اقامتی اسکولس میں تخفیف

120 تک ہی محدود ، چیف منسٹر تلنگانہ کے فیصلہ پر محکمہ اقلیتی بہبود حیرت زدہ
حیدرآباد ۔ 30۔  نومبر  (سیاست نیوز) اقلیتی طلبہ کیلئے تلنگانہ میں قائم کئے جانے والے اقامتی اسکولس کی تعداد کو گھٹاکر 120 تک محدود کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ چیف منسٹر کی جانب سے کیا گیا یہ فیصلہ اقلیتی بہبود کے عہدیداروں کیلئے حیرت کا باعث ثابت ہوا کیونکہ عہدیدار 230 اسکولوں کے قیام کی تیاریوں میں مصروف تھے اور نئے اسکولوں کیلئے کرایہ کی عمارتوں کی تلاش کا کام جاری تھا ۔ چیف منسٹر نے حال ہی میں پارٹی کے اقلیتی قائدین کے ساتھ اجلاس میں اعلان کیا تھا کہ تلنگانہ میں اقلیتوں کے اقامتی اسکولس کی تعداد 500 تک کردی جائے گی لیکن اچانک ہی اس تعداد کو 120 تک محدود رکھنے کا فیصلہ کرتے ہوئے اقلیتی بہبود کے عہدیداروں کو ہدایت دی گئی ہے کہ وہ نئے منصوبہ کے مطابق تیاریوں کا آغاز کریں۔ واضح رہے کہ ریاست میں 71 اقامتی اسکولس جاریہ تعلیمی سال قائم کردیئے گئے اور حکومت نے کابینہ کے اجلاس میں مزید 89 اسکولوں کے قیام کو منظوری دی تھی جس سے اقلیتوں کے اقامتی اسکولس کی تعداد بڑھ کر 160 ہوگئی۔ اقلیتی اقامتی اسکولس سوسائٹی نے 89 اسکولوں کے قیام کے سلسلہ میں ریاستی وزراء اور عوامی نمائندوں سے رائے حاصل کی ۔ تاکہ ان کے پسند کے مقام پر اسکولس کا قیام عمل میں لایا جائے ۔ چیف منسٹر کی ہدایت پر وزراء سے رائے حاصل کی گئی ۔ وزراء کی جانب سے ابھی اس سلسلہ میں مقامات کی نشاندہی کا کام جاری تھا کہ چیف منسٹر کے دفتر نے محکمہ اقلیتی بہبود کو اطلاع دی ہے کہ مجموعی تعداد 120 تک محدود کردی جائے اور اسی کے مطابق بجٹ تیار کیا جائے۔ اس طرح ریاست میں مزید 49 اقامتی اسکولس کے قیام کی تیاریاں کی جائیں گی۔ اسکولس سوسائٹی نے تمام اضلاع کے میناریٹی ویلفیر آفیسرس کو ہدایت دی ہے کہ وہ کرایہ کی عمارتوں کا انتخاب کریں ۔ اس کے علاوہ موجودہ 71 اسکولوں کیلئے ذاتی عمارت کی تعمیر کے سلسلہ میں اراضی کا تعین کریں۔ بتایا جاتا ہے کہ موجودہ اسکولوں کیلئے ابھی تک تقریباً 60 مقامات پر اراضی کی نشاندہی مکمل ہوچکی ہے۔ تاہم بجٹ کی کمی کے باعث اراضی کی حدبندی ممکن نہیں ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ ریاست کی معاشی صورتحال کمزور ہونے کے باعث چیف منسٹر نے اقامتی اسکولس کی تعداد کو 120 تک محدود کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ جہاں تک بجٹ کی اجرائی کا سوال ہے حکومت نے جاریہ مالیاتی سال اقامتی اسکولس کیلئے 350 کروڑ روپئے کا بجٹ مختص کیا تھا، جس میں سے 175 کروڑ روپئے جاری کئے گئے۔ سوسائٹی نے 87.50 کروڑ روپئے خرچ کئے جبکہ مزید 87.5 کروڑ روپئے محکمہ فینانس کے پاس زیر التواء ہیں۔ ان حالات میں اقامتی اسکولس سوسائٹی کو بجٹ کی کمی کا سامنا ہے اور وہ مزید 49 اسکولوں کے آغاز کے سلسلہ میں حکومت سے رجوع ہوسکتی ہیں۔ نئے اسکولوں کیلئے کرایہ کی عمارتوں کا انتخابات اور پھر کرایہ کا تعین کرنا بجٹ کی اجرائی سے قبل ممکن نہیں ہوگا۔ بتایا جاتا ہے کہ موجودہ 71 اسکولوں کے کرایہ کی ادائیگی اور تنخواہوں کی اجرائی کے سلسلہ میں سوسائٹی بجٹ کی کمی کا سامنا کر رہی ہے۔ سوسائٹی نے حکومت کی ہدایت پر 120 اسکولوں کی عمارتوں کی تعمیر کے سلسلہ میں بجٹ کی تیاری شروع کردی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ اس سلسلہ میں 1750 کروڑ روپئے کے اخراجات کا تخمینہ کیا گیا ہے۔ اسی دوران ڈسٹرکٹ میناریٹی ویلفیر آفیسرس کا اجلاس طلب کیا گیا ہے ۔ تاکہ انہیں نئے منصوبہ کے مطابق رہنمائی کی جاسکے ۔ 31 اضلاع کے اقلیتی بہبود عہدیداروں کا اجلاس دو دن تک جاری رہے گا اور پہلے دن 15 اور دوسرے دن 16 اضلاع کے عہدیدار اجلاس میں شریک ہوں گے ۔ چیف منسٹر کی جانب سے اقلیتی اقامتی اسکولس کی تعداد کو 120 تک محدود کرنے کے فیصلہ پر ایک طرف عہدیدار حیرت میں ہیں تو دوسری طرف حکومت کا یہ استدلال ہے کہ سرکاری خزانہ کے نقصانات اور آئندہ سال بجٹ کی تیاری کو دیکھتے ہوئے یہ فیصلہ ناگزیر تھا۔