افطار کھاکر، حکومت کی وعدہ خلافیاں معاف !

تلنگانہ ؍ اے پی ڈائری خیر اللہ بیگ
حکومت کی دعوت افطار کی خصوصیت یہ ہے کہ ٹی آر ایس پارٹی کے سربراہ نے سال 2019 کے عام انتخابات کے لئے مسلم ووٹ بینک کو مضبوط بنانے کی سرگرمیوں کا آغاز کردیا ہے۔ چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ نے رمضان کے دوران ریاست کی تمام مساجد میں بھی افطار کابندوبست کیا ، تحفظات کی بجائے مسلمانوں کوعارضی نوالہ دے کر خوش کرتے ہوئے سیاسی ایجنڈہ کو روبہ عمل لایا ہے۔ نام و نمود کی خواہش حدِ اعتدال میں رہے تو اچھی رہتی ہے مگر چیف منسٹر نے صرف نام و نمود کا سہارا لیا ہے، کیونکہ ریاست میں ان چار برسوں میں جتنے کام ہوئے ہیں ان کے پسِ پردہ یہ خواہش بھی کافی حد تک کام کرتی رہی ہے کہ دوبارہ اقتدار کو یقینی بنایا جائے، لیکن اس خواہش کے لئے یہ کہا جائے کہ بعض اوقات ایسی خواہشوں میں انفیکشن ہوجاتی ہے۔ ٹی آر ایس کی خواہش کو اگر انفیکشن ہوجائے تو یوں سمجھ لیجئے کہ سیاسی رکاوٹوں کا سلسلہ شروع ہوجائے گا۔ جیساکہ نام و نمود کی یہ انفیکشن ہی ہے کہ چیف منسٹر نے مسلمانوں کو تحفظات کے معاملہ میں دھوکہ میں رکھا۔ اس حقیقت کے باوجود دعوت افطار میں شرکت کرنے والوں نے دکھادیا کہ وہ تحفظات نہ ملنے پر ناراض نہیں ہیں بلکہ انہیں تو چیف منسٹر کی دعوت کا مزہ لینا ہے۔ یہاں سب کی بات نہیں کی جائے گی مگر چند خاص لوگوں کو اس دعوت کا بائیکاٹ کرنا تھا۔ جبکہ صدر امریکہ ڈونالڈ ٹرمپ کی دعوت افطار کا امریکہ کے چند اہم مسلمانوں نے یہ کہہ کر بائیکاٹ کیا کہ ٹرمپ نے اپنے پہلے سال میں عالم اسلام کے خلاف زہر اُگلا تھا، اب دوسرے سال وائیٹ ہاوز میں دعوت افطار دے کر امریکی مسلمانوں خاصکر عالم اسلام کی ناراضگیاں دور کرنے میں مطلب سے کام لیا ہے۔
ہمارے شہر کے مسلمانوں اور سیاستدانوں نے حکومت کی وعدہ خلافیوں کو معاف کرکے دعوت افطار کھائی ہے۔ یہ ہوتی ہے ایک چالاک لیڈر کی پہچان ووٹ بینک مضبوط بنانے کیلئے ریاست کی تمام مساجد میں سرکاری افطار پارٹی کرانے کی زبردست تشہیر کی گئی اس پر آنے والے مصارف کا بھی ڈھنڈورا پیٹا گیا۔ یہ ہُنر اب ہر جگہ استعمال کیا جارہا ہے۔ تلنگانہ کے مسلمانوں کی غلط فہمی یہ رہی ہے کہ انہوں نے حکمراں پارٹیوں کے وعدوں پر بھروسہ کیا ہے جبکہ یہی مسلمان ایک دوسرے پر اعتبار نہیں کرتے۔ یہ درست ہے کہ ہر کوئی چالباز نہیں ہوتا کسی کو بھی دور اندیش نہیں سمجھا جاسکتا مگر اتنا تو خیال ہونا چاہیئے کہ حکومت انہیں کھلی آنکھ کے سامنے دھوکہ دے رہی ہے پھر بھی اس کی سجائے گئے پلیٹ فارم پر بیٹھنے کو اپنی شان متصور کرتے رہے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ انسانوں کو جانچنے اور پہچاننے کے بہت سے پیمانے ہوتے ہیں ، زاویئے ہوتے ہیں۔