افسانہ آئے ہو تم بہار بن کے

محمد مجیب احمد
ڈاکٹر رمیش کی شادی ہوئے پچیس برس کا عرصہ بیت چکا تھا  لیکن آج بھی اسے ایسا لگتا ہے کہ جیسے یہ کل ہی کی بات ہو۔ اس تصور کے ساتھ ہی اس کے روم  میں انبساط آگئیں  جذبات کا خوش گوار احساس جاگ اٹھتا ہے اور بھولی بسری یادیں پھر سے تازہ ہو جاتی ہیں۔ پچیس سال قبل جب وہ میڈیسن کی تعلیم کے آخری سال میں تھا ۔ اس وقت ہرطالب علم کی طرح اس کے بھی تابناک مستقبل کے خوش آئند خواب  تھے۔ ابھی اس کا شادی کا کوئی ارادہ نہ تھا اس بارے میں اس نے کچھ سوچا بھی نہیں تھا ۔ اس کے برخلاف رمیش کے والدین نے اچانک اس کے سامنے پدما کے پیام کا تذکرہ کیا اور اسے دیکھنے کی خواہش ظاہر کی تو وہ تذبذب کا شکار ہوگیا تھا ۔ پدما جس کا اس نے کبھی نام سنا تھا اور نہ ہی اسے دیکھا تھا ۔ پھر اسے ذہنی کشمکش کے بعد والدین کے انتخاب کے آگے اپنا سر تسلیم خم کرنا پڑا تھا۔
ایک دن جب وہ اپنے والدین کے ساتھ پدما کودیکھنے اس کے گھر گیا تو ان کے حسن انتخاب پرعش عش کرنے لگا ۔ پدما جیسے مجسمہ رعنائی و حسن کو دیکھ کر اسے یوں لگا کہ قدرت نے اسے صرف اس کے لئے پیدا کیا ہو۔ اپنی پسند کا اظہار اس نے مسکراتے ہوئے کیا تھا جس پر والدین بھی خوش ہوئے تھے ۔ اس کے بعد رمیش کوا یسا محسوس ہوا تھا کہ ان کی مرضی پر اپنی خوشنودی کی مہر ثبت کرکے درست فیصلہ کیا تھا ۔ پدما خوبصورت ہونے کے ساتھ خوب سیرت کی حامل دوشیزہ تھی ۔ اس کے باوجود رمیش کے والدین نے اپنے انتخاب کی قبولیت کے لئے اس پر زور نہیں دیا تھا ۔ !
بیٹا …! اس رشتہ کے متعلق ایک بار پھر سے اچھی طرح سوچ کر جواب دو ۔ ماں نے مشفقانہ مشورہ دیا۔
آپ کا فیصلہ میرے سر اور آنکھوں پر۔ رمیش نے بالآخر اپنے دل کی بات کہہ دی۔ بیٹے کا مثبت جواب پاکر والدین نے جلد ہی منگنی اور شادی کی تاریخیں طئے کردی تھیں۔ پدما کے ماں باپ کو بھی یہ نسبت ہرطرح سے موزوں لگی تھی ، پھر منگنی کے چند ہی دنوں کے بعد دونوں گھرانوں میں شادی کی خوشیاں زور و شور سے شروع ہوگئی تھیں۔ اس طرح رمیش اور پدما رشتہ ازدواج  میں بندھ گئے تھے ۔ شادی کے بعد دونوں کو ایک دوسرے کو جاننے میں دیر نہیں لگی۔ گویا وہ ایک دوجے کیلئے بنائے گئے ہوں۔ وہ خود کو دو جسم ایک جان سمجھتے تھے ۔ نئی زندگی کا آغاز انہوںنے اجنبیت کے بجائے اپنائیت اور ذہنی ہم آہنگی سے کیا تھا اور اس سفر کیلئے اعتماد اور ایقان کا راستہ متعین کیا تھا ۔ ان کے نزدیک صرف یہی حقیقت کافی تھی کہ ان کا رشتہ آسمان پرطئے ہوا تھا اور اب وہ زمین پر آن ملے ہیں۔ یوں دونوں ہنسی خوشی کے ساتھ اطمینان و سکون سے رہنے لگے تھے!
