اقبال اور ریاست حیدرآباد

ڈاکٹر بی رگھوتم راؤ دیسائی ۔ بنگلور
علامہ اقبال کے لئے 1908 کے بعد کا زمانہ بے حد کشمکش کا تھا ۔ معلمی اور وکالت دو پیشوں کی ذمہ داریاں نبھانے اور سخت محنت کرنے کے باوجود آمدنی ان کی ضروریات کو ناکافی تھی ۔ اب تک بڑے بھائی شیخ عطا محمد نے (جو اقبال سے اٹھارہ سال بڑے تھے) ان کی مدد کی تھی ۔ اب انہیں خود مدد کی ضرورت تھی ۔ اقبال ان کی ذمہ داریوں میں شریک ہونا چاہتے تھے ، اس لئے وہ بہتر وسیلۂ معاش کی فکر میں تھے ۔

نظام حیدرآباد کی فیاضی اور بلند حوصلگی کے قصے انہوں نے سن رکھے تھے۔ اس لئے حیدرآباد جانے کا ارادہ کیا ، گورنمنٹ کالج لاہور سے دس روز کی رخصت لی اور مارچ 1910 ء میں حیدرآباد پہنچ گئے ۔ اس وقت میر محبوب علی خان (آصف جاہ سادس) حیدرآباد کے فرماں روا تھے ۔ یہ داغ دہلوی کے شاگرد اور اس رشتے سے اقبال کے ’’استاد بھائی‘‘ تھے ۔ اقبال 1894 ء کے آس پاس داغؔ کے حلقہ تلامذہ میں شامل ہوچکے تھے ۔ داغؔ نے حیدرآباد میں اصلاح سخن کا دفتر قائم کررکھا تھا ، جس کا باقاعدہ عملہ تھا اور ڈاک سے موصول ہونے والی غزلیں اصلاح دے کر واپس بھیجی جاتی تھیں ۔ اقبال نے دوری کے باوجود داغؔ سے فیض اٹھایا اور 1892 ء میں انہوں نے اس رشتے کا فخر کے ساتھ ذکر کیا تھا ۔ ’’مجھے بھی فخر ہے شاگردی داغ سخنداں کا‘‘ ۔ ممکن ہے اقبال آصف جاہ سادس سے کسی غیر معمولی سلوک و نوازش کی توقع رکھتے ہوں ۔ لیکن ان کے دربار تک رسائی نہ ہوسکی ۔ نواب نے عجب مزاج پایا تھا ۔ جس پر مہربان ہوتے اسے ساری زندگی کے لئے فکر معاش سے بے نیاز کردیتے ، خفا ہوجاتے تو ذرا دیر میں ملک بدر کرادیتے ! ان تک رسائی آسان بات نہ تھی ۔ بڑے بڑے صاحب کمال برسوں ملاقات کی امیدواری کرکے حیدرآباد سے ناکام لوٹ گئے ۔

