افسانہ تکمیل آرزو حوصلے کے ساتھ

خیرالنساء علیم
’’شکر میرے مولا کا اس نے زندگی کی خوشی و خواہش کو میری جھولی میںڈالی دیا ۔ زندگی اب صحیح معنوں میںسہل ، آسان، شاندار اور خوبصورت ہوگئی ہے ۔ میں نے دو ہزار روپئے سے نوکری شروع کی تھی ۔اب میری تنخواہ بائیس ہزار روپئے ہے۔ مجھے کمپنی کی طرف سے نئے ماڈل کی گاڑی ڈرائیور کے ساتھ ملی ہوئی ہے۔ میڈیکل اور دوسری سہولیات اس کے علاوہ ہیں۔ میرا آفس بہت شاندار ہے۔ زندگی کی ان ترجیحات کیلئے میں بہت محنت اور صبر آزما دور سے گزری ہوں ۔ اس پورے عرصہ میں میرے بچوں نے میرا بڑا ساتھ دیا۔
میرے گھر میں اب ضرورت کی ایک ایک چیز ہے لیکن میں کبھی غرور نہیں کرتی۔ مجھے بڑا اچھا لگتا ہے جب گاڑی مجھے اور بچوں کو پک اور ڈراپ کرتی ہے لیکن ہم لوگ آج بھی بسوں اور آٹو رکشاؤں میں سفر کرنے سے نہیں شرماتے۔ ہمیں اپنے چھوٹے چھوٹے کام اپنے ہاتھ سے کرنے میں کوئی شرمندگی نہیں ہوتی کیونکہ مجھے پتہ ہے میںکن مشکلات سے گزر کر اس جگہ تک پہنچی ہوں اور میں اپنے بچوں کو بھی یہ بات بہت اچھی طرح سمجھاتی رہتی ہوں ‘‘۔
زوباریہ آج اپنے آپ میں ہی مگن ماضی میں جھانک رہی تھی ۔ اسے کچھ ایسا لگ رہا تھا جیسے یہ کل ہی کی بات ہو ۔ گزرا ہوا  ایک ایک پل اس کے سامنے سینما کے ریل کی طرح چل رہا تھا ۔
میں اپنی زندگی کے وہ تکلیف دہ اور بدترین دن نہیں بھول سکتی ۔ اس وقت کیسے ایک ایک پیسہ بچانے کیلئے شدید محنت اور تگ ودو کرنی پڑتی تھی۔ روز مرہ کی ضروریات کس مشکل سے پورے ہوتے تھے ۔ اللہ کا شکر ہے ، اب ایسا نہیں ہے ۔ میں بہت خوش ہوں، بس زندگی میں ارسلان کی کمی ہے ۔ اگر وہ ساتھ ہوتے تو زندگی کس قدر مکمل ہوتی…

ارحم کا میٹرک کا رزلٹ آیا تو اس نے پورے اسٹیٹ میں پہلی پوزیشن لی تھی اور اوور آل اس کی دوسری پوزیشن تھی ۔ اخباری رپورٹرز ہمارے گھر پر اس کا انٹرویو کرنے آئے تھے۔ یہ لمحہ دیکھنے کی مجھے بڑی آرزو تھی ۔ بچوں کو قابل بنانے میں ، میں نے کوئی کسر نہ چھوڑی تھی لیکن اس دن مجھے اپنی کمپنی میں باہر سے آئے ہوئے کچھ مہمانوں کی ملاقات کیلئے اپنے دفتر پر رہنا بے حد ضروری تھا ۔ اس لئے اگلے دن اس کا انٹرویو پڑھا ۔ مجھے بہت اچھا لگا ۔ اس لمحے میں نے ارسلان کو بہت یاد کیا ۔
اسی خوشی میں میں نے اپنے آفس کے ورکرس اور اپنے تمام کولیگس کو اپنے گھر پر ایک شاندار ڈنر کیلئے بلالیا ۔ سب بہت خوشی سے شریک ہوئے ۔ یہ میرے لئے بہت بڑا اعزاز تھا ۔ ’’ارم بیٹا تم نے مجھے خوش کردیا ۔ میری برسوں کی خواہش پوری کردی تم نے‘‘۔
دیر رات جب میں سونے کیلئے بستر پر لیٹی تو مجھے وہ زمانہ یاد آنے لگا جب ہم تین بیٹیوں کے ماں باپ بن گئے تھے ۔ اب ہمارے سامنے بڑے بیٹے ارحم کے اسکول میں داخلے کا مسئلہ تھا ۔ارسلان چاہتے تھے کہ اس کو کسی اچھے گورنمنٹ اسکول میں داخل کرائیں۔ ’’کیا ؟ ، گورنمنٹ اسکول میں ؟ ‘‘ میں حیرت سے ارسلان کا چہرہ دیکھنے لگی۔
’’تو پھر … کسی پرائیویٹ اسکول میں داخل کرانے سے تور ہا میں‘‘…
’’لیکن ارسلان ! وہاں تو پڑھائی بھی ڈھنگ سے نہیں ہوتی ۔ انگلش چھوڑو ، اردو تک کا اللہ حافظ ہے۔ بچوں کے بیٹھنے کی جگہ تک درست نہیں ہوتی ۔ چھوٹے معصوم بچے کھجور کی چٹائیوں پر بیٹھتے ہیں۔ ٹیچرز صرف حاضریاں لگانے وہاں جاتی ہیں‘‘… میں غصہ سے نہ جانے کیا کچھ کہہ رہی تھی ۔ ارسلان مجھے سمجھانے کی کوشش کرنے لگے۔
’’ایسا نہیں ہے زوباریہ ! تم نہیں جانتیں۔ ایسا کچھ نہیں ہوتا وہاں ‘‘۔ ارسلان نے ٹھنڈے لہجے میں اسے سمجھانا چاہا۔ لیکن زوباریہ نے ایک مشہور اسکول کا نام لیتے ہوئے مسرور لہجے میں بتایا کہ ’’میں کل ہی اسکول کے پرنسپل سے ملی تھی ۔ وہ کہہ رہی تھیں کہ ایک ہزار کے اندر سب کچھ ہوجائے گا‘‘…
’’زوباریہ ! تمہیں معلوم ہے میں جس کمپنی میں ملازم ہوں وہاں مجھے معمولی سی تنخواہ ملتی ہے ۔ ایک ہزار روپئے ارحم کی فیس میں چلے جائیں تو دوسرے بچوں کیلئے بھی سوچو۔ پھر گھر کے خرچ کے لئے کیا بچے گا۔ بے شک مجھے کمپنی سے سہولیات ملی ہوئی ہیں۔ مگر وہ بھی آخر کب تک پوری ہوں گی ۔ارحم کے بعد احمر اور عفان بھی ہیں‘‘۔
سارے حسابات انگلیوں پر گنائے جارہے تھے۔
’’میں جانتی ہوں ارسلان ! فی الحال ارحم کو کسی پرائیویٹ اسکول میں داخل کروادیں۔ احمر اور عفان کے بارے میں پھر سوچیں گے‘‘۔ وہ تحمل سے کہنے لگی ۔
پھر آخر کار میں نے ارسلان کو قائل کر ہی لیا ۔ مجھے یقین تھاکہ وہ مان ہی جائیں گے ۔ میں نے کبھی ان سے بحث کی ہی نہیں تھی ۔ ان کے ہر اچھے برے فیصلے پر میں نے ہمیشہ سر جھکایا تھا ۔ کبھی بھی ان خیالات سے اختلاف نہیں کیا تھا۔
آج ارسلان کا اسکول میں پہلا دن ہے ۔ اس نے ٹسٹ میں پچانوے 95% مارکس لئے تھے ۔ زوباریہ نے ارحم کو بڑی زوردار تیاری کروائی تھی ۔ پرنسپل نے ارحم کی ذہانت اور قابلیت کو دیکھتے ہوئے ایڈمیشن فیس معاف کردی تھی ۔ یوں بہت سہولت کے ساتھ اس کا داخلہ بڑے اچھے اسکول میں ہوگیا۔
میں ارحم کی اسکول میں پروگریس سے بے حد خوش ہوں۔ وہ بہت ذہین اور سمجھدار ہے۔ پرنسپل اس کی بہت تعریف کرتی ہیں۔ اسے اسکول چھوڑنا اور لانا مجھے بالکل برا نہیں لگتا۔آج کل کے بچے ڈش کی پیداوار ہیں۔ ڈش نہ بھی ہو تو وی سی آر تو ہر گھر میں موجود ہے ۔ ظاہر ہے بچے اسی قسم کی باتیں کریں گے اور میں ارحم سے اس کے دوست بنٹی کی باتیں سن کر پریشان ہوگئی۔
ایک دن ارحم مجھ سے کہنے لگا ۔ ’’امی ! بنٹی کہتا ہے فلاں ہیرو فائیٹ بڑی اچھی کرتا ہے ۔ فلاں ہیرو ڈانس بہت اچھا کرتا ہے‘‘…

اب جو میں نے ارحم سے اس قسم کی باتیں سنیں تومجھے تشویش لاحق ہوئی تب میں نے بچوں کو اسلامی تاریخ سنانی شروع کردی ۔ بڑے بڑے بہادروں اور جری نوجوانوں کے واقعات سنائے ۔ یہ کام میں رات کو بچوں کو سلانے سے پہلے کیا کرتی ۔ میں بھی فرصت کے وقت تھوڑا بہت مطالعہ ضرور کرتی تھی ۔ میں نے بچوں کو شروع ہی سے قرآن ، نماز ، روزے وغیرہ کی تربیت دی تھی۔ پھر ایک دن وہ اور کسی دوست کے بارے میں بتانے لگا۔ ’’امی وہ اتنی بڑی گاڑی میں آتا ہے‘‘۔ اس کے ہاتھ چھوٹے تھے اور گاڑی کی لمبائی بہت زیادہ …
میں نہیں چاہتی تھی کہ ارحم اپنی حیثیت کے متعلق احساس کمتری کا شکار ہو۔ سو میں نے اسے سمجھایا … ’’بیٹا ! دوستی برابر کے  لوگوں میں کرتے ہیں… بڑی گاڑیوں میں آنے سے کوئی بڑا نہیں بن جاتا۔ اعلیٰ خوبیاں اپنانے سے اور بہت زیادہ پڑھنے لکھنے سے انسان بڑا آدمی بنتا ہے۔ خاندان میں ملک و قوم میں اس کی بہت عزت ہوتی ہے‘‘۔ اور اس کی سمجھ میں آگیا ۔ اس کے بعد اس نے کسی کا ذکر نہیں کیا تھا ۔ دوسرے بچوں سے متاثر ہوناچھوڑ دیا تھا۔
اب احمر کیلئے اسکول میں داخلہ کا مسئلہ تھا اور وہ شروع ہی سے بچت کرنے کے معاملے میں سنجیدہ تھی ۔ اب تو وہ ہرچیز میں بچت کیلئے کوشاں ہوگئی تھی ۔ بجلی کا خرچ بچانے کیلئے وہ شام سے پہلے ہی بچوں کو ہوم ورک وغیرہ کروا دیتی ۔ تاکہ رات کولائیٹ جلا کر انہیں نہ پڑھانا بڑے ۔ اس طرح کے اقدامات کرنے سے بجلی کے بل میں نمایاں کمی ہونے لگی ۔ اس قسم کی کئی بچتیں تھیں جو ایک ایک روپیہ بچانے کیلئے کرتی تھی۔ جب تینوں بچے اسکول جانے لگے تو ایک دن میں ارسلان کے سامنے اپنے جاب کرنے کیلئے پوچھ بیٹھی … ’’ ارسلان میں کہیں جاب کرلوں ؟ ‘‘
’’نہیں ! زوباریہ … تینوں بچوں کی ذمہ داری ، گھر کی ذمہ داری ، یہ دو ایسی ذمہ داریاں ہیں جس کے بعد تمہیں اور کوئی کام کرنے کیلئے وقت ہی کہاں ملتا ہوگا۔ اس سے زیادہ تم پر کام کا بوجھ پڑے میں نہیں چاہتا۔ میں خود کوئی پارٹ ٹائم جاب کی کوشش کر رہا ہوں۔ تم فکر مت کرو ‘‘… ارسلان سنجیدگی سے سمجھاتے ہوئے زوباریہ کو محبت سے دیکھنے لگے۔
کچھ ہی دنوں میں ارسلان کو کمپنی کی طرف سے پرموشن دے کر دوسرے شہر میں بھیج دیا گیا ۔ یہ ان کیلئے بہت خوشی کا موقع تھا۔ مگر ارسلان بے حد فکرمند تھا۔ ’’کیسے رہوگی زوباریہ ! چھوٹے بچوں کے ساتھ ۔ مجھے تو بہت فکر ہورہی ہے اور شاید میں بھی اکیلا نہ رہ سکوں گا ‘‘۔ ارسلان کا لہجہ ٹوٹ رہا تھا۔
’’نہیں ! ارسلان ! آپ بالکل فکر نہ کریں۔ کچھ نہیں ہوگا ۔ میں بہت ہمت سے رہوں گی۔ پھر اگر سہولت ہوگی توہم تمہارے ساتھ ہی دوسرے شہر میں رہ سکتے ہیں‘‘…اب تینوں بچے اسکول جانے لگ گئے تھے ۔ ارسلان ہر ہفتہ اپنے گھر آتا اتوار کا تمام دن وہ بیوی اور بچوں کے ساتھ رہتا ۔ کبھی کبھی سب کو گھمانے باہر بھی لے جاتا ۔ یوں زندگی بہتر طریقے سے گزر رہی تھی۔
آج 10 جنوری ہے ۔ ارحم کی پیدائش کا دن اور اتنا اہم دن میں کیسے بھول سکتی تھی ۔ جیسے ہی ارسلان نے فون پر مجھے بتایا کہ وہ شام کی فلائیٹ سے 8 بجے تک پہنچ جائے گا تو میں حیران رہ گئی۔

’’کیوں ارسلان ! آپ کی طبیعت تو ٹھیک ہے نا ۔ اس طرح اچانک آنے کا پروگرام کیسے بن گیا ؟‘‘
’’زوباریہ ! میں یقین نہیں کرسکتا کہ آج کا دن تم بھول سکتی ہو‘‘…
’’نہیں ارسلان ! میں نہیں بھولی ہوں ، مگر آپ کی غیر موجودگی میں ، میں نہیں چاہتی کہ سالگرہ کی تقریب مناؤں ۔ اس لئے میں نے بچوں کو سمجھا دیا ہے ۔ آئندہ ہفتہ ہی کیک کٹے گا اور آپ کے تینوں شہزادوں نے مان بھی لیا ہے ۔اس لئے آپ پلین سے آنے کی کوشش نہ کریں۔ پیسے فضول خرچ نہ کریں۔ سمجھے آپ ! ‘‘
’’نہیں ! میں آرہا ہوں ! زیادہ کفایت شعار بننے کی ضرورت نہیں ‘‘اور کھٹ سے اس نے فون رکھ دیا۔
اب لامحالہ سالگرہ کی تیاری کرنی ہی پڑی۔ رات نو بجے تک کیک بھی بن گیا ۔ زبردست ڈنر بناکر وہ ارسلان کا انتظار کرنے لگی۔ پلین لیٹ ہونے کی وجہ سے وہ دو گھنٹے تاخیر سے پہنچا۔ ایرپورٹ سے باہر آتے ہی اس نے ٹیکسی ڈرائیور کو کہا کہ ’’جتنا جلدی چل سکتے ہو چلیں‘‘اور ٹیکسی ہوا سے باتیں کرنے لگی۔ اسپیڈ تیز ہونے کی وجہ سے ڈرائیور کنٹرول نہ کرسکا  اور سامنے سے آتے ٹرک سے ٹکرا گیا ۔ ٹیکسی ڈرائیور ارسلان دونوں ہی جاں بحق ہوگئے۔
رات بارہ بجے تک وہ نہ پہنچ سکا تو پریشانی لاحق ہوگئی ۔ عجیب قسم کے وسوسے آنے لگے ۔ کسی طرح بچوں کو سمجھا کر سلادیا ۔ ایرپورٹ فون کیا تو کوئی رسپانس ہی نہیں ملا۔ اسی پریشانی میں گھری تھی کہ فون کی بل پرفوراً ریسیور اٹھالیا۔
’’کیا یہ ارسلان صاحب کانمبر ہے ؟ ‘‘
’’جی ہاں ! یہ انہیں کا نمبر ہے ۔ آپ کون صاحب بات کر رہے ہیں؟‘‘
’’جی میں ٹریفک پولیس کنٹرولر ہوں ۔ سٹی ہاسپٹل سے بات کر رہا ہوں۔ روڈ ایکسیڈینٹ میں ارسلان صاحب کا انتقال ہوگیا ہے ۔ ان کی جیب سے یہ نمبر اور پتہ ملا ہے ۔ پلیز آپ ہاسپٹل آکر شناخت کرلیں‘‘۔
زورباریہ کے ہاتھ سے رسیور چھوٹ گیا اور وہ ہوش و حواس سے بے خبر ہوگئی ۔ بہت دیر تک فون سے کوئی آواز برآمد نہ ہوئی تو پولیس انسپکٹر پریشان ہوگیا اور پتہ سے اس کے گھر پہنچ گیا۔ رات ایک بجے کا وقت گھر میں کیا پورے محلے میں سناٹا تھا ۔ گھر کا بل بجانے پر کوئی گیٹ کھولنے والا نہ تھا ۔ اس نے گھبرا کر بازو کے گھر پر بل بجائی ۔ پڑوس کے خالد صاحب باہر آئے۔ تب انہوں نے بتایا کہ ’’تین چھوٹے بچوں کے ساتھ ان کی ماں اکیلی رہتی ہیں۔ شوہر کی کیفیت سن کر نہ جانے ان پر کیا اثر ہوا ہوگا‘‘…
پھر خالد صاحب نے زوباریہ کے بھائی کو فون کیا ۔ وہ لوگ گھر پہنچے گیٹ کا لاک توڑدیا گیا ۔ بڑی مشکل سے اسے ہوش میں لایا گیا ۔ اس کی تو دنیا ہی لٹ چکی تھی ۔ بالآخر اس نے ارسلان پر صبر کرلیا ۔ اسے بھی قسمت کا لکھا سمجھ کر قبول کرلیا ۔ ارحم بھی کسی بڑے بھائی کی طرح احمر اور عفان کا خیال رکھ رہا تھا ۔ اس نے اپنے بکھرے وجود کو سمیٹا اور عزم سے اٹھ بیٹھی۔

اب جو کچھ بھی کرنا تھا مجھے خود کرنا تھا ۔ آہستہ آہستہ مجھ میں بہت ہمت آگئی۔ میں بہت زیادہ بہادر ہوگئی تھی۔ اکثر تو مجھے خود حیرت ہوتی کہ یہ میں ہی ہوں ۔ میں نے سوچ لیا تھا کہ ارحم احمر اور عفان کو بہت قابل انسان بناناہے ۔ باپ کی کمی بچوں کو محسوس ہونے نہیں دینا ہے ۔ مجھے خود وسائل پیدا کرنے ہوں گے ۔ میں نے مکان کا آدھا پورشن کرایہ پر دے دیا ۔ کچھ ہی دن بعد ارسلان کے ایم ڈی میرے گھر آئے ۔ ان کی اچھی کارکردگی کی وجہ سے وہ پوسٹ مجھے دینا چاہتے تھے جس کیلئے مجھے کچھ امتحانات دینے تھے ۔ مجھ میں عزم و حوصلہ دیکھ کر ایم ڈی صاحب بہت متاثر ہوئے ۔ میں نے بھی امتحانات کی تیاری کرنے کی حامی بھرلی ۔ صرف ایک مہینے کی تیاری سے ہی بہت اچھے پوزیشن سے امتحانات کامیاب کئے اور پھر میرا تقرر اسی شہر کے دفتر میں ہوگیا ۔ یوں بہت جلد بہت بڑا مسئلہ حل ہوگیا تھا۔
ارحم ہر کام میں میری مدد کرتا تھا ۔ چاہے وہ گھر کا کام ہوتا  یا باہر کا کام ! کبھی کبھی میں اسے منع  کرتی تھی ۔ مگر وہ مانتا ہی نہ تھا ۔ گھر کے سودے کا چھوٹا موٹا سامان لانے کی ذمہ داری خود بخود اس نے اٹھالی تھی ۔ اگرچہ وہ ناسمجھ ہی تھا مگر بڑے بڑوں سے اچھا اور کم قیمت پر سامان لاتا تھا ۔ گھر کا، میرا اور اپنے چھوٹے بھائیوں کا بے حد  خیال رکھتا تھا۔
اس دوران میں نے پیسہ پیسہ جوڑکر کئی کورسس کئے اور میری ترقی ہوتی گئی ۔ یہ سب کچھ میں نے کن مشکلوں سے کیا میں ہی جانتی ہوں ۔ صبح میں بچوں کو اسکول پر چھوڑنا ، وہاں سے پھر اپنے دفتر جانا ۔ واپسی میں بچوں کو اسکول سے لینا ، گھر کے کام کرنا ۔ دوسرے دن دفتر جانے کی تیاری کرنا ، اکثر میں رات دیر گئے تک مصروف رہتی۔ ایسے میں ارحم سوتے سے اٹھ جاتا۔
’’امی ! اتنی محنت کیوں کر رہی ہیں ؟ ‘‘ وہ یہ سوال ضرور کرتا۔
میں مسکراکر اس سے وہی سوال کرتی … ’’تم سو کیوں نہیں رہے ؟‘‘
’’آپ جاگ رہی ہیں میں کیسے سو سکتا ہوں؟‘‘… وہ میرے پاس ہی آکر بیٹھ جاتا ۔ ’’امی ! جب میں آپ کو اتنی محنت کرتے دیکھتا ہوں تو پتا ہے کیا سوچتا ہوں ؟ میں بڑا ہوکر آپ کو کچھ نہ کرنے دوں ، آپ بس آرام کریں ‘‘…
اس کی بات سن کر میں بڑی محبت سے اس کی طرف دیکھتی ۔ اللہ کا شکر ہے اس میں بڑی احساس ذمہ داری پیدا ہورہی تھی ۔ اکثر میں سوچتی اور غور کرتی ! ارحم بہت حساس اور خوددار ہے ۔ وہ بہت ذہین ہونے کے علاوہ سخت محنتی بھی ہے جبکہ احمر تھوڑا لااوبالی ہے ۔ وہ اپنی ذہانت کا مظاہرہ بھی تب کرتا ہے جب اس کے سر پر پڑتی ہے لیکن پھر بھی بہت اچھے نمبروں سے ہر سال کلاس میں اول پوزیشن لیتا ہے ۔ عفان اب بالکل ضد نہیں کرتا اور اس کی عادتیں بھی بالکل اپنے بڑے بھائی احمر کی طرح ہی ہیں۔
یوں ہمارے گھر کے حالات پہلے سے بہت بہتر بلکہ بہت اچھے ہوگئے ہیں۔ اس دوران ارحم میٹرک میں آگیا تھا ۔ نویں جماعت میں اس کی پرسنٹیج پوری کلاس میں سب سے زیادہ تھی۔
اسکول ڈے کی میٹنگ پر اس کی پرنسپل نے مجھ سے ایک خواہش ظاہر کی۔ ’’زوباریہ ! کتنا اچھا ہو جو ارحم اس سال بورڈ میں کوئی پوزیشن لے ، ہمارے اسکول کا نام ہوجائے گا ، اس کی ویلیو بڑھ جائے گی‘‘۔
یہ بات میں نے ارحم کے کان میں ڈل دی تھی کہ تمہیں ہر حال میں پوزیشن لینی ہے ۔ وہ ذہین اور محنتی تو تھا ہی جب اسے میری خواہش کا علم ہوا تو وہ جی جان سے امتحان کی تیاری کرنے لگا ۔ یوں اس کا میٹرک کا ریزلٹ بہت اچھا آیا تھا ۔
پھر شہر کے بہترین کالج میں بڑی سہولت کے ساتھ اس کا ایڈمیشن ہوگیا تھا اور جس وقت ارحم انٹر کا امتحان دے رہا تھا ۔ احمر میٹرک میں اور عفان نویں جماعت میں تھا ۔ مجھے توقع ہے کہ ارحم کی طرح احمر کا رزلٹ بھی شاندار آئے گا۔

انٹر میں بھی ارحم نے صوبہ بھر میں دوسری پوزیشن لی تھی ۔ اخباری رپورٹرز نے ہمارے گھر پر دھاوا بول دیا تھا ۔ میں نے آفس جانے کا پروگرام کینسل کردیا اور انہماک سے ارحم کا انٹرویو سننے لگی ۔ وہ بڑے سکون اور اعتماد سے انٹرویو دے رہاتھا ۔ اس دوران اس فراٹے سے انگلش بول رہا تھا کہ مجھے خود حیرت ہورہی تھی ۔ اس کے ہر ہر جملے میں میرے لئے خراج تحسین تھا۔
’’آپ کی اس ساری گفتگو میں کہیں والد صاحب کا ذکر نہیں ہے ؟‘‘ ایک اخباری رپورٹر نے اسے امی ، امی کی گردان کرتے سن کر پوچھ ہی لیا۔
اس نے چند لمحے سکون سے اسے دیکھا۔ پھر بڑے دکھ سے بولا۔
’’میرے ابو کاساتھ میرے بچپن میں ہی چھوٹ گیا تھا ۔ ظاہر ہے ان کے بعد ہماری امی ہی نے سب کچھ کیا ‘‘…
اس کا جواب سن کر اخباری رپورٹر بھی مسکرا کر رہ گیا اور اس سوال پر کہ آپ کی امی تو ایک بہت اچھی و مشہور کمپنی میں کام کرتی ہیں۔ اثر و رسوخ بھی رکھتی ہوںگی ۔ کیا اس سے بھی آپ کی پوزیشن کا تعلق ہے ؟‘‘
ارحم نے جواب دیا۔ ’’میری امی کا اثر و رسوخ ہے تو ہوا کرے وہ مشہور شخصیت اس لئے بنی ہیں کہ ہمارے لئے غلط کام کریں۔ میری پوزیشن سے بھلا اس کا کیا تعلق ہے ۔ میں نے تو میٹرک میں بھی پوزیشن لی تھی۔ اس وقت تو میری امی بالکل بھی مشہور نہیں تھیں‘‘۔
اور جب اس سے سوال کیا گیا ’’آپ مستقبل میں کیا بننا چاہیں گے ؟‘‘ تو اس نے مسکراکر جواب دیا … ایک اچھا انسان اور اپنی ماں کا فرمانبردار بیٹا‘‘…
اور میں اس لمحے فخر محسوس کر رہی تھی ۔ میری محنت رائیگاں نہیں گئی تھی ۔ میری تربیت بے اثر نہیں رہی تھی۔ ورنہ یہ بھی تو ہوسکتا تھا ، میرے بچے بگڑجاتے ، ناکام رہتے لیکن اللہ کے فضل سے ، قسمت نے اس معاملے میں واقعی مجھے مایوس نہیں کیا تھا اور وہ بڑی طمانیت سے مسکرا رہی تھی۔