ڈاکٹر محمد ناظم علی
علامہ اقبال نے ایک منظم و مبسوط حیات فلسفہ اپنی شاعری کے ذریعہ پیش کیا ۔ اقبال اردو کے پہلے شاعر ہیں جنھوں نے فلسفیانہ فکر کو اعلی ترین شعریت سے ہم آہنگ کردیا ۔ اقبال جس شاعرانہ اور والہانہ انداز سے عظمت انسانی کے گن گاتے ہیں وہ انھیں عالم انسانیت کا شاعر بنادیتا ہے ۔ اقبال کی شاعری اور فلسفہ کا محور خودی ، عشق اور عمل ہے ۔ ان موضوعات کو انھوں نے جس شاعرانہ کمال کے ساتھ بیان کیا ہے اور شعری کردار کے ساتھ پیش کیا ہے وہ انھیں اردو شاعری میں عظمت و احترام کے اس مقام پر پہنچادیتا ہے ، جہاں اردو کے بہت کم شاعروں کی رسائی ہوتی ہے ۔ اقبال کے تعلق سے جہاں تک میرے مطالعہ نے تلاش کیا یہ کہا جاسکتا ہے کہ ان کے علم کی گہرائی ، فکر و خیال ، انداز بیان ، اسلوب ، حکمت و تربیت کا انداز انوکھا ہے ۔ دوسرے ان کی ان خصوصیات تک نہیں پہنچ سکتے ۔ علامہ اقبال نے ایسے نظریات کی تلاش کی جو رنگ و نسل اور علاقائی امتیاز سے اوپر اٹھ کر اخوت ، بھائی چارگی اور مساوات کی تعلیم دے ۔ انھوں نے مغربی مفکرین و فلسفیوں کا نٹ رابرٹ ، براوننگ ، گوئٹے ، نیتشے ، ٹالسٹائی ، کارل مارکس ، ہیگل ، برگساں وغیرہ کا گہرا مطالعہ کیا ۔ وہ ان سے متاثر تو ہوئے لیکن نظریات کو جوں کا توں قبول نہیںکیا ۔
انھوں نے مغرب کی وطنیت ، قومیت اور فریب کارانہ معاشرتی و سیاسی اصطلاحات کا راز فاش کیا اور اپنی نظم و نثر کے ذریعہ محبت ، یقین و عمل کا پیغام دیا ۔ فلسفہ خودی کی تعلیم دے کر مشرق کے حالات و واقعات کو مدنظر رکھ کر قوم اور ملت کو اپنی شاعری اور نثر نگاری کے ذریعہ باخبر اور ہوشیار کیا اور انھیں حالات کا مقابلہ کرنے اور امت کی بے راہ روی کو ختم کرنے کے راستے بتائے ۔
انھوں نے اپنے کلام میں ہندو مسلم اتحاد پر بھی زور دیا ۔ ترانۂ ہندی ، نیا شوالہ ، ہمالہ ، ترانۂ ملی اور سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا لکھ کر وطن سے اپنی اٹوٹ محبت ظاہر کی ۔ انھوں نے اپنی شاعری کے ذریعہ حب الوطنی اور ہندوستان سے محبت کا بھی درس دیا اور اپنی تمام تر شاعری میں سادہ ، سلیس اور پرمعنی الفاظ میں اپنے دل کی بات کہی ہے ۔ انھوں نے کبھی قوم کو یکجا ہو کر اپنے مادر وطن کی خدمت کرنے کا درس دیا تو کبھی ان کی خودی کو ابھارا ۔ انکی ہر نظم بلکہ ہر شعر کو دیکھئے جسمیں ہمیں بنی نوع انسان سے محبت اور انسانیت سے انسیت کا سبق ملے گا ۔ قوم کو جہد مسلسل اور عمل پیہم کی ترغیب و تعلیم دیتے ہیں اور انسان کو ناامیدی اور مایوسی سے کنارہ کشی اختیار کرنے کی تلقین کرتے ہیں ۔
نہیں ہے ناامید اقبال اپنی کشت ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی
یقیں محکم عمل پیہم محبت فاتح عالم
جہاد زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں
اقبال قوموں کی ترقی اور خوشحالی کو سخت محنت اور جہد مسلسل میں تلاش کرتے ہیں اور انسان سے مخاطب ہیں ۔ اس کے علاوہ ان کی شاعری میں حیات کی تربیت کا درس اور خودی کا پیام ملتا ہے ۔ انھوں نے کائنات کو اسیر کرنے کے جو طریقے بتائے ہیں وہ بہت گہرے مطالعے کا نتیجہ ہیں اور اقتضائے وقت کے لحاظ سے نہایت موزوں اور مناسب ہیں ۔ اقبال ترک دنیا ترک خودی کے قائل نہ تھے وہ ان خیالات کی شدت سے مخالفت کرتے ہیں ۔ انہیں یقین تھا کہ جب یہ عقائد کسی قوم میں جگہ پالیتے ہیں تو وہ قوم بہت جلد فنا ہوجاتی ہے جن قوموں میں احساس خودی ہوتا ہے وہ دنیا پر حکمرانی کرتے ہیں ۔
خودی کی خلوتوں میں مصطفائی
خودی کی جلوتوں میں کبریائی
زمین و آسمان و کرسی و عرش
خودی کی زد میں ہے ساری خدائی
خدا کو جب اپنی ذات کا جلوہ مقصود تھا تو اس نے کائنات بنائی اور انسان کو نائب بنا کر بھیجا تاکہ وہ دنیا میں نیابت ، سیادت و قیادت کرسکتے ۔ اس طرح اور بہت سے اشعار ہیں جس میں خودی کے ذریعہ انسان کی تربیت کا سامان پیدا کیا گیا ہے ۔
خودی کیا ہے راز درون حیات
خودی کیا ہے بیداری کائنات
اندھیرے اجالے میں ہے تابناک
من و تو میں پیدا من و تو سے پاک
خودی کا نشیمن تیرے دل میں ہے
فلک جس طرح آنکھ کی تل میں ہے
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے ۔
مرا طریق امیری نہیں فقیری ہے
خودی نہ بیچ غریبی میں نام پیدا کر
خودی احساسِ نفس اور یقین ذات کا نام ہے ۔ انسان اپنے مذہب پر مکمل عمل پیرا ہوتے ہوئے پوری کائنات کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لے لیتا ہے ۔ لیکن 21 ویں صدی میں بھی انسان خود کو پہچاننے سے قاصر ہے کیوں پیدا کیا گیا اسکا منصب کیا ہے ، کردار کیسا ہونا چاہئے ، اپنے جیسے ہم جنس کا ہمدرد بنے اوروں کے کام آئے ۔ جو خود کو پہچانتا ہے وہ خدا کو پہچانتا ہے ۔ بہرحال اقبال نے شاہین پرندہ کو استعارہ کے طور پر استعمال کرتے ہوئے بتایا کہ انسانوں کو چاہئے کہ شاہین جیسی صفت اپنے میں پیدا کرے ۔ حلال اور محنت کی کمائی سے حلال رزق حاصل کرے ۔ حلال غذا سے صحت بھی ٹھیک رہتی ہے اور طبیعت میں ذہانت اور ذکاوت پیدا ہوتی ہے ۔