حیدرآباد میں کئی مقتدر ہستیوں سے اقبال کی ملاقات رہی ۔ یہاں وہ سراکبر حیدری کے مہمان تھے ۔ ان کی مہمان نوازی کا ذکر ہمیشہ بڑی احسان مندی کے ساتھ کرتے تھے ۔حیدرآباد میں نظم طباطبائی ، جلیل مانک پوری اور ظہیر دہلوی سے ملاقات ہوئی اور ان کی زبان سے شعر سننے کا موقع ملا ۔ مہاراجا سرکشن پرشاد شادؔ ریاست کے وزیراعظم تھے ، جن کا راجا ٹوڈرمل کی نسل سے تعلق تھا ۔ بہت بڑی جاگیر کے مالک تھے مگر درویشانہ مزاج پایا تھا ۔ صوفی تھے اور مسلک یہ تھاکہ ’’میں ہوں ہندو ، میں ہوں مسلمان‘‘ ۔ مسجد میں نماز پڑھتے اور مندر میں قشقہ لگاتے تھے ۔ چار بیویاں مسلمان اور تین ہندو تھیں ،مسلمان بیویوں کی اولاد مسلمان اور ہندو بیویوں کی اولاد ہندو تھی ۔ اقبال کے ساتھ مہاراجہ بڑی شفقت سے پیش آئے اور انہیں ہمیشہ کے لئے اپنا گرویدہ کرلیا ۔
حیدرآباد میں اقبال کے مستقل قیام کی کوئی صورت پیدا نہ ہوسکی ۔ معمولی ملازمت انہیں قبول نہ تھی ۔ درس و تدریس کے مشغلے سے وہ اُکتا گئے تھے ۔ ان کی خواہش تھی کہ والی ریاست ان کے تفصیلی منصوبوں سے واقف ہوں اور ان کی سرپرستی کریں مگر یہ سب نہ ہوسکا اور اقبال واپس لاہور چلے گئے ۔
اسی سال مہاراجہ سرکرشن پرشاد لاہور پہنچے ۔ اقبال نے ان کا خیرمقدم کیا اور جب تک ان کا قیام رہا بیشتر وقت ان کے ساتھ گزارا ۔ حیدرآباد واپس پہنچ کر انہوں نے اقبال کو معقول وظیفے کی پیشکش کی مگر اقبال نے قبول نہ کیا … عذر یہ کہ ’’مروت اور دیانت سے دور ہے کہ اقبال آپ سے ایک بیش قرار تنخواہ پائے اور اس کے عوض میں کوئی ایسی خدمت نہ کرے جس کی اہمیت بقدر اس مشاہرے کے ہو‘‘ ۔
چار سال بعد یعنی 1917 میں ایک ایسی صورت نکلی کہ اقبال ریاست حیدرآباد سے وابستہ ہوسکیں ۔ وہاں ہائی کورٹ کے جج کی جگہ خالی ہوئی ، اخبارات میں قیاس آرائیاں ہوئیں کہ یہ منصب شاید اقبال کو سونپا جائے ۔ یہ بھی پتہ چلا کہ جو نام نظام کے زیر غور ہیں ان میں ایک نام اقبال کا بھی ہے ۔ اقبال اس کے خواہشمند بھی تھے ۔ اس سلسلے میں اقبال نے مہاراجہ کشن پرشاد کو خط بھی لکھا مگر بات آگے نہ بڑھی ۔ اب زمام اختیار سراکبر حیدری کے ہاتھ میں تھی ۔ انہوں نے اقبال کو قانون کی پروفیسر شپ پیش کی ۔ حیدرآباد میں یونیورسٹی کا قیام زیر غور تھا ، اس لئے اکبر حیدری اقبال کی حیدرآباد میں موجودگی کو مفید خیال کرتے تھے مگر اقبال نے معذرت کردی اور وکالت کی محدود آمدنی میں ہی گزر بسر کرتے رہے ۔

غالباً 1928 ء میں بحیثیت کونسل ممبر اقبال کو جنوبی ہند کا دورہ کرنے کا موقع ملا ۔ یہ سفر مذہبی اور علمی نوعیت کا تھا مگر اس کے سیاسی پہلو کو بھی نظر انداز نہیں کیاجاسکتا کیونکہ اب عوام میں ان کی حیثیت مسلمانوں کے سیاسی رہنما کی تھی ۔ مدراس کی کئی انجمنوں نے اقبال کے اعزاز میں جلسے کئے اور سپاس نامے پیش کئے ۔ مدراس کے بعد بنگلور اور شہر میسور میں اقبال کا شاندار خیر مقدم کیا گیا ۔ ریاست میسور کے بعد اقبال حیدرآباد پہنچے ۔ حیدرآباد کے اسٹیشن پر ان کا زبردست استقبال ہوا ۔ اسٹیشن پر اقبال کے مداحوں کا ایک ہجوم ان کے خیرمقدم کو موجود تھا ، اس موقع پر عثمانیہ یونیورسٹی کے اراکین اور سرکاری افسران بھی حاضر تھے ۔ مہاراجہ سرکشن پرشاد نے ان کی تشریف آوری کی تقریب میں ایک مشاعرے کا اہتمام کیا ۔ میسور کی طرح یہاں بھی وہ ریاست کے مہمان رہے ۔ حیدرآباد کے دوران قیام نواب میر عثمان علی خان (آصف جاہ سادس) سے بھی ملاقات ہوئی ۔

