اقبال کی ایک نظم’’سوامی رام تیرتھ‘‘

سید یعقوب شمیم

ہندوستانی قومی پس منظر سے اقبال کی واقفیت اور اس سے اُن کی گہری وابستگی کا احساس ہمیں اُن کی ایک اور نظم ’’سوامی رام تیرتھ‘‘ کے مطالعہ سے ہوتا ہے ۔ سوامی رام تیرتھ ہندوؤں کے ایک ایسے مذہبی رہنما تھے جن کے افکار میں قدیم ہندو ویدانت عقیدہ کی کارفرمائی ملتی ہے جس کی ابتداء شنکر اچاریہ کی تعلیمات سے ہوئی تھی ۔ اپنے اس عقیدہ کو عملی شکل دینے کیلئے انہوں نے دریائے گنگا میں سمادھی لگائی تھی اور اسی عالم میں غرق دریا ہوجانے سے اُن کی موت بھی واقع ہوئی ۔  اقبال نے اس اہل دل کی وفات پر جو اشعار کہے ہیں، ان میں دراصل اسی نظریہ ویدانت کو پیش کیا گیا ہے جس کی ترویج و اشاعت سوامی رام تیرتھ کا نصب العین تھا۔
ہم بغل دریا سے ہے ائے قطرۂ بے تاب تو
پہلے گوہر تھا بنا اب گوہر نایاب تو
نفی ہستی اک کرشمہ ہے دل آگاہ کا
لا کے دریا میں نہاں موتی ہے الاللہ کا
ان اشعار کے حقیقی پس منظر کو سمجھنے کیلئے شنکر اچاریہ کی تعلیمات پر سرسری نظر ڈالنا ضروری معلوم ہوتا ہے ۔ ڈاکٹر تارا چند لکھتے ہیں : ’’ ان کے عقیدے کے بموجب بے لوچ، کامل اور تصوری نظریہ توحید ہندو دینیات کا نمایاں پہلو ہے ۔ خدا ایک ہے اور اس کے ماسوا کوئی نہیں ہے ، خدا ہی ایک حقیقت ہے اور باقی سب دھوکہ اس کی فطرت بالکل یک رنگ ہے ، وہ خالص ہستی اور خالص ذہن ہے ، وہ صفات اور درجات سے مستغنی ہے، وہ فکر کرنے والی یا جاننے والی ہستی نہیں ہے بلکہ خود ہی فکر یا علم ہے ۔ دنیا محض ایک مظہر ہے، ایک ظاہری شکل ہے نہ کہ اصل حقیقت یہ فریب نظر (مایا) کے اصول سے پیدا ہوئی ہے ’’مایا‘‘ نے اپنے میں کچھ تبدیلی پیدا کی تو ہستیاں پیدا ہوئیں جو ناموں اور شکلوں سے پہچانی جاتی ہیں اور ہستیوں ہی نے مل کر ساری کائنات بنائی لیکن درحقیقت ہستیوں کی کثرت بھی ایسا ہی فریب ہے کہ انسانی ذات خدا سے بالکل مماثل ہے ، اس کی شخصیت مایا ہے اور اس کی حقیقت برہمن اور یہ اس کا جہل اور لا علمی ہے کہ وہ اس مماثلت کو محسوس نہیں کرتا اور مظاہر کی دنیا میں جو محض ایک تخلیقی پریشانی و درماندگی کی زندگی بسر کرتا ہے ۔ جب تک جہل اور لاعلمی قائم ہے مظاہر کا بوجھ انسان کو دباتا رہے گا۔ علم مظاہر حقیقت معلوم ہوتا ہے اور جب تک جہل اور لاعلمی کا دور رہتا ہے اسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ اس عالم مظاہر کا ایک خدا ایشور ہے جو نیک صفات سے متصف ہے ، وہ خالق ہے جو دنیا کو بالترتیب پیدا کرتا اور آفرینش اور فنا کی گردش کوقائم رکھتاہے۔ انسانی روح اس سے جزا اور سزا کی امید کرتی ہے اور اس کی رحمت اور عفو کی دعا مانگتی ہے ۔ وہ ایشور کی مغفرت کے ذریعہ اپنی بھلائی حاصل کرتی ہے ۔ اس طرح دنیائیں دو ہیں ، ایک حقیقی اور ایک غیر حقیقی ۔ علم بھی دو قسم کے ہیں ایک جہالت دور کرنے اور کامل برہمن حاصل کرنے کے لئے اعلیٰ علم اور ایک ایشور کا لطف و کرم حاصل کرنے کیلئے ادنیٰ علم لیکن یہ ادنیٰ علم اور اس کا مقصد یعنی ایشور دونوں مظاہر ہیں اور حقیقی آزادی اس سے بلند ہوکر حقیقت تک پہنچنے میں ہے ۔ چونکہ روح کے علاوہ ادراک کے معمولی وسائل دماغ اور ذہن بھی مایا کی پیداوار ہیں، اس لئے جب تک دماغ کے عمل کو پوری طرح قابو میں کر کے روک نہ دیا جائے ، اس وقت تک اعلیٰ علم نہیں حاصل ہوسکتا۔ جس وقت دماغ ساکن ہوتا ہے اور تاثرات  کا راستہ بند ہوجاتا ہے اور گہرے وجد (سمادھی) کی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے، اس وقت روح اپنے آپ کو حقیقت میں جذب پاتی ہے اور اسے قریب مظاہر سے نجات حاصل ہوتی ہے‘‘۔
اس طرح کہا جاسکتا ہے کہ ان اشعار میں اقبال نے وحدت الوجود کا جو مضمون باندھا ہے ، اس کا مآخذ وہ اسلامی وحدت الوجود کا تصور نہیں جس میں کائنات کو مظہر خدا وندی کہا گیا ہے بلکہ یہ شنکر اچاریہ کا فلسفہ ویدانت ہے ۔ اس سلسلے میں یہاں ایک اور وضاحت بھی بے محل نہ ہوگی کہ اقبال کو اپنے فکری ارتقاء کے دوران اس بات کا بھی بخوبی علم ہوچکا تھا کہ ویدک فلسفہ کی اساس دراصل شری کرشن جی اور شری رامانج کی تعلیمات پر قائم ہے نہ کہ شری شنکر اچاریہ کے فلسفہ ویدانت پر چنانچہ 1915 ء میں چھپی اپنی تصنیف ’’اسرار خودی‘‘ کے دیباچہ میں لکھا تھا کہ ’’بنی نوع انسان کی ذہنی تاریخ میں سری کرشن کا نام ہمیشہ ادب و احترام سے لیا جائے گا کہ اس عظیم الشان انسان نے ایک نہایت دلفریب پیرائے میں اپنے ملک و قوم کی فلسفیانہ روایات کی تنقید کی اور اس حقیقت کو آشکار کیا کہ ترک عمل سے مراد ترک کل نہیں ہے کیونکہ عمل اقتصائے فطرت ہے اوراس سے زندگی کا استحکام ہے بلکہ ترک عمل سے مراد یہ ہے کہ عمل اور اس کے نتائج سے متعلق دل بستگی نہ ہو۔ شری کرشن کے بعد شری رامانج بھی اسی راستے پر چلے مگر افسوس ہے کہ جس عروس معنی کو شری کرشن اور شری رامانج بے نقاب کرنا چاہتے تھے ، شری شنکر کے منطقی طلسم نے اسے پھر محجوب کردیا اور شری کرشن کی قوم ان کی تجدید کے ثمر سے محروم رہ گئی‘‘۔ اس کے علاوہ اقبال نے بعض قدیم ہندوستانی شخصیتوں کو بھی اپنی شاعری کا موضوع بنایا ہے جو اپنی سیرت اور کردار کے اعتبار سے اعلیٰ انسانی اقدار کے حامل تھے ۔ اقبال کی نظموں میں ہمیں رام ، نانک ، بھرتری ہری اور گوتم بدھ کا ذکر بحیثیت مثالی Ideal یا عظیم انسانوں کے ملتا ہے۔