کبھی ہم اپنی آنکھوں پر اعتبار کرتے ہیں اور کبھی اپنے احساسات پر کبھی اپنوں کی رائے پر کبھی پرائے لوگوں کے تاثرات پر چیف منسٹر کے بارے میں کیا اپنے کیا پرائے والی بات ہے۔ سب کہتے تھے کہ آج وہ اقتدار پر رہ کر مسلمانوں کو ترقی دیں گے لیکن انہوں نے مسلمانوں کو ان کے ہی جذبات کے ذریعہ بے وقوف بنایا ہے۔ اب ان کے حصہ میں قرعہ فال نکلنے والا ہے اس لئے انہوں نے مسلمانوں کو پھر سے قریب کرکے دعوت افطار کے پلیٹ فارم سے خوش کرنے والی باتیں کہی ہیں۔ اب دیکھنا دعوت کھانے والا مسلمان کیا کرتا ہے۔حکومت کی اس دعوت افطار کے خلاف سماجی حقوق کے کارکنوں نے ہائیکورٹ سے رجوع ہونے کا فیصلہ کیا کیونکہ گزشتہ سال ہی چیف منسٹر کی جانب سے دی گئی افطار پارٹی کے بارے میں ہائی کورٹ نے حکومت سے تفصیلات طلب کی تھیں۔ اس سال کی افطار پارٹی کے لئے انہوں نے 66 کروڑ روپئے خرچ کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔ پیٹ بھرے سیاستدانوں کی اس فضول خرچی کے پیچھے سیاسی مفاد پرستی ہی ہوتی ہے۔ غریب مسلمانوں کی بہبودی اسکیمات کے نام پر چند مسلمانوں کو دعوت دے کر سرکاری خزانے پر بھاری بوجھ ظاہر کرنے والی یہ حکومت مسلمانوں کا ہرگز فائدہ نہیں کررہی ہے۔ ہائی کورٹ نے 16جون2017 کو حکم دیا تھا کہ حکومت اس طرح کی فضول خرچی کا حساب پیش کرے، مگر ریاستی حکومت نے عدالت کے احکام کی خلاف ورزی کرتے ہوئے دوبارہ دعوت افطار پارٹیوں کا مظاہرہ کیا ہے۔ چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ کی نیت اور عملی اقدامات میں فرق پایا جاتا ہے۔ 2014 سے وہ اپنے پاس اقلیتی بہبود کی وزارت رکھتے ہیں اس کے باوجود اقلیتوں کی ترقی اور خوشحالی کیلئے صرف دکھاوے کے کام ہوتے ہیں۔

حکومت نے گزشتہ سال ہائی کورٹ سے کہا تھا کہ وہ ریاست کی 800 مساجد میں افطار پارٹیاں منعقد کرکے غریب مسلمانوں کا پیٹ بھر رہی ہے، ایسا کہہ کر وہ اپنی پوشیدہ پالیسی اور حکومت اپنے سیاسی افطار کے ذریعہ ووٹ بینک کو مضبوط بنارہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ آیا حکومت کا فرض صرف غریب مسلمانوں کو سال میں ایک بار افطار پارٹی دے کر پورا ہوجاتا ہے۔ حکومت نے اپنے چار سال کے دوران مسلمانوں کے لئے کئی اسکیمات کا اعلان کیا تھاان میں سے کسی ایک پالیسی اور اسکیم کو پورا کرکے دکھانے یا مسلمانوںکے نمائندوں کو حکومت کی اسکیم کا مشاہدہ کرنے کی توفیق نہیںہورہی ہے۔ چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ نے ریاست میں مسلمانوں کیلئے خاص صنعتی ایسٹیٹ اور انفارمیشن ٹکنالوجی کاریڈور بنانے کا فیصلہ کیا تھا۔ اس کے علاوہ کوکا پیٹ پر حیدرآباد انٹرنیشنل اسلامک کلچر کنونشن سنٹر تعمیر کرنے کا فیصلہ ہوا تھا۔ ریاست کے ڈبل بیڈ روم مکانات کی تعمیر اسکیم میں مسلمانوں کو 10فیصد کوٹہ دینے کا اعلان ہوا تھا لیکن ان مکانات کی تعمیر اور مسلمانوں کو حوالے کرنے کا کوئی بھی مظاہرہ اب تک نہیں ہوا۔