افسانہ … ’’آرزو کا خون ‘‘

خیرالنساء علیم
شائستہ بیگم کے شوہر زیادہ پڑھے لکھے شخص نہ تھے ۔ کسی فرم میں معمولی سے عہدہ پر فائز تھے جس کا انہیں زندگی بھر پچھتاوا رہا لیکن انہوں نے اپنے  دونوں لڑکوں کی تعلیم و تربیت پر بہت توجہ دی۔ بڑے بیٹے شاہ ذر کو پڑھنے کا بہت شوق تھا ۔ وہ بہت ذہین بھی تھا ۔ والدین کی جستجو اور حوصلہ افزائی پاکر اسبہت اچھے نمبرات کے ساتھ انجنیئرنگ کی ڈگری حاصل کرلی ۔ ان کے مالی وسائل نہیں تھے کہ دونوں بیٹوں کو اعلیٰ تعلیم دلاسکتے۔ اسی لئے بڑے بیٹے کی طرف زیادہ دھیان دیئے اور وہ انجنیئر بن گیا لیکن چھوٹا بیٹا آذر B.A. B.Ed کر کے کسی اسکول میں بحیثیت ٹیچر ملازمت کرلی۔
شائستہ بیگم اور علی احمد بہت خوش تھے ۔ ریٹائرمنٹ کے بعد فنڈ  کا جو کچھ روپیہ ملا اس سے انہوں نے دونوں بیٹوں کی شادی کردی ۔ ابھی شادی کے ہنگامے ختم بھی نہ ہوئے تھے کہ اچانک ہارٹ فیل کی وجہ سے علی احمد انتقال کر گئے … شائستہ بیگم کو محسوس ہوا کہ دونوں بیٹوں کے ہوتے ہوئے بھی جیسے وہ اب اکیلی ہوگئی ہوں … ایک پرانی کہاوت ہے کہ ماں باپ دس بچوں کو بہ خوشی پال سکتے ہیں… مگر دس بیٹے مل کر بھی ماں باپ کو نہیں پال سکتے۔ یہ مثال شائستہ بیگم پر پوری اترتی تھی۔
شاہ زر کا گورنمنٹ جاب تھا اس کا تبادلہ ہوتے رہتاتھا ۔ سو وہ دوسرے شہر میں تبادلہ ہوتے ہی ماں اور بھائی سے دور ہوگیا ۔ نہ کوئی خیر ، خبر ہی لیتا نہ ماں کے خرچے کے لئے کچھ روپئے ہی بھیجتا۔ اس کی بیوی بھی بے انتہا خود غرض تھی ۔ اس لئے دوسرے شہر جاتے ہی انہوںنے اپنی دنیا ہی الگ بسالی۔ شائستہ بیگم کا چھوٹا بیٹا آذر چونکہ پرائیویٹ اسکول میں ٹیچر تھا، اسی شہر میں ماں اور بیوی کے ساتھ رہتا تھا ۔اس کی بیوی سوہا سیدھی سادی ، ہمدرد و مخلص طبیعت کی تھی ۔ ساس کی قدر کرنے والی تھیں۔ آذر تو اسے پاکر اپنی قسمت پر ناز کرنے لگا تھا ۔
وقت کا کام ہے گزرتے رہنا اور وہ دبے پاؤں گزرتا ہی رہتا ہے۔ دیکھتے دیکھتے ہی دس سال کا عرصہ گزر گیا ۔ اس دس برسوں میں شاہ ذر کے ہاں ایک بیٹا اور ایک خوبصورت بیٹی ان کے آنگن میں رونقیں بکھیر رہی تھیں۔ آذر بھی دو بیٹوں کا باپ بن چکا تھا ۔ شائستہ بیگم آذر اور سوہا کے ساتھ ہی رہتی تھیں۔ چونکہ آذر کی تنخواہ کم تھی سو اس نے تین ٹیوشن پڑھانے شروع کردیئے تھے جس کی وجہ سے وہ رات دس بجے تک مصروف رہتا تھا۔ گھر کا سارا نظام سوہا کے ہاتھ میں تھا ۔ وہ ایک ذمہ دار ، سلیقہ مند ، ہمدرد اور کفایت شعار بیوی تھی ۔ وہ ہر حال میں خوش اور مطمئن رہتی تھی۔ شائستہ بیگم اب بہت کمزور ہوگئی تھیں۔ وہ تو ہمیشہ سے کاٹ کسر کرنے والی کم سے کم میں گزارا کرنے والی صابر خاتون تھیں۔ انہوں نے اپنے بڑے بیٹے کی طرف پلٹ کر دیکھنا گوارہ نہ کیا ۔ وہ نہیں چاہتی تھیں کہ اپنی ضروریات کیلئے شاہ ذر کی طرف دیکھیں اس کی بے حسی سے وہ بہت دکھی ہوجاتی تھیں۔ شاہ ذر کی خود غرض اور بے حسی کو سب نے ہی محسوس کیا تھا ۔ نظر انداز کرنے کے علاوہ کوئی چارہ بھی نہیں تھا ۔ وہ لوگ دوسرے شہر سے آتے دو دن رہتے جانا چاہتے تو کوئی روکتا نہیں تھا۔

ابھی کچھ دن پہلے شاہ ذر اپنی بیوی اور بچوں کے ساتھ ماں سے ملنے کیلئے آیا تھا ۔ مگر اس کو بیمار ماں کے پاس بیٹھ کر خیریت پوچھنے کی ضرورت محسوس نہ ہوئی ۔ روزانہ سیر و تفریح کے بازاروں کے چکر ، سسرالی رشتہ داروں کے ہاں دعوتوں کا سلسلہ ۔ جس کی وجہ سے رات دیر گئے گھر آتے اور پھر دوسرے دن کی وہی مصروفیت۔ کسی دن باہر جاتے ہوئے شاہ ذر نے اماں سے کچھ پیسے مانگے۔
’’میرے پاس تمہاری فضول خرچیوں کیلئے پیسے نہیں ہیں‘‘… انہوں نے صاف انکار کردیا شاہ ذر حیرت سے ماں کا منہ تکتے رہ گئے کہنے لگے … ’’اماں ! آذر تمہیں خرچ کیلئے کچھ نہیں دیتا ‘‘؟’’آذر کی ایسی کونسی بڑی تنخواہ ہے … جو ہم سب کا پیٹ بھرنے کے بعد میری دواؤں اور ڈاکٹروں کے خرچوں کے بعد مجھے فضول خرچی کرنے کیلئے بھی جیب خرچ دے جو ہزاروں کماتے ہیں وہ تو‘‘… انہوں نے جملہ ادھورا چھوڑ دیا ۔ بعد میں پچھتانے لگیں کہ بیٹے کے سامنے انہیں ایسا نہیں کہنا چاہئے تھا۔
کچھ دن بعد انہیں شاہ ذر سے فون پر بات کرتے ہوئے اپنا دل ٹکڑے ٹکڑے ہوتا ہوا محسوس ہوا… وہ کہہ رہا تھا ۔ ’’اماں !! مجھے آپ کی کمزوری اور بیماری کو دیکھ کر بہت ترس آیا ۔ آپ اپنا خیال رکھئے گا۔ میں یہاں واپس آنے کے بعد آپ کے بارے میں بہت فکرمند ہوں ۔ کچھ پیسے منی آرڈر کر رہا ہوں جس سے اپنی ضروریات پوری کیجئے گا ‘‘۔
شائستہ بیگم ذلت اور غصہ سے کھول اٹھیں… کہنے لگیں، ’’شاہ ذر !! تم نے  غلط اندازہ لگایا ہے ۔ مجھے پیسوں کی کیا ضرورت ہے ۔ میرے ہاتھ تمہارے آگے پھیلے نہیں تھے ۔ تم بہت پڑھ لکھ گئے ہو۔ اس لئے فرض اور رحم کے فرق کو بھلا بیٹھے ہو۔ رحم کن لوگوں پر کیا جاتا ہے اور فرض کی ادائیگی کیسے ہوتی ہے ۔ یہ تمہاری ڈگریوں کی پڑھائی میں نہیں سمجھایا جاتا ۔ احساس مند دل ، کھلی آنکھیں اور سوچ والا ذہن بناؤ تو تمہیں سمجھ میں آجائے گا کہ ماں باپ کا کیا رتبہ ہے ۔ میں تم سے شکایت نہیں کر رہی ہوں۔ شکر گزار ہوں اللہ تعالیٰ کی کہ اس نے مجھے ایک بیٹا ایسا بھی عطا کیا ہے جواپنے منہ میں نوالہ ڈالنے سے پہلے سب اطمینان کرلیتا ہے کہ اماں نے کھانا کھایا یا نہیں ۔ اپنی ماں کی خدمت کو اپنا فرض سمجھ کر کرتا ہے ۔ مجھے خاموش ، افسردہ نہیں دیکھ سکتا ۔ میری آنکھوں کی نمی وہ اپنے دل پر محسوس کرتا ہے ۔ ایسے بیٹے کا ساتھ ہے مجھے کسی بات کی فکر نہیں۔ اسی لئے منی آرڈر کی کوئی ضرورت نہیں‘‘۔ آہستگی سے فون بند کردیا ۔ پھر وہ ا پنے بستر پر لیٹے سوچ رہی تھیں۔

