ایک کیوں نہیں ہوسکتی؟…دلت اورمسلم سماج کی سیاست کرنے والی مسلم جماعتیں اور مایاوتی ایک ساتھ کیوںنہیں آجاتی ہیں؟ …یہ سب مل کرایک ’’مہاگٹھ بندھن‘‘تشکیل کیوں نہیں دیتے؟….ظاہر ہے اصل مقصد فرقہ پرستی کو شکست دینا نہیں ،اقتدار کاحصول ہی حاصلِ سیاست ہے…خواہ اسکے لئے کسی بھی حد تک جانا پڑے۔ کوئی چہرہ دکھا کر مسلمانوں کو ڈرا رہا ہے، تو کوئی ہمدرد ہونے کا دکھاوا کرکے.. حیرت ہے کہ’’ مسلم ووٹوں‘‘ کے لیے تو سب لڑ رہے ہیں، لیکن ’’مسلمانوں کیلئے‘‘ لڑنے والا کوئی بھی نہیں ۔ مسلمانوں کے مسائل ختم کرنے کے لیے نہ تو کسی کے پاس ٹھوس پالیسی ہے اور نا ہی عزم مصمم۔ تمام سیاسی پارٹیوں کی واحد حکمت عملی ہے، مسلمانوں کے ساتھ فریب کرو …سیاست کے ایسے پر فریب ماحول میں مسلمانوں کے سامنے سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ کیا کریں اور کہاں جائیں؟…سوال یہ ہے کہ کیا صرف بی جے پی کی مخالفت کردینے سے ہی سیکولر کے علمبرداوںکی ذمہ داری ختم ہو جاتی ہے؟ . پرفریب وعدوںکے ذریعہ مسلمانوں کا ووٹ حاصل کرنا سیکولر ازم کا صحیح مطلب سمجھ لیا گیا ہے۔ الیکشن آتے ہی سیاسی پارٹیوں کو مسلمانوں کا ریزرویشن یاد آتا ہے.. بولیاں لگنے لگتی ہیں… کوئی 5 فیصد، تو کوئی 9 فیصد، کوئی 18 فیصد ریزرویشن کی بات کرتا ہے تو کوئی 12فیصد… اور جب الیکشن کا دور ختم ہوجاتا ہے تو سب کچھ زیرو ہو جاتا ہے۔مایا وتی کو ایک بار پھر مسلمان شدت سے یاد آرہے ہیں،حالانکہ جب وہ برسراقتدار تھیںتوانہیں یہ توفیق نہیں ہوئی کہ ایڈمنسٹریشن میں مسلم نمائندگی میں اضافہ کریں،بیووکریسی اورسیاسی عہدوںپر مسلم چہروںکو موقع دیں،محکمہ پولیس میں مسلمانوںکی بھرتی کویقینی بنائں..مگرجب انہیں یقین ہوگیا کہ مسلم و وٹوںکی بیساکھی کے بغیر وہ اقتدار کا مزہ نہیں لوٹ سکتیں تواب کی بار سب سے زیاد مسلمانوںکو ٹکٹ دیکر مسلمانو ںکا ہمدرد بننے کا ڈھونگ کررہی ہیں…ٹھیک اس طرح جس طرح بہار میں ’’دلت راجنیتی‘‘ کرنے والے رام ولاس پاسوان نے ’’مسلم ڈپٹی چیف منسٹر ‘‘کا شوشہ چھوڑکر مسلم ووٹوںکو تقسیم کروادیا تھا…..اسی طرح پچھلی بار الیکشن میں سماجوادی پارٹی نے مسلمانوںسے جووعدے کئے تھے اس میں سے شاید ہی کسی وعد ے کی تکمیل ہوئی ہو،الٹا مظفرنگرجیسا فساد مسلمانوںکے مقدر میں لکھ دیا گیا..المیہ تو یہ ہے کہ پارٹی میں موجود مسلم قائدین میں بھی اتنی ہمت نہیں کہ وہ پا رٹی قیادت سے پچھلے پانچ سال کا نامہ اعمال پوچھ سکے، اور صرف اتنا دریافت کرلیں کہ ظل الہی،بے گناہ مسلم نوجوانوں کی رہائی اور 18 فیصد ریزرویشن کا وعدہ کس صدی میں پائے تکمیل کوپہنچے گا ؟ …حضور کے جن وعدوںپر ایمان لاتے ہو مسلمانوں نے جھولی بھر بھر کر ووٹ دیا تھا، ان کے جگرکا ٹکڑا آج بھی سلاخوں کے پیچھے زندگی کی سانسیں گننے پرکیوں مجبور ہے؟.. مسلمانوں کو فسادات کے آگ میں جھونکنے والے مجرمین کو کیاانکی زندگی میں ہی سزائیں دیدی جائنگی؟ یابعدازمرگ انہیں اس اعزاز سے نوازا جائگا؟.. سرکار اس بات کی بھی نشاندہی فرمادیں کہ، ریاست میں محض 8فیصد آبادی رکھنے والے یادو کے سرپر اقتدارکا تاج رکھنے والے 19فیصد مسلمانوںکی ترقی کیلئے عملی اقدامات ’’کس مرحلے کے دوراقتدار ‘‘میں روبعمل لائے جائنگے؟… کیوںکہ ان سوالوںکے جوابات کے بغیر ووٹوںکیلئے ’ ’مسلم گلیوںمیں کس منہ سے جاؤگے غالب‘‘؟ …مسلم ووٹروں کی بدقسمتی یہ ہے کہ انہیں کوئی با صلاحیت اور’’ مخلص قیادت‘‘ میسر نہیں ہے ..اورجو ہیں وہ ’’پالیسی‘‘ سے زیادہ ’’پرسنالیٹی‘‘ کے اسیرہیں..وہ اپنی مرضی سے سانس لینے میں بھی گھبراتے ہیں … ایسے میں انکے سامنے کوئی مناسب آپشن بھی نہیں بچتاکہ وہ انتخاب کریں تو کس کا ،ووٹ دیں تو کس کو؟…اس حوالے سے ابھی تک مسلم دانشوروںنے اپنے جن خیالات کا اظہار کیا ہے ،اسکے مطابق، مسلمانوںکے حق میں بہتر یہی ہوگاکہ وہ بی جے پی کی مخالفت میں لڑنے والے اتحادی جماعتوںکو ہی ترجیح دیں خواہ یہ اتحاد د صرف اکھلیش ،راہول والی قیادت پر مشتمل دو جماعتوںکا ہو یا دو سے زائد جماعتوںکا۔حالانکہ مذکورہ دوونوںجماعتو ںکے ماضی کاکردا ر مسلمانو ںکے تئیں مشتبہ ہی رہا ہے، تاہم اس امید میں کہ نوجوان قیادت اورنئے اتحاد سے شاید مسلمانوں کا کچھ بھلا ہوسکے… نئے ماموں سے نکٹا ماموں ہی سہی.. . اسکے علاہ دوسرامناسب آپشن بھی نہیں … کیونکہ آر ایس ایس سال بھر پہلے سے ہی پوپی انتخابات کی تیاریوںمیں مصروف ہے … اسکے خفیہ ا یجنڈے کے نفاذ کے لئے یوپی کا اسمبلی الیکشن انتہائی اہم ہے .. اگر یوپی میں بی جے پی کو کامیابی مل جاتی ہے اور اس کے اراکین اسمبلی کی تعداد بڑھ جاتی ہے تو راجیہ سبھا میں جو رکاوٹیں ہیں وہ خود بخود ختم ہوجائیں گی اور انکے منصوبے کے مطابق تیار کردہ تمام بلوں کو منظوری دے دی جائے گی…. اور پھر ہمار ی لمحوںکی خطا سے آنے والی نسلیں صدیوںتک سزا بھگتیں گی… پچھلے ڈھائی سال سے مرکزی حکومت کی مسلمانوںکے تئیں پالیسی کو دیکھتے ہوئے ملک بھرکے مسلمانوں کے لئے یوپی اسمبلی انتخابات ’’کرو یا مرو‘‘ کی اہمیت رکھتاہے…ماضی کے مقابلے اس بار یہ پہلو یہ زیادہ اہمیت اختیار کر چکاہے کہ مسلم ووٹوںکی’’ تقسیم‘‘ کیسے روکا جائے؟ …یوپی کے مسلمانوں کا نظر انتخاب انہیں امیدواروں پرہونی چاہئے جن کے دلوں میں مسلمانوں کے لئے نرم گوشہ ہو… میرے کہنے کا مطلب یہ قطعی نہیں ہے کہ آپ کسی پارٹی کی مخالفت یا حق میں خم ٹھوک کر میدان میں کود پڑیں بلکہ ہر مسلمان اپنے ہم خیال برادران وطن کے ساتھ مل کر اس بات کی حتی المقدور کوشش کریں کہ مسلمانوں کا ووٹ کسی صورت تقسیم نہ ہو…کیوں کہ سیکولر پسند عوام کا کہنا ہے کہ اس بار مسئلہ یہ نہیں ہے کہ’’بلی کے گلے میں گھنٹی کو ن باندھے گا‘‘ سوال یہ پیدا ہو چکا ہے کہ اقتدار کی ہڈی کس کے منہ سے کون چھینے گا؟