ہندوستان اور یوروپ میں اقبال کی شہرت کو دیکھتے ہوئے حکومت برطانیہ نے جنوری 1923 میں انہیں ’’سر‘‘ کا خطاب عطا کیا ۔ اقبال کے قدردانوں نے اس پر مسرت کااظہار کیا ۔ اس قدر افزائی پر اقبال کو مبارکباد دینے کے لئے اہل لاہور نے جہانگیر کے مقبرے میں ایک جلسے کا اہتمام کیا ، جس میں پنجاب کے معزز اشخاص نے شرکت کی ۔ شرکاء میں انگریز افسران اور پنجاب کے انگریز گورنر بھی شامل تھے ۔ اقبال کو جب ’’سر‘‘ کا خطاب دیا جانے لگا تو انہوں نے شرط رکھی کہ پہلے ان کے استاد شاہ صاحب (یعنی سید میر حسن) کو ’’شمس العلماء‘‘ کا خطاب دیا جائے ۔ اس پر گورنر نے ان کی تصانیف کے نام دریافت کئے ۔ اقبال نے جواب دیا کہ ’’ان کی زندہ تصنیف میں خود ہوں‘‘ ۔ آخر کار حکومت کو یہ شرط منظور کرنی پڑی !

ملک کی یونیورسٹیوں نے بھی اقبال کی علمی ، ادبی ، تدریسی اور تعلیمی خدمات کا اعتراف کیا ۔ چنانچہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نے 1929 میں ، پنجاب یونیورسٹی نے 1933 میں ، آلہ آباد یونیورسٹی اور عثمانیہ یونیورسٹی نے 1937 میں انہیں ڈی لٹ کی اعزازی ڈگریاں تفویض کیں ۔

سرراس مسعود اقبال سے تعلق خاطر رکھتے تھے اور ان کی مالی پریشانیوں سے پوری طرح آگاہ تھے ۔ ان کی کوشش سے نواب بھوپال نے اقبال کے لئے 1935ء میں پانچ سو روپئے ماہانہ کا تاحیات وظیفہ مقرر کردیا تاکہ یک سو ہو کر قرآن کریم پر ایک کتاب لکھ سکیں ۔ سرراس مسعود چاہتے تھے کہ نواب حیدرآباد ، نواب بھاولپور اور سرآغا خان بھی اقبال کے لئے وظیفہ مقرر کریں ۔ اقبال کو پتہ چلا تو انہوں نے سرراس مسعود کو لکھا کہ ’’نواب بھوپال کی طرف سے وظیفے کی جو رقم مقرر ہوئی ہے وہ میرے لئے کافی ہے ۔ میں امیرانہ زندگی کا عادی نہیں ۔ ضرورت سے زیادہ کی ہوس کرنا روپے کی لالچ ہے جو مسلمان کے شایان شان نہیں‘‘ ۔

گول میز کانفرنس ، اٹلی ، اسپین اور افغانستان کے دوروں کے بعد آخری چار سال اقبال نے بیماری کی حالت میں گزارے ۔ اقبال کے والد شیخ نور محمد نے 81 برس کی طویل عمر پائی ۔ انہوں نے اقبال کی وفات سے صرف آٹھ سال پہلے (17 اگست 1930) انتقال کیا ۔ شیخ عطا محمد جو عمر میں اقبال سے 18 برس بڑے تھے اقبال کے دو سال بعد تک حیات رہے ۔ اقبال نے صرف اُنسٹھ سال کی عمر پائی … اس مختصر زندگی کے آخری چار سال شدید علالت میں گزرے اور 21 اپریل 1938 کا سورج طلوع ہوا تو اردو شاعری کا ایک آفتاب غروب ہوچکا تھا اور قوم ایک مخلص مدبر و رہنما سے محروم ہوچکی تھی ۔ بیماری کے دوران یعنی جنوری 1938 میں ریاست حیدرآباد کی طرف سے اقبال کو ایک ہزار روپئے کا چیک موصول ہوا ۔ سر اکبری حیدری کے دفتر کی طرف سے ایک خط بھی منسلک تھا جس میں یہ اشارہ تھا کہ یہ امداد سر اکبر حیدری کی کوشش سے منظور ہوئی ہے ۔ اس سے اقبال کے جذبہ خودداری کوٹھیس لگی ۔ انہوں نے چیک لوٹاتے ہوئے لکھا
غیرتِ فقر مگر کر نہ کرسکی اسکو قبول
جب کہا اس نے یہ ہے میری خدائی کی زکات