اقبال اور بھرتری ہری

سید یعقوب شمیم
اقبال کی شاعری میں قدیم ہندوستانی تہذیب کی بازیافت اور ان کی فکری وار تہذیبی اقدار کی نشاندہی جو شاعر کے لئے ایک متاع عزیز کی حیثیت رکھتی تھیں ، پر غور کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ وہ قدیم ہندوستان کے ایک عظیم المرتبت اور منفرد شاعر بھرتری ہری سے بیحد متاثر تھے ۔ بھرتری ہری سے ان کی یہ فکری عقیدت کا بین ثبوت ان کے مجموعہ کلام بال جبرئل میں موجود بھرتری ہری کے ایک شعر کے اس منظوم ترجمہ سے ہوتا ہے ۔
پھول کی پتی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر
مرد ناداں پر کلامِ نرم و نازک بے اثر
قدیم ہندوستان میں بھرتری ہری کے افکار کو جو غیر معمولی مقبولیت حاصل رہی ہے ، اس بات کا اندازہ اس طرح سے لگایا جاسکتا ہے کہ آج بھی ہندوستان کے مختلف علاقوں بالخصوص شمالی ہند کے علاقہ اجین میں بھرتری ہری کے خیالات لوک گیتوں اور لوک نظموں کی صورت میں موجود ہیں ۔ قدیم ہندوستان کی دیگر ممتاز شخصیتوں کی طرح بھرتری ہری کا زمانہ بھی ایک اندازہ کے مطابق پانچویں صدی عیسوی ہے ۔ John Dowson کے مطابق بھرتری ہری قدیم ہندوستان کا منفرد اور معروف شاعر اور قواعد نویس تھا ۔ کہا جاتا ہے کہ وہ راجہ وکرم مادتیا کا بھائی تھا ۔ اس نے تین سو نظمیں لکھی ہیں ۔ اس کی پہلی سو نظموں کے مجموعۂ کلام کا نام ’’سرنگارستکا‘‘ ہے جو عشق کے موضوع پر ہے ۔ دوسری سو نظموں کے مجموعہ کلام کا نام ’’نتی ستکا‘‘ ہے ۔ موضوع کے اعتبار سے یہ نظمیں سیاست اور مذہب سے متعلق ہیں ۔ آخری سو نظموں کے مجموعہ کا نام ’’ویراگیا ستکا‘‘ ہے جس میں مذہبی اخلاقیات سے بحث کی گئی ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ بھرتری ہری نے یہ نظمیں اور اقول اس وقت لکھے تھے جب اس نے انتہائی عیش کوشی کی زندگی کو ترک کرکے مذہبی طرز زندگی اختیار کی ۔ بعض محققین نے اسے قواعد کی ایک معیاری کتاب ’’واکیہ پدیا‘‘ اور نظم بٹی کاویہ کا مصنف تسلیم کیا ہے ۔ 1670 ء میں اس کی اخلاقی نظموں کا ترجمہ فرانسیسی زبان میں کیا تھا اس کے علاوہ Schiefmer اور Weber نے اس کی نظمیں لاطینی میں ترجمہ کے ساتھ شائع کیں ۔ بھرتری ہری کی نظموں کا ترجمہ جرمنی زبان میں Bohler اور Schtz نے کیا ہے ۔ Prof. Tawney کی تصنیف Indian Artiquiary میں ان نظموں کا انگریزی میں ترجمہ پیش کیا گیا ۔
عالمی فکر کی تاریخ میں بھرتری ہری کو جو مقام حاصل ہے اس کا اندازہ ان اشعار سے لگایا جاسکتا ہے جو اقبال نے ’’جاوید نامہ‘‘ میں اس بلند مرتبہ شاعر کے تعلق سے کہے ہیں ۔ ذیل میں درج اشعار ان کی اس نظم سے لئے گئے ہیں جو ان کے مجموعہ کلام جاوید نامہ کے لئے کہے گئے جس میں وہ پیر رومی مولانا جلال الدین رومی کے ساتھ مختلف افلاک کی سیر کرتے ہوئے جب آں سوئے افلاک پہنچتے ہیں تو ان کی ملاقات بھرتری ہری سے ہوتی ہے اور جنہیں دیکھ کر مولانا روم اقبال سے فرماتے ہیں ۔