حکومت کی حمایت کرنے والی مسلم جماعت نے چیف منسٹر کے فیصلوں کی زبردست ستائش کی تھی اب اس جماعت نے حکومت کے اعلانات کی عدم تکمیل کا نوٹ نہیں لیا ہے۔ گزشتہ سال انہوں نے کہا تھا کہ مسلمانوں کاآئی ٹی کاریڈور ہوگا۔ یہ حکومت تحفظات فراہم کرنے میں ناکام ہوکرسب مسلمانوں کو کھلونے دے کر بھلا چکی ہے۔ ٹی آر ایس کے لیڈرس بھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ ان کے پارٹی سربراہ کی نیت کیا ہے ۔ ٹی آر ایس کے ایک لیڈر نے حال ہی میں کہا تھا کہ ان کی حکومت نے مسلمانوں کوکوٹہ دینے کا وعدہ کیا تھا۔ مسلمانوں کے لئے علحدہ آئی ٹی کاریڈور بنانے کی بات نہیں کی گئی۔ ہم نے یہ ہرگز نہیں کہا کہ ہم مسلمانوں کے لئے ایک علحدہ آئی ٹی کاریڈور بناکر دیں گے بلکہ ہر اسمال اسکیل آئی ٹی کاریڈور میں ایک علحدہ یونٹ مسلمانوں کیلئے مختص کریں گے، جس میں مسلمانوں کے لئے صرف معمولی کوٹہ دیا جائے گا۔ جب ٹی آر ایس پارٹی کی قیادت اور لیڈروں کے بیانات میں مسلمانوں کے تعلق سے اسکیمات کے بارے میں تضاد پایا جاتا ہے تو اس حکوت کی خرابیوں کے خلاف آواز اٹھانے میں مسلم نمائندوں کو دیر نہیں کرنی چاہیئے۔ کے سی آر کا کام صرف یہ ہے کہ ریاست کے مسلمانوں کو گمراہ کرو اور مسلم قیادت کو خوش رکھو۔ اس طرح وہ دونوں جانب سے تائید حاصل کرنے میں کامیاب ہوں گے اور کے سی آر اپنے عین منصوبوں کے مطابق کامیاب بھی ہورہے ہیں۔ ان کا سیاسی نفس اب اتنا قوی ہوا ہے کہ وہ مسلمانوں کے تعلق سے اپنے وعدوں کو یاد رکھنے کو بھی توہین سمجھ رہے ہیں۔

سیاسی دعوت افطار کا آغاز پنڈت جواہر لال نہرو سے ہوا تھا جنہوں نے کانگریس ہیڈکوارٹرس پر یہ دعوت دی تھی، ان کے بعد اس ان کی دختر اندرا گاندھی نے 1980 میں روایت کا آغاز کیا۔ کسی ریاستی چیف منسٹر کی جانب سے پہلی دعوت افطار1973 تا 1975 کے دوران چیف منسٹر اترپردیش ہیماوتی نند بہوگنا نے روزہ داروں کے لئے افطار کا اہتمام کیا تھا لیکن وقت گذرنے کے ساتھ مسلم علماء نے اس سیاسی تماشہ سے دور رہنے کو ترجیح دینا شروع کیا کیونکہ یہ افطار پارٹیاں دولت کے مظاہرہ کا ناپسندیدہ عمل بنتی گئیں۔ کئی مسلم تنظیموں ، ائمہ کرام، آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے ارکان نے سیاسی دعوت افطار کا بائیکاٹ کیا اور کہا کہ رمضان عبادتوں، تقویٰ اور پرہیز گاری کا مہینہ ہے اس کو سماجی و سیاسی رنگ نہیں دیا جانا چاہیئے۔ راشٹر پتی بھون میں اس سال افطار کا اہتمام نہیں کیا گیا۔ ڈاکٹر عبدالکلام کے دور صدارت میں بھی راشٹرپتی بھون میں دعوت افطار نہیں ہوئی۔ تاہم اس سال 2018 میں سیاسی دعوت افطار کی نوعیت ہی بدل دی گئی ہے ۔ حال ہی میں دارالعلوم دیوبند نے باقاعدہ فتویٰ جاری کرکے مسلمانوں کو دعوت افطار میں شرکت سے گریز کا مشورہ دیا تھا۔
kbaig92@gmail.com