ایک کے بعد دوسرے بیٹے کی پیدائش پر وہ کس قدر خوش تھیں۔ دونوں میاں بیوی ہی بیٹوں کو بڑا ہوتے دیکھ کر خوشی سے پھولے نہ سماتے تھے ۔ ان کی تعلیم و تربیت بہت اچھی اپنی حیثیت سے زیادہ خرچ کر کے کرتی تھیں۔ ان کا خیال  تھا کہ انہیں آگے کے لئے پیسے جمع کرنے کی کیا ضرورت ہے ۔ دونوں بیٹوں کے ہوتے ہوئے انہیں کسی بھی بات کی فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی لیکن جو انسان سوچتا ہے وہ ہمیشہ پورا تو نہیں ہوتا۔ یہی ان کے ساتھ بھی ہوا تھا جو بیٹا قابل اور ضرورت سے زیادہ کماتا تھا ۔ وہی ان کیلئے بے حس تھا ۔ شروع شروع میں انہوں نے احساس دلانے کی کوشش کی تھی کہ آذر کی تنخواہ اور ٹیوشن وغیرہ سے بھی گھر کے اخراجات پورے نہیں ہوتے۔ پھر میری ضروریات اور بیماری سے وہ پریشان ہوتا ہوگا ۔ تمہیں کچھ اپنی ذمہ داری کو سمجھنا چاہئے ۔ مگر شاہ ذر سن کر بھی ان سنی کرگیا ۔ شائستہ بیگم کو منہ کھول کر مانگنا گوارہ نہ ہوا۔ وہ اپنی گزری ہوئی زندگی کے سود و زیاں میں گھیری رہیں۔ کب ان کوآنکھ لگی کچھ پتا نہیں۔
اطلاعی گھنٹی بجی تو وہ گیٹ پر پہنچیں۔ پوسٹ مین نے منی آرڈر فارم آگے کیا ۔ رقم کے خانے پرنظر پڑی 5000 روپئے کے ہندسے لکھے تھے ۔ اس رقم سے ان کی کئی ضرورتیں پو ری ہوسکتی تھیں۔ مگر شاہ ذر کے فون پر کہے گئے الفاظ یاد آتے ہی ان کی آنکھیں ذلت کے احساس سے جل اٹھیں’’پوسٹ مین ! یہ منی آرڈر واپس کردو‘‘۔ ’’کیوں ؟ اماں جی ! یہ آپ کے نام کا منی آرڈر نہیں ہے ؟‘‘
’’ہاں میرا ہی نام ہے ۔ فارم پر لکھ دو کہ وصول کرنے والے نے لینے سے انکار کردیا‘‘۔ پوسٹ مین کو رخصت کر کے وہ اندر آئیں۔ منی آرڈر واپس کر کے وہ پرسکون سی ہوگئی تھیں۔ پھر انہوں نے فون اٹھاکر شاہ ذر کے نمبر ڈائیل کئے۔ ’’بیٹے شاہ ذر میں نے تمہیں منع کیا تھا پیسے بھیجنے کیلئے مگر تم نے بھیج دیا تم غلط سمجھے ۔ میرے ہاتھ خالی ضرور تھے مگر تمہارے آگے پھیلے نہیں تھے۔
سمجھدار اولاد کا فرض ہے کہ وہ اپنی ماں کی ضرورتوں کو سمجھے ۔ اپنا فرض سمجھ کر ایک ماں کی خدمت کرے ۔ اس کا ہاتھ پھیلنے سے پہلے اس کی ضرورتوں کو پورا کرے ۔ منہ کھلنے سے پہلے اس کی خواہش پوری کردے۔ شاہ ذر بیٹا تم پریشان مت ہو۔ میں اکیلی یا لاوارث نہیں ہوں ۔ ایک کم معاش ، سمجھدار ، ہمدرد، اطاعت گزار خدمت گزار بیٹا ہے میرے ساتھ آذر کے ساتھ رہتے ہوئے مجھے کسی قسم کی مالی امداد کی نہ ہی کسی قسم کے رحم کے جذبے کی ضرورت ہے۔ میں بہت خوش ہوں بیٹے تم بھی مطمئن رہو، میری غیرت اور خودداری یہ برداشت نہ کرسکی ، اس لئے منی آرڈر واپس کردی ہوں۔ ’’برا نہ ماننا !‘‘ فون بند کرکے وہ بہت پرسکون ہوگئیں۔