آں نوا پرداز ہندی را نگر
شبنم از فیضِ نگاہ اُو گہر
نکتہ آرا کہ نامش برتری است
فکر او چوں صحابِ آذری است
اور ہندی نغمہ سرا کو دیکھو جس کے فیض نگاہ سے قطرہ شبنم گوہر میں تبدیل ہوجاتا ہے اور اس نکتہ شناس کا نام بھرتری ہری ہے جس کی فطرت ماہ آذر میں برسنے والے بادل جیسی ہے ۔
از چمن جز غنچہ نورس نہ چید
نغمہ تو سوئے ما را کشید
بادشاہ بے ما نوائے ارجمند
ہم بہ فقر اندر مقام اُو بلند
چمن سے اس نے (بھرتری ہری) نئی اور پربہار کلیوں کے سوا اور کچھ نہیں چنا اور تیرے (اقبال) کے نغموں نے اسے ہماری جانب توجہ کیا ہے وہ (بھرتری ہری) بادشاہ بھی ہے اور عظیم شاعر بھی اور بہ اعتبار فقر اس کا مرتبہ بلند ہے ۔
نقش خوئے بند از فکر شگرف
یک جہاں نہاں اندر دو حرف
کارگاہِ زندگی را محرم است
اُو جم است و شعرِ اُو جامِ جم است
اس نے اپنے نادر افکار سے بڑے خوبصورت  و رنگین نقش پیدا کئے ہیں اور اس کے حرفوں میں معانی کی ایک دنیا پوشیدہ ہے ۔ وہ کارگاہ زندگی کا رازداں ہے ۔ یعنی وہ گویا جمشید اور ان کے اشعار جام جمشید کی حیثیت رکھتے ہیں ۔
اس کے علاوہ اقبال نے اس نظم میں بھرتری ہری اور ان اشعار کا منظوم ترجمہ بھی پیش کیاہے جنہیں بھگوت گیتا کی تعلیمات کا خلاصہ کہا جاسکتا ہے ۔
ایں خدایان تنک مایہ زسنگ اندو زخشت
برترے ہست کہ دور است ز دیر و کنشت
یہ خدایانِ کم مایہ پتھر اور اینٹ کے بنے ہیں لیکن بھرتری ہری دیر و کنشت سے دور ہے ۔
سجدہ بے ذوق عمل خشک و بجائے نہ رسید
زندگانی ہمہ کردار چہ زیبا وچہ زشت
سجدہ جو ذوق و عمل سے عاری ہو وہ خشک اور بے جان ہوتا ہے اس طرح کے سجدہ سے مدعا بھی حاصل نہیں ہوتا زندگی یکسر کردار ہے خواہ وہ اچھا ہو یا برا
فاش گویم بتو حرفے کہ ند اند ہمہ کس
ائے خوشا بندہ کہ لوح دل او بنوشت
ایں جہاں کہ تو بینی اثر یزداں نیست
چرخہ است تست و ہم آن رشتہ کہ بردوک تواست
میں تمہیں ایک بات برملا بتلادوں کہ جس پر کسی کی نظر نہیں ہے اور خوش قسمت ہے وہ انسان جو اس نکتہ کو اپنے لوح دل پر لکھ لے جو دنیا تو دیکھ رہا ہے یہ خدا کا کارنامہ نہیں ہے بلکہ واقعہ یہ ہے کہ چرخہ بھی تیرا ہے اور دھاگہ بھی تیرا ہے جسے تو نے اپنی تکلی سے کانتا ہے ۔
پیش آئیں مکافات عمل سجدہ گزار
زآنکہ خیز و زعمل دوزخ و اعراف و بہشت
مکافات عمل (اعمال کا بدلہ) کے اصول کے آگے سرتسلیم خم کرکیونکہ وہ دوزخ اعراف و جنت کے سارے مقامات عمل کے نتیجہ میں حاصل ہوتے ہیں ۔ جناب عابد صدیقی نے اپنی کتاب ’’ادب اور صحافت‘‘ میں لکھا ہے اس شعر میں بھرتری ہری نے جس تصور کو پیش کیا تھا وہ اقبال کی فکر سے بے حد مطابقت رکھتا ہے ۔ اقبال نے بھی عمل کو جنت و دوزخ ، بلندی و پستی اور عظمت و ذلت کا معیار بنایا ہے جو فکر اسلامی اساس بھی ہے وہ کہتے ہیں۔
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے