افسانہ ’’تو ہی تھا میرا ہمسفر‘‘

خیرالنساء بیگم
ایمن ، شہریار کے سب سے چھوٹے چچا کی اکلوتی بیٹی تھی اور اسے بے حد عزیز تھی ۔ وہ حسن و خوبصورتی کے ساتھ بے حد معصوم اور بھولی بھالی تھی ، اسی فطری سادگی اور معصومیت کی وجہ سے شہریار کے دل میں بس گئی تھی، ایمن کو کبھی اس نے اپنے سے جدا نہیں سمجھا تھا ۔ وہ کبھی نہ چاہتا تھا کہ اس کی یہ والہانہ محبت کسی اور پر آشکار ہو، اپنی اس خواہش کو دل میں رکھے وہ ترقی کی منزلیں طئے کرتا گیا یہ ایمن کی فطری جھجک ہی تھی جس کے باعث شہریار اینا مدعا اسے نہیں سناسکا تھا ’’ کہ ایمن تم ہی وہ ہستی ہو جو میرے دل میں براجمان ہوگئی ہو۔ اپنی تمام تر خوبیوں کے ساتھ وہ خیال کرتا تھا کہ اگر میں نے اپنے دل کی بات اسے بتادی تو کہیں اس کی فرشتوں جیسی پاکیزگی میں کسی قسم کی بدگمانی یا بدظنی کی شکن نہ آجائے ، اس کے دل کو نہ جانے یہ یقین کیوں تھا کہ وہ پھولوں جیسی لڑکی اسے پسند نہیں تو ناپسند بھی نہیں کرتی۔
شہریار ہر لڑکی کی آرزو تھا ۔ ہر لڑکی کا سنہرا خواب تھا کیونکہ وہ ایک خوبرو مردانہ وجاہت کا حامل اپنے والدین کی اکلوتی اولاد ہونے کے ساتھ ساتھ کروڑوں کی جائیداد کا تنہا مالک بھی تھا ۔ اسی وجہ سے وہ نہ صرف خاندان بلکہ خاندان کے باہر بھی سب کا منظور نظر تھا، ہر کسی کی خواہش تھی کہ وہ ان کا ہی داماد بنے۔ مگر اس نے اپنی ماں سے صاف صاف کہہ دیا تھا کہ وہ شادی صرف اپنی پسند سے ہی کرے گا ۔ یہ سن کر وہ ہنس پڑیں اور کہنے لگیں۔
’’خدا خیر کرے ، میرے لاڈلے کے تیور تو بہت ہی خطرناک نظر آرہے ہیں‘‘۔
شہریار نے کئی بار ایمن کے اندر جھانکنے کی کوشش کی ۔ یوں لگتا تھا جیسے اس کا وجود مجسم ریشم کے اجلے شفاف سفید پھول جیسے لچھوں سے گوندھا گیا ہو جس میں دور دور تک بناوٹ و دکھاوے کا ایک داغ تک نہیں تھا ۔
ایمن کے ممی پاپا کے ایک دوسرے کے خیالات میں ہم آ ہنگی نہ وہنے کی وجہ سے ایک دوسرے الگ ہونا چاہ رہے تھے بھائیوں اور ماں باپ کے لاکھ سمجھانے کے باوجود بھی بات سنبھل نہ سکی اور سائرہ بیگم چھوٹی سی دو سالہ ایمن کو دادی کی گود میں ڈال کر اپنے میکہ چلی گئیں۔ پھر کچھ دنوں بعد ہی ایمن کے والد علی رضا بھی امریکہ میں تلاش روزگار کے سلسلہ میں اپنے بھرے پورے خاندان اور معصوم ایمن کو چھوڑ کر چلے گئے۔

تب دادا دادی نے ہی معصوم ایمن کو اپنی شفقت و محبت سے سمیٹ لیا تھا ا ور گزرتے وقت کے ساتھ اس کے اندر کی سہمی ہوئی یہ ننھی سی بچی بھی پرورش پاتی رہی ۔ یوں اس کے فطری بھولے پن اور ہمہ وقت سہمی ہوئی شخصیت کی آمیزش سے ایک ایسی لڑکی نے جنم لیا جس کا دل پتے کے ہلنے پر بھی دھڑکنے لگتا تھا ۔
فیکٹری کے لئے کچھ مشینوں کے آرڈر کے لئے جاپان جانا ضروری تھا ۔ شہریار کے والد ملک یار خان نے اپنی مصروفیت کی وجہ سے شہریار کو بھیجنے کا فیصلہ کیا ۔ وہ چاہتا تھا کہ جاپان جانے سے پہلے ایک بار ایمن سے ملاقات کرے ۔ مگر امی سے معلوم ہوا کہ وہ دادا جان اور دادی جان کے ساتھ بنگلور گئی ہوئی ہے ، یوں وہ اس سے ملے بغیر ہی جاپان جانے کی تیاری کرنے لگا ۔ جانے سے پہلے امی کو اپنی پسند سے آگاہ کردیا کہ وہ ایمن کو اپنی شریک سفر بنانا چاہتا ہے، ملک یار خاں بھی اپنی اس بھتیجی کو بے حد چاہتے تھے ۔ وہ ایمن کو اپنی سب بھتیجیوں پر محض اس کے ادب و اخلاق اور رکھ رکھاؤ کے سبب فوقیت دیتے تھے ۔ یوں وہ سب کی پسندیدہ شخصیت تھی۔ امی ابو کی مرضی معلوم ہوتے ہی وہ خوشی سے جھوم اٹھا۔ اب اسے جاپان جانے میں کوئی فکر و پریشانی نہیں تھی ۔
شہریار کو گئے ہوئے تقریباً تین سال ہوچکے تھے ۔ اس دوران خط اور ٹیلی فون سے وہ سب سے رابطہ قائم کئے ہوئے تھا اس تمام عرصہ میں بہت سی تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ اس دوران جس شخصیت میں سب سے زیادہ تبدیلیاں آئیں وہ ایمن کی تھی اور اس تبدیلی کی خاص وجہ بڑے تایا کی بڑی بیٹی سفینہ آپا تھیں۔ جو عارضی طور پر دادی جان کے پاس رہنے کیلئے آئی ہوئی تھی ۔ خاندان بھر میں وہ اپنی تنک مزاجی اور خودسری کی وجہ سے وہ بے حد مشہور تھیں، ہر بات میں اپنی من مانی کرنے والے جھٹ خفا و منہ پھٹ اور کسی قدر گستاخ واقع ہوئی تھیں، ان کی خاص بات یہ تھی کہ وہ ایمن کو بہت پسند کرتی تھیں۔ چند دنوں میں ہی انہیں اندازہ ہوگیا تھا کہ ایمن اپنی سنجیدگی اور سہمی ہوئی فطرت کے باعث سب سے الگ تھلگ اور ریزرو رہا کرتی تھی ۔ انہیں اس کا یہ کچلا ہوا زخم خوردہ وجود ایک آنکھ نہ بھاتا تھا ۔ وہ چاہتی تھیں کہ ایمن بھی اور لڑکیوں کی طرح اپنا حق جانے ، سب کے ساتھ برابری کی سطح پر رہے ۔ کسی سے دب کر یا ڈر کر نہیں ۔

اس کیلئے سب سے پہلے سفینہ آپا نے ایمن کو اپنی دوست کے توسط سے ایک مقامی فرم میں ریسپشنسٹ کی جاب دلوائی ۔ مگر ایمن کا گھبراہٹ کے مارے برا حال تھا ۔ وہ کبھی کسی کے بھی ساتھ باہر جانا ہی پسند نہیں کرتی تھی ۔ وہ یہ جاب کیا کرسکتی تھی۔ مگر سفینہ آپا نے اسے قائل کرا ہی لیا ۔ دادا اور دادی کو بھی کوئی اعتراض نہیں تھا ، وہ بھی چاہتے تھے کہ ایمن دنیا میں سر اٹھاکر جی سکے، اپنے فیصلے خود لے سکے ، اس لئے انہوں نے بہ خوشی جاب کرنے کی اجازت دے دی ۔
ایمن فطرتاً صلح جو اور صابر لڑکی تھی ۔ کبھی کبھی وہ بری طرح نروس ہوجاتی اور سوچتی کہ اسے اپنے دل کی بات ماننی چاہئے یا سفینہ کی باتوں پر غور کرنا چاہئے ، پھر سفینہ آپا کی شخصیت اس پر پوری طرح حائل ہونے لگی پہلے کی بہ نسبت وہ پوری طرح بدل چکی تھی ۔
شہریار نے یہ تین سال وہاں کیسے گزارے یہ تو وہی جانتا تھا، صرف 6 مہینوں کا پروگرام تھا مگر اسے وہاں کسی بزنس مینجمنٹ کورس میں داخلہ مل گیا تو وہ کورس مکمل کرنے کیلئے رک گیا ۔ اس کا دل تو دادی جان کے گھر کے آنگن میں ہی اٹکا ہوا تھا جہاں اس کی تمناؤں اور خواہشوں کے گلاب کھلے تھے ۔ وہ جلد ازجلد وطن واپس آنا چاہ رہا تھا ۔ بہرحال تین سال گزار کر وہ اب اپنے وطن آگیا تھا ۔ جہاں اس کا سب کچھ تھا ، یہاں آئے ہوئے تقریباً ایک ہفتہ ہوگیا تھا اور تمام افراد خاندان سے اس کی ملاقات ہوچکی تھی لیکن اس کی نگاہیں ایمن کو ڈھونڈ رہی تھیں، جب وہ دادی جان سے ملنے ان کے گھر آیا تو حیران نگاہوں سے اپنے سامنے کھڑی اس نئی ایمن کو دیکھ رہا تھا جو کسی بات پر حنا کو طنزیہ جواب دے رہی تھی ۔ ثانیہ سے بھی سخت لہجے میں بات کرتے ہوئے سن کر وہ حیرت زدہ رہ گیا۔ خاموش سہمی ہوئی رہنے والی ایمن ہر ا یک کو ترکی بہ ترکی ہر بات کا جواب دے رہی تھی ۔
شہریار کے واپس آنے کی خوشی میں دادا جان نے سب خاندان والوں کی دعوت کر ڈالی ، یوں سب لوگ جمع ہوئے تھے اور ہنسی مذاق ہورہا تھا ۔ ایمن کچھ دور بیٹھی کسی تین نوجوانوں کے ساتھ محو گفتگو تھی ۔ خاصی بے تکلفی سے باتیں کررہی تھی ۔ کچھ دیر بعد سفینہ آپا بھی وہاں آ بیٹھیں، کہیں سے علی کیمرہ لئے ہوئے ادھر آیا ، سفینہ آپا کسی کام سے جاچکی تھیں، علی نے ان فیشن ایبل نوجوانوں کے ساتھ ایمن کو کھڑا کر کے ڈھیروں تصویریں کھینچیں۔ ایسے ماحول کو دیکھ کر شہریار کو تقریب میں بیٹھنا دشوار ہوگیا ، پھر وہ بالکل برداشت نہ کرسکا تو وہ دادا جان سے معذرت کرتے ہوئے اس محفل سے اٹھ گیا ۔ طبیعت کی خرابی کا بہانہ بناکر شائستگی کے ساتھ واپس اپنے گھر آگیا۔
رات گئے جب امی ابو گھر پہنچے تو انہوں نے بھی اس کے طرز عمل پر ناراضگی کا اظہار کیا ۔ مگر وہ کیا کرتا ، دل کے ہاتھوں مجبور جو تھا ۔

شہریار کس کس کس بات کو نظرانداز کرتا ، آخر کوئی حد ہوتی ہے ، اسے یقین ہی نہیں آتا کہ ایمن اس قدر بدل سکتی ہے ۔ سیدھی سادی لڑکی اس طرح مکر و فریب کے داؤ بیچ کیسے سیکھ گئی جس سے اس کے حسن کی سادگی داغدار ہوگئی تھی ۔ صرف اس کے حسن معصومیت اور بھولے پن کی خاطر اس نے ایک سے ایک حسین لڑکی کو ٹھکرا دیا تھا ۔
جب وہ دادی جان سے ملنے آیا اور ان کے پاس بیٹھا باتیں کر رہا تھا تو ایمن ہاتھ میں تصویروں کا لفافہ لئے اس کے پاس آ بیٹھی ۔ وہ لاکھ روشن خیال سہمی کم از کم دادی جان اور اپنے دیگر بڑوں کے سامنے وہ انتہائی ریزرو رہتا تھا ۔ ایمن کے یوں قریب بیٹھنے سے وہ مزید صوفے کی دوسری جانب کھسک گیا لیکن وہ کمال اطمینان سے اسے تصویروں کے متعلق تفصیلات سے آگاہ کر رہی تھی ۔ تمام تصویروں میں زیادہ تر مرد حضرات ہی تھے ، خواتین میں صرف ایمن اور سفینہ آپا ہی تھیں ۔ ان تصویروں کو دیکھنے اور ایمن کی چھچھوری حرکتوں سے اس کا خوشگوار موڈ خراب ہوگیا ۔ پھر وہ دادی سے معذرت چاہتے ہوئے وہاں سے اٹھ گیا۔
ایک دن اس کے صبر کا پیمانہ چھلک ہی پڑا ، جب وہ دادی جان کے ہاں آیا تو دادا سمیت سب لوگ کسی دعوت میں گئے ہوئے تھے۔ صرف دادی اور ایمن ہی گھر پر تھے ۔ وہ دادی جان کے پاس بیٹھا جاپان کے کلچر کے حوالے سے باتیں کرتا رہا ۔ مگر جب دوا کے زیر اثر ان کی آنکھیں بند ہونے لگیں تو وہ انہیں سوتا چھوڑ کر کمرے سے باہر آگیا۔
گھر میں خاموشی ہو نے سے وہ سوچ رہا تھا کہ ایمن سے اس کے بدلتے ہوئے رویوں کے بارے میں بات کرے گا ۔ وہ اوپر اس کے کمرے کی طرف جانے کیلئے قدم بڑھائے ہی تھے کہ سامنے کے منظر نے گویا اسے پاتال میں پہنچادیا ۔ اس کی نگاہوں کے عین سامنے ہی ایمن اور آصف کسی بات پر زور زور سے ہنس رہے تھے ۔ وہ شاید نظر انداز کرتا ہوا آگے بڑھ بھی جاتا مگر آصف نے ایک دم ایمن کی کلائی تھام لی اور ہاتھ میں پکڑی کلائی کی جانب جھک گیا ۔ اس کے آگے دیکھنے کی شہریار کی نگاہوں میں تاب نہیں تھی ۔ وہ واپس پلٹ گیا ،۔ مگر ایک لمحہ میں اپنا خیال بدلتے ہوئے وہ پلٹا ، تب آصف اپنی جگہ موجود نہیں تھا ۔
شہریار طوفان ، آندھی کی طرف ایمن کے سر پر جا کھڑا ہوا ، بڑی حقارت سے اس کی جانب دیکھا ، پھر نہ جانے کیسے اس کا ہاتھ اس کے پھول سے رخساروں پراٹھ گیا ۔ ایمن اچانک سہم سی گئی ۔ بھیگی خوفزدہ آنکھوں سے دیکھتی ہی رہی ۔ وہ اس کا بازو پکڑ کر غصہ سے کھینچتا ہوا اس کو کمرے میں ڈھکیل دیا اور نفرت سے کہنے لگا۔’’ آئی ہیٹ یو ایمن ! مجھے تم سے سخت کراہیت محسوس ہورہی ہے‘‘۔ وہ اس کے سر پر کھڑا بری طرح گرج برس رہا تھا ۔ غصہ سے بے قابو ہوگیا۔ ’میں تمہیں کیا سمجھتا تھا اور تم کیا نکلی ہو۔ مجھے اپنی محبت پر ندامت محسوس ہورہی ہے، مجھے خبر نہیں تھی کہ بھولی صورت کے لبادے میں تم اپنا مکروہ چہرہ چھپائے ہوئے ہو۔ جو لوگوں کو کھلا دھوکہ دیتے ہیں اپنے سنہری جال میں ‘‘۔اور ایمن زار و قطار رو رہی تھی ۔ شہریار کی باتیں تیزاب کی مانند اس کے وجود کو خاکستر کر رہی تھیں۔ اس نے زخمی نگاہوں سے دیکھا مگر وہ غصہ کے مارے اپنا جملہ مکمل نہ کرسکا ۔ کچھ دیر اپنے آپ پر کنٹرول کرنے کے بعد پھر آگ برسانے لگا۔

’’میں نے تمہیں کسی مقدس دیوی کی طرح اپنے من مندر میں بسالیا تھا جو ہر طرح کی دنیا کی آلودگیوں سے پاک تھی جو دکھاوے اور بناوٹ سے قطعی نا واقف تھی ۔ میں سمجھتا تھا بند سیپی میں سچے موتی کی طرح آبدار ہو تم۔ تمہاری معصومیت اور نکھری شخصیت نے میرے دل میں ایک خاص مقام بنالیا تھا ۔ مگر نہیں ، تم بھی عام لڑکیوں کی طرح سطحی سوچ والی ہی نکلیں‘‘۔ شہریار نے اپسے تپتی نگاہوں سے دیکھا ، اس کے جلتے جھلستے لہجے سے ایمن کو اپنا وجود جلتا ہوا محسوس ہورہا تھا۔ اس کی دبی دبی سسکیاں ابھی بھی سنائی دے رہی تھیں جبکہ شہریار باہر کھڑا اپنے آپ کو بڑی مشکل سے کنٹرول کر رہا تھا ۔
اب اس ناٹک کا مجھ پر کوئی اثر ہونے والا نہیں۔ خود کلامی کے سے انداز میں کہتا ہوا ، انتہائی سنگدلی کا ثبوت دیتے ہوئے وہ اس کے رونے کو نظر انداز کئے ہوئے زور سے دروازے کو ٹھوکر مارتے ہوئے باہر نکلا۔ اس جواری کی مانند جوا پنی زندگی کی سب سے قیمتی متاع ہارگیا ہو۔
ایمن کا معصوم ذہن بری طرح ماؤف ہوکر رہ گیا تھا ۔ اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ اس سارے قصے میں اصل مجرم کون ہے ۔ سفینہ آپا ، شہریار یا وہ خود کہ جس کا دامن پاک ہونے کے باوجود تہمتیں لگادی گئی تھیں۔ یہ سوچ کر ہی اس کا دل ٹکڑے ٹکڑے ہوا جارہا تھا ، نہ جانے کب روتے ہوئے اس پر غنودگی طاری ہوگئی اور ہر سمت اندھیرا پھیلتا چلا گیا۔
شہریار کے دل کی دنیا ویران ہوگئی تھی ۔ اس نے فیصلہ کرلیا کہ وہ اس سرزمین کو ہی چھوڑ دے گا، جہاں اس کی خوشیوں ، بہاروں کے دلفریب موسم سے سجے گلشن کو خود اپنی آنکھوں سے برباد ہوتے دیکھا تھا ۔ اب اسے اپنے والدین کی چاہتیں بھی روک نہ سکیں۔ امی اس کے جانے کا سن کر مسلسل روئے جارہی تھیں۔ اسے روکنے کی ہر ممکن کوشش کر رہی تھیں لیکن سب بے سود ثابت ہوا تھا ۔
’’خدا کیلئے امی میں آپ سے التجا کرتا ہوں، مجھے نہ روکئے کیونکہ اگر آپ نے مجھے زبردستی روکا  نہ تو دیکھ لیجئے گا کہ آپ کے بیٹے کا سانس بھی کچھ دنوں میں رک جائے گا‘‘۔
اوراس کی امی دہل کر رہ گئیں اور شہریار کا دل کٹ کر رہ گیا ۔ وہ اپنی ذات سے ا پنی اتنی چاہنے والی ماں کو کس قدر اذیت دے رہا ہے لیکن وہ خود بھی اپنے آپ کو نہایت بے بس اور مجبور محسوس کر رہا تھا۔
آنکھیں بند کئے بیڈ کراؤن سے ٹیک لگائے ا پنی ہی سوچوں میں گم تھا کہ دروازے کی آواز پر چونک گیا ۔ امی کی ہی آمد کے خیال سے ایک لمحہ آہ بھری اور آنکھیں کھول دیں لمحے میں وہ تیزی سے اپنا لباس درست کرتا ہوا اٹھ بیٹھا ، روتے ہوئے چہرے کے ساتھ سفینہ آپا کھڑی تھیں سرخ آنکھیں ان کی شب بیداری کی غمازی کر رہی تھیں۔ انہیں سلام کرنے کے بعد اس نے بیٹھنے کا اشارہ کیا ۔
’’آپ سفینہ ! آپا اس وقت ، خیریت تو ہے ۔ آپ کچھ پریشان دکھائی دے رہی ہیں مجھے ۔ کیا بات ہے کہیے ناں ؟ ‘‘
’’شہری میں تمہیں یہ بتانے آئی ہوں کہ ایمن کی حالت‘‘۔ انہوں نے ایک ٹھنڈی آہ بھری پلیز شہری میری بات غور سے سنو، میں تمہیں یہ بتانے آئی تھی کہ ایمن کی حالت بہت نازک ہے اور ڈاکٹر بے انتہا پریشان ہیں‘‘۔
’’میرے لئے وہ مرچکی ہے اس کا ہر تعلق ختم ہوچکا ہے ، مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ جئے یا مرے!!‘‘
یہ سن کر سفینہ آپا نے بھیگی پلکوں کو اٹھایا شہریار کو دیکھا ، جو بے انتہا مضطرب لگ رہا تھا۔  انہوں نے روتے ہو ئے کہا ۔ ’’شہری ! میں تمہیں ایمن کے متعلق یہ یقین سے کہہ سکتی ہوں کہ وہ آج بھی کل کی طرح معصوم اور سادہ اہے اسے بگاڑنے میں ، اسے یہ راہ دکھانے میں سراسر میرا ہاتھ ہے، میں ہوں تمہاری گنہگار ، اصلی مجرم ‘‘۔

یہ سن کر شہریا نے چونک کر انہیں دیکھا ۔ سفینہ آپا نے اسے ایمن کی سونی ، دکھوں سے پر زندگی کے ایک  گوشتے سے آشنا کیا کہ وہ بچپن ہی سے ایک محروم انسان کی حیثیت سے زندگی بسر کرتی رہی ہے  جس کے پاس سب کچھ ہونے کے باوجود بھی وہ پیار و محبت کیلئے ترستی رہی ہے ۔ دادا دادی کی محبت کی برسات بھی اس کیازل سے سوکھے من کو سیراب نہ کرسکی ۔ شعور کی منزلوں کو پہنچی تو اس کے ساتھ رہنے والے اس کے اپنے ہی اسے کچوکے دیتے رہے ۔ تعلیمی مراحل بھی بڑی تکلیف اور کرب کے ماحول میں گزارے ہیں۔ اس کی کزنز ہی دوسروں کے سا منے اس کی تذلیل کرتیں۔ اس کی انا کو تار تار کردیتیں۔ یوں وہ محسوس کر رہی تھی کہ اس کے اپنے ہی اسے ذلتوں اور ندامتوں کی گہرائیوں میں پھینکے ہیں، وہ بچپن ہی سے اسکول میں اور پھر کالج میں بھی کسی سے آنکھ ملانے کے قابل خود کو نہ سمجھا ۔ گھر آکر بھی کبھی بڑوں پر ظاہر نہ کیا کہ اس کی ہی اپنی بہنیں کیسے اس کے ساتھ اپنی نوکیلی باتوں سے اسے لہو لہان کرتی ہیں ۔ اسی طرح کا سلوک گھر پر بھی روا رکھا جاتا تھا۔ جس کی میں خود چشم دیدگواہ ہوں۔ یہ سب کچھ دیکھتے ہوئے میں نے کہا کہ ایمن تم خود کو بدلو ، میرے بار بار سمجھانے سے ہی بہت بے بس ہوکر اس نے اپنے آپ کو بدلنے کی طرف قدم بڑھائے۔ مگر وہ فطرتاً آج بھی ایک معصوم اور پاکیزہ اطوار کی حامل لڑکی ہے‘‘۔
سفینہ آپا کے انکشاف پر شہریا کے اندر ٹوٹ پھوٹ کا عمل تیزی سے جاری تھا ۔ اسے اپنے اندر درد کے تیز اور نوکیلے نیزے اترتے محسوس ہورہے تھے ۔ اس میں اب اور سننے کی تاب نہ تھی ۔ ’’تم نہیں جانتے شہری کہ اس روز تمہارے طرز عمل کی وجہ سے اس کی روح تک گھائل ہوچکی تھی وہ چار دن تک موت و زیست کا شکار ہونے کے بعد پرسوں رات میں صحیح معنوں میں ہوش میں آئی ہے‘‘۔
ایمن کی حالت کا سن کر وہ اندر تک سہم گیا ۔ خدا نہ خواستہ کچھ بھی ہوسکتا تھا ۔ مگر پھر دوسرے ہی پل اس کی نگاہوں میں اس روز والا واقعہ گھومنے لگا۔ آنکھوں دیکھے واقعہ کو تو جھٹلایا نہیں جاسکتا تھا ۔ دل کا شک شکوہ بن کر زبان سے نکل ہی گیا ۔ جسے وہ کسی کے بھی سامنے اظہار کرنا نہیں چاہتا تھا ۔ یہ سن کر آپا مسکرانے لگیں اور مسرور نگاہوں سے دیکھا۔
’’احمق لڑکے۔ بدظن نہ ہو کہ بدگمانی بہرحال بری شئے ہے ، ایمن کو تو تم مجھ سے بھی پہلے سے جانتے ہو، افسوس کہ تم اس کے اندر کی خوبصورت لڑکی کو پہچان نہ پائے ۔ وہ تو اتنی شرمیلی لڑکی ہے کہ نگاہ اٹھاکر زیادہ دیر کسی کو دیکھ نہیں سکتی۔ یہ سب تو میری شہہ پر ہوتا تھا ۔ کل ذرا اس کی طبیعت ٹھیک محسوس ہوئی تو اس نے خود مجھے بتایا کہ آصف کو وہ ا پنے چھوٹے بھائی کی طرح سمجھتی ہے ، اس روز گرل پر پر ہاتھ رکھنے کی وجہ سے اس کی چوڑی ٹوٹ کرکلائی میں چبھ گئی تھی ، اسے نکالنے کیلئے آصف نے تمہاری پسندیدہ ہستی کا ہاتھ پکڑا تھا۔ آیا کچھ سمجھ میں ۔ اچھا ایک اہم بات تو بتانا ہی بھول گئی ۔ میں نے اس کا استعفیٰ بھجوادیا ہے ۔ اب وہ مکمل گھریلو لڑکی کے روپ میں نظر آئے گی‘‘۔
یہ سب سن کر شہریار کو یوں محسوس ہوا جیسے کافی دیر تک ابر چھائے رہنے کے بعد مطلع ایک دم صاف ہوگیا ہو۔ نرم نرم دھوپ ہر طرف پھیل گئی ہو۔ اس نے آگے بڑھ کر سفینہ آپا کے دونوں ہاتھ تھام لئے اور کانپتی ہوئی آواز میں صرف اتنا کہا۔
آپا میں … میں آپ کا کس طرح شکریہ ادا کروں۔ آپ نے مجھے ایک نئی زندگی عطا کی ہے جس کیلئے میں عمر بھر آپ کا احسان مند رہوں گا‘‘۔
وہ حقیقت میں بہت خوش تھیں کہ ان کی وجہ سے دو انسانی زندگیاں ہمیشہ کیلئے دوری کا عذاب سہنے اور ریزہ ریزہ ہوکر بکھرنے سے بچ گئی تھیں۔

پھر سفینہ آپ نے ایمن کو کل رات کی ساری روداد سنائی ۔ جسے سن کر ایمن کے ہونٹوں پر ایک تلخ سی مسکراہٹ دوڑگئی ۔ اس نے پر ملال لہجے میں ان سے صرف اتنا ہی کہا تھا ۔
’’سفینہ آپ ! زبان سے لگائے گئے گھاؤ ایک مدت تک بھرا نہیں کرتے۔ ایک بار جو نظروں سے گرجائے اسے پہاڑ کی بلندیوں پر بھی کھڑا کردیں تو اسے دوبارہ اس کا کھویا ہوا مقام نہیں مل سکتا۔ شہریار کی باتوں نے اتنا گھائل کردیا ہے مجھے کہ میری روح تک زخمی ہے ۔ آج تک مجھے کسی اور کی باتوں نے اتنا آزوردہ نہیں کیا ‘‘۔
سفینہ آپا نے اس کی پیشانی چوم کر اسے گلے لگالیا اور بچوں کی طرح سمجھاتے ہوئے کہنے لگیں۔ ’’مائی ڈْر ایمن ! یہ سب تم نے اتنی شدت سے صرف اس لئے محسوس کیا ہے کہ وہ شخص ساری دنیا کے انسانوں میں تمہارے لئے سب سے زیادہ اہم جو تھا جسے ہم سب سے زیادہ چاہتے ہیں، اس کی طرف سے پھینکی جانے والی پھول کی پنکھڑی بھی تلوار کا سا گھاؤ دے گی ۔ اسی لئے شہریار کی باتوں اور طرز عمل نے تمہیں زخمی کیا ہے ‘‘۔
ایمن بات کی گہرائی کو محسوس کر کے شرم سے سرخ ہوگئی تھی اور اب ا پنے سامنے شہریار کو کھڑا دیکھ کر اسے سفینہ آپا کی باتیں یاد آگئیں۔ اپنی چشم نم سے اس کی طرف دیکھا۔ ’’ایمن ! میں بہت شرمندہ ہوں۔ یقین کرو مجھے خود کچھ علم نہیں تھا کہ مجھے یکایک کیا ہوگیا تھا ۔ بہرحال پلیز مجھے معاف کردو‘‘۔
شہریار نے اتنی لجاجت اور عاجزی سے کہا کہ ایمن اپنے مصنوعی غصہ کو زیادہ دیر تک برقرار نہ رکھ سکی‘‘۔ شہریار ! آپ کو کسی قسم کی معذرت کرنے کی ضرورت نہیں ہے جو کچھ ہوا اسے فراموش کردیں ۔ مجھے آپ سے کوئی شکایت نہیں ہے‘‘۔
اوہ ! تھینک یو ایمن ‘‘۔ شہریار نے اپنی سیاہ چمکتی آنکھوں سے احسان مندی سے دیکھا ’’اس کا مطلب ہے تم بھی مجھے پسند‘‘ ۔ اب اسے الفاظ نہیں مل رہے تھے اپنی خوشی کے اظہار کیلئے …’’ایمن اب ایک اور خوشخبری سنادوں ۔ امی نے دادا جان سے ہم دونوں کی شادی کی بات کرلی ہے ۔ اگلے ہفتہ منگنی اور اگلے مہینے شادی … میری طرف پیشگی مبارکباد قبول کیجئے۔
یہ سن کر ایمن کے گلابی گال دمک اٹھے ۔ شہریار ہنستا ہوا شاداں و فرحاں کمرے سے نکل گیا اور بیڈ پر بیٹھی ایمن زندگی میں پہلی بار اعتماد سے مسکرا رہی تھی۔