رمیش کو یہ سب اب بھی خواب جیسا لگ رہا تھا ۔ ہنگامی حالات میں انجام پائی یہ شادی ایک حقیقت بن کر اس کے سامنے تھی ۔ وہ اپنے والدین کے علاوہ چھوٹے بھائی کی خواہش پر فوری شادی کیلئے راضی ہوا تھا ۔ ورنہ تعلیم مکمل ہونے سے پہلے اس کا ایسا کوئی خیال نہیں تھا ۔ چھوٹے بھائی رتنیش کی اعلیٰ تعلیم کیلئے لندن روانگی یقینی ہوگئی تھی ۔ وہ چاہتا تھا کہ اس کے جانے سے قبل ہی بڑے بھائی کا بیاہ ہوجائے ۔ یہی سبب تھا کہ اس کی شادی جھٹ منگنی اور پٹ بیاہ کے مصداق ہوگئی تھی ۔ رمیش فطرتاً کم گو اور خلوت پسند واقع ہوا تھا جبکہ پدما زودگو اور ملنسار طبیعت کی مالک تھی ۔ اس نے اپنی خدمت اور خلوص سے جلد ہی خاوند کا دل موہ لیا تھا ۔ یہی نہیں بلکہ پدما کے گھر والوں اور اس کے بھائیوںکے رمیش کے ساتھ دوستانہ اور مخلصانہ تعلقات استوار ہوگئے تھے جس سے آپسی قربت میں مزید تقویت پیدا ہوگئی تھی ۔ دیکھنے والوں کو یہ گمان ہوتا تھا کہ جیسے اس شادی سے پیشتر ان کے درمیان رشتہ داری قائم تھی ۔ خاص طور پر ایک تقریب کے دوران جب پدما نے رمیش کو رمی کہہ کر بلایا تو لوگوں کو حیرت کے علاوہ مسرت بھی ہوئی تھی ۔ چند مہینوں کے بعد رمیش اپنے سالانہ امتحانات میں مصروف ہوگیا تو پدما بھی برابر اس کا بھرپور تعاون کرنے لگی تھی ۔ ہر وقت شوہر کی اطاعت شعاری اور فرماں برداری کو اس نے اپنا نصب العین بنالیا تھا ۔ اس کی ہر آرزو اور خوشی اس سے وابستہ تھی ۔ اس کی کامیابی اور ترقی پدما کے واسطے جیسے اپنی تھی ۔ رمیش کی خدمت گزاری کو اس نے اپنی عین  ذمہ داری مان لیا تھا ۔
شادی کی پہلی سالگرہ کے ساتھ رمیش کی ڈاکٹریٹ میں کامیابی ان کیلئے بہار بن کر آئی تھی ۔ کچھ روز بعد جب اس کا تقرر بحیثیت پریکٹشنر گلوبل ہاسپٹل کے شعبہ امراض جگر میں ہوگیا تو سب کی خوشیاں دوبالا ہوگئی تھیں۔
’’پدما جیسی شریک حیات کا میری زندگی میں داخل ہونا میرے لئے ایک سنہرا خواب اور کامیابی کا باعث ثابت ہوا ۔ روایتی طور پر ہوئی اس شادی سے پہلے ہم ایک دوسرے کیلئے بالکل اجنبی تھے ۔ مگر شادی کے بعد ہم نے اپنی پسند اور ناپسند کا کھلے طریقہ سے اظہار کر کے فراست اور وسعت نظری کا ثبوت دیتے ہوئے اپنی خواہشات معلوم کرلی تھی تاکہ آئندہ کبھی ہمارے درمیان کسی قسم کی نااتفاقی اور ناراضگی کا دخل نہ ہو اور آپس میں ہمیشہ ہم آہنگی برقرار رہے جو کہ ایک کامیاب ازدواجی زندگی کیلئے نہایت ضروری ہے جس سے ہمیں خوشگوار تعلقات قائم کرنے میں مدد ملی تھی ۔ ڈاکٹر رمیش نے مسرت آگیں لہجہ میں کہا ۔
ڈاکٹر رمیش کی تقرری کے بعد ٹریننگ کیلئے چینائی شہر روانگی عمل میں آئی تھی ۔ وہاں کچھ مدت گزار کر اس نے شہر منگلور میں ماسٹر ڈگری کے حصول کی خاطں سکونت اختیار کرلی تھی ۔ جہاں سے دو برس کے بعد وہ اور پدما لندن روانہ ہوگئے تھے ۔ دونوں کی اٹوٹ محبت ، سخت محنت اور آپسی اعانت رنگ لائی تھی ۔ زندگی کی راہیں ان کیلئے آسان ہوگئی تھیں۔ جب سات سال کے بعد وہ لندن سے اپنے وطن واپس آئے تو ان کے ساتھ دونوں کی محبت کی نشانی آدرش ، خاصہ بڑا ہوگیا تھا ۔ انہوںنے اپنی ساری محبتیں اور چاہتیں اس پر نچھاور کر رکھی تھیں۔ اس کی بہتر تعلیم اور عمدہ پرورش پر خصوصی توجہ دینے لگے تھے اور چاہتے تھے کہ وہ بھی ان کے نقش قدم پر چل کر ایک کامیاب انسان اور ذمہ دار شہری بنے تاکہ سماج میں اعلیٰ مقام اور روشن مثال قائم کرسکے ۔ آدرش کے پیش نظر اس کے والدین ایک کا میاب اور مکمل نمونہ حیات کی حیثیت رکھتے تھے ۔ احساس کمتری اور ناکامی کو بالائے طاق رکھ کر انہوں نے بیٹے کی قدم قدم پر رہنمائی کا بیڑا اٹھا رکھا تھا ۔
رمیش اور پدما خود بھی اپنے خاندان کے علاوہ سب احباب و اقارب میں کامیاب زندگی کا بہترین نمونہ اور عمدہ مثال تھے ۔ دونوں کی خواہش تھی کہ ان کی اولاد بھی ایسی ہی ڈگر پر چل کر ان کی اطاعت گزار بنے تاکہ وہ کامیابی سے ہمکنار ہوسکے۔ ’’میرے شوہر نے کبھی بھی مجھے کسی طرح کی شکایت کا موقع نہیں دیا ۔ ہم نے ایک دوسرے کا اچھی طرح ساتھ نبھایا ہے اور ضرورتوںکا پورا پورا پاس و لحاظ رکھا ہے ۔ ہماری محبت ایک ناقابل فراموش حصہ ہے جس سے ہماری زندگی میں روشنی اور رونق قائم ہے ۔ اس حقیقت کو ہم کبھی نظرانداز نہیں کرسکتے ۔ میں شادی کے ابتدائی ایام میں جب کبھی اپنے مائیکے جاتی تو رمیش کے چہرے کی افسردگی مجھ سے دیکھی نہیں جاتی تھی ۔ پھر اس کی خوشی کی خاطر میں نے اپنے گھر جانا رفتہ رفتہ کم کردیا تھا ۔ ہر عورت کا سسرال ہی اپنا حقیقی گھر ہوتا ہے اور شوہر کی محبت ہی اس کے لئے سب کچھ ہوتی ہے‘‘۔  پدما نے اپنے خوشگوار تاثرات کااظہار کیا۔
یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں تھی کہ رمیش اور پدما نے محبت بھری زندگی گزاری تھی ۔ انہوں نے ایک دوجے سے والہانہ پیار کیا تھا ۔ اپنی شفاف زندگی میں کبھی ذرا سی بھی دراڑ پڑنے نہیں دی تھی ۔ کسی نے بھی آپس میں ٹھیس نہیں پہنچائی تھی ۔ ا یک مثالی جوڑے کی مانند چاہت کے ساتھ حسن سلوک اپنایا تھا ۔ ’’پدما میری زندگی کا ایک اٹوٹ حصہ ہے جس کی تھوڑی سی جدائی کا بھی میں تصور نہیں کرسکتا۔ گزرتے وقت کے ساتھ ہمارے بیچ قربت و محبت کا رشتہ مزید گہرا اور مستحکم ہوتا گیا تھا ۔ ہر ازدواجی زندگی میں اتار چڑھاؤ کے لمحات آتے رہتے ہیں لیکن ہمارے مابین ایسا کچھ نہیں ہوا کیونکہ ہم نے ایک دوسرے سے کچھ سیکھا اور سمجھا ہے ۔ نیز احساسات و جذبات  کو اپنی خواہش پر ترجیح دی اور مقدم رکھا ہے ‘‘۔  ڈاکٹر رمیش نے محبت سے مغلوب انداز میں کہا ۔
پدما اور رمیش کو رشتہ ازدواج سے منسلک ہوئے پچیس برس کی طویل مدت گزر چکی تھی ۔ مگر ابھی تک وہ اپنے وعدوں اور قسموں پر قائم تھے ۔ اگر کسی وجہ سے آپس میں کوئی ناخوشگوار موڑ آتا تو وہ فوراً ہی کھلے دل اور مثبت طور سے اس کو سلجھالیتے تھے یا پھر اس مسئلہ کو ایک دوسرے کی مرضی پر چھوڑ دیتے تھے ۔ اسے اپنی انا اور خودی کا معاملہ نہیں سمجھتے تھے ۔ اپنے فرصت کے اوقات میں  پدما سماجی خدمات انجام دینے لگی تھی ۔ وہ خواتین کے مسائل اور گھر یلو تنازعات کی یکسوئی کیلئے پیش پیش رہنے لگی تھی جس سے متاثرہ خواتین کو بڑی راحت اور معاونت مل رہی تھی ۔
’’ہماری سچی محبت اور باہمی خوشگوار تعلقات کی بناء پر ہم نے ایک کامیاب جوڑے کی حیثیت سے سماج میں اپنا ایک منفرد مقام بنایا ہے ۔ میرا یہی ایک خواب تھا کہ مجھے ایک چاہنے والا اور ذمہ دار ہم سفر ملے اور ہماری زندگی الفت و راحت سے گزرے ۔ میں وثوق سے کہتی ہوں کہ رمیش  میں یہ ساری خوبیاں موجود ہیں اور چاہتی ہوں کہ ہر بیوی اور خاوند بھی اسی طریقہ سے اپنی زندگی بسر کریں‘‘۔ پدما نے سب خواتین و مرد کو یہ پیام دیا۔
آئے ہو میری زندگی میں تم بہار بن کے
میرے دل میں یوں ہی رہنا تم پیار پیار بن کے