سنچورین ۔25 ڈسمبر (سیاست ڈاٹ کام ) پاکستانی ٹیم کے کوچ مکی آرتھر نے جنوبی افریقہ کے خلاف سیریز کے لیے بیٹسمینوں کو مرکزی کردار قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ افریقہ کے خلاف سیریز کے نتیجے کا انحصار اس بات پر ہو گا کہ ہمارے بیٹسمینس کتنے رنز اسکور کرتے ہیں۔ پہلے ٹسٹ میچ سے قبل ایک انٹرویو میں آرتھر نے کہا کہ ہم یہ جانتے ہیں کہ ہم آسانی سے 20 وکٹیں لے سکتے ہیں لیکن ہمارے لیے چیلنج 350 سے 400 رنز بنانا ہے۔ آرتھر کی طرح ان کے جنوبی افریقی ہم منصب اوٹس گبسن بھی یہی جملہ استعمال کر سکتے ہیں جن کے پاس کگیسو ربادا اور ڈیل اسٹین کی شکل میں دو بہترین بولرز موجود ہیں لیکن جنوبی افریقہ میں بولروں کے لیے سازگار وکٹوں پر میزبان ٹیم کی اپنی بیٹنگ بھی ان کے کوچ کے لیے دردسر بنی ہوئی ہے۔ سنچورین میں 26دسمبر کو شروع ہونے والے پہلے ٹسٹ میچ سے قبل پاکستان اور جنوبی افریقہ دونوں ہی ٹیمیں اپنے سب سے مستند بولروں محمد عباس اور ورنان فلینڈر سے محروم ہو چکی ہیں جہاں دونوں ہی بولروں نے بہترین لائن و لینتھ پر بولنگ کرنے کے لیے مشہور ہیں۔ فلینڈر انگلی ٹوٹنے کے سبب نہیں کھیل سکیں گے جبکہ محمد عباس کندھے کی تکلیف میں مبتلاء ہیں۔ عباس کی غیرموجودگی میں بھی پاکستان کے پاس محمد عامر، حسن علی اور شاہین شاہ آفریدی کی شکل میں اچھے بولرز موجود ہیں جبکہ یاسر شاہ کی لیگ اسپن بھی میزبان بیٹسمینوں کے لئے چیلنج ہو گی۔ جنوبی افریقہ کو کگیسو ربادا کے ساتھ تجربہ کار ڈیل اسٹین کا ساتھ میسر ہو گا جبکہ زخمی لنگی نگیدی کی جگہ ڈوان اولیویئر تیسرے بولر ہیں جنہوں نے جنوبی افریقی ٹی20 ٹورنامنٹ سب سے زیادہ وکٹیں حاصل کی تھیں۔ نیوزی لینڈ کے خلاف ٹسٹ سیریز میں پاکستانی ٹیم ہدف کے تعاقب میں دو مرتبہ ناکامی سے دوچار ہوئی لیکن جنوبی افریقی انوی ٹیشن الیون کے خلاف میچ میں پاکستان کے تمام بیٹسمینوں نے ٹسٹ میچ سے قبل اچھی بیٹنگ پریکٹس کرتے ہوئے رنز اسکور کئے ہیں۔ جنوبی افریقہ کی ٹیم کو اے بی ڈی ویلیئرز کی سبکدوشی کے بعد سے مسائل کا سامنا ہے اور وہ مستقل مزاجی سے کارکردگی نہیں دکھا پا رہی۔ میزبان ٹیم کے لئے سب سے بڑی پریشانی 35 سالہ ہاشم آملہ کا فارم میں نہ ہونا ہے جنہوں نے آخری سنچری گزشتہ سال اکتوبر میں بنگلہ دیش کے خلاف بنائی تھی اور گزشتہ 10 ٹسٹ میچوں میں ان کی اوسط 23.36 رہی۔ جنوبی افریقہ کی امیدوں کا محور کپتان فاف ڈیو پلیسی اور وکٹ کیپر کوئنٹن ڈی کوک ہوں گے جو اچھی فارم میں ہیں جبکہ ٹیمبا باووما اور تھیونس ڈی برون سے بھی اچھی کارکردگی کی توقع ہے۔ اسپورٹس پارک سنچورین کی وکٹ کو فاسٹ بولروں کے لئے بہت موزوں سمجھا جاتا ہے، روایت ہے کہ اس پر گیند میں بہت اچھال،تیز رفتار اور سوئنگ بھی بہت دیکھنے کو ملتا ہے، آخری اننگز میں بیٹسمینوں کے لیے کھیلنا بہت مشکل رہا ہے۔ اسی گراؤنڈ پر 8 سال پہلے گرائم اسمتھ اینڈ کمپنی نے پاکستانی ٹیم کو ایک اننگز اور 18 رنز سے شکست دی تھی۔ اطلاعات کے مطابق پاکستان کی پلینگ الیون میں فخرزمان،امام الحق، اظہر علی، حارث سہیل، اسد شفیق، بابر اعظم، سرفراز احمد، حسن علی، یاسر شاہ،محمد عامر اور شاہین شاہ آفریدی شامل ہیں۔۔ ڈیل اسٹین کے لئے یہ میچ اس لحاظ سے بہت اہمیت ہے کہ انہیں جنوبی افریقہ کی طرف سے ٹسٹ میں سب سے زیادہ 422 وکٹوں کا ریکارڈ اپنے نام کرنے کے لیے صرف ایک وکٹ کی ضرورت ہے،وہ اس وقت سابق کپتان شان پولاک کے ساتھ 421 وکٹ لے کر برابر پہنچ چکے ہیں۔