پروفیسر محمد اکبر علی خان
سابق وائیس چانسلر تلنگانہ یونیورسٹی
تعلیمی شعبے میں اسا تذ ہ میں صلا حیتو ں کے فقدان کی شر ح میں اضا فہ ہو تا جا ر ہاہے ہند و ستا ن جیسے معا شی طو ر پر تر قی پذ یر ملک کیلیے یہ ایک اچھی علا مت نہیں ہے چو نکہ اسا تذ ہ مستقبل کے لیڈرز کی نشو نماو ارتقا اور تیا ر ی میں راست طو ر پر شا مل ہیں اِسلئے یہ لا ز می ہو جا تا ہے کہ اسا تذ ہ کے معیا ر میں بہتری لائی جا ئے اور صلا حیتو ں کے فقدان کی شرح کو کم کیا جا ے اِسٹا نفورڈ کے پروفیسر بیبی نوبیل پرایز لینے والے محقق راج چیٹی کے مطا بق حقیقت میں اسا تذہ کی جانب سے اقدار میں اضا فہ سے متعلق اپنی تحقیق میں بیان کرتا ہے کہ اچھے اسا تذہ طلبا کے لیے معا شی قدر میں اضا فہ کا با عث ہو تے ہیں جبکہ ایک نا اہل اْستاد کسی ایک ادارے میں دس سال سے زیادہ کام کیا ہو اس نے دراصل ڈھائی ملین ڈالرکا نقصان کیا ہے اس کی تحقیق بنیا دی طور پر ایک اْستاد کی صلا حیتوں کا فقدان معیشت پر اثرانداز ہوتا ہے اور یہ نقصا ن طویل مدت میں بھاری نقصان کی صو رت میں ظاہر ہوتا ہے
یہاں اِس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ صلا حیتوں کا فقدان مختلف ریا ستوں میں یو نیورسٹیز کی مختلف پالیسیوں کا نتیجہ ہے اگر چیکہ بازار میں ریا ستی یو نیورسٹیز کی بڑی حصہ داری ہے لیکن اِنتخاب پر مبنی کریڈیٹ سسٹم کے اِطلاق میں نا کامی مختلف شعبہ جات میں اِرتباط میں کمی نے کئی ایک مسا ئل کھڑے کئے ہیں حال ہی میں وزارت فروغ اِنسانی وسائل کی ترقی نے تحقیق میں اساتذہ کے معیار کو بہتر بنانے کے لئے سی یس آر سے کا ر پس کی تخلیق کی ہے اعلیٰ سطحی تحقیق کے لئے فنڈز کے حصول کے لئے وزارت فروغ اِنسانی وسائل کی ترقی نے اعلیٰ سطحی تحقیق کے لئے صنعت کو سی یس آر فنڈز سے جوڑا- خانگی ادارے بھی ملا زمت کے خواہاں اْمیدواروں میں صلا حیتوں کے نہ ہو نے کی وجہ سے نقصان میں ہیں جس کی وجہ سے یہ اِدارے خانگی یو نیورسٹیوں کو قائم کر ر ہے ہیں جیسے مْنجل یو نیورسٹی،شیونادر یو نیو ر سٹی،ین آئی آئی ٹی یو نیورسٹی،عظیم پریم جی یو نیورسٹی وغیرہ۔یہ اِدارے باقاعدہ پروگرامس تیار کر ر ہے ہیں تا کہ صنعت کے تقاضوں کی تکمیل ہو سکے۔ اہم بات یہ ھیکہ یو نیورسٹیز بہتر ین عالمی سطح کے ڈاٹا بیس وسائل، تربیت کی سہولتیں اور معیا ری اِنفراسٹراکچرفراہم کر رہے ہیں۔ریا ستی یو نیورسٹیزکو بھی خا نگی اِداروں سے مربوط کرنے کی ضرورت ہے تاکہ سی یس آر کی تحریک سے فنڈز کی مقدار میں اِضافہ کیا جا سکے۔ جس کی وجہ سے علم پیشہ ورانہ اِداروں سے ماہرین تعلیم میں منتقلی کی راہ ہموار ہو سکے گی۔ ہمیں چاہیے کہ خانگی اِداروں کو اِس بات کی اِجا زت دیں کہ وہ ریا ستی و مرکزی یو نیورسٹیز سے اِشتراک کریں تاکہ صنعت کو مطلوب پروگرامس و ڈیزائین کے طریق عمل میں پی پی پی ماڈل اِسٹیک ہولڈرز اورمعیشت کے لئے فائدہ بخش ثابت ہو۔ اعلیٰ تعلیم میں وزارتِ فروغ اِنسانی وسائل اور دیگر منظم اِدارے بازار کی طلب اور مطلو بات کے مطا بق تدریس و تحقیق کے اْن پہلووں اور معیار پر اساتذہ کو تیار کرنے پر توجہ مر کوز کرنے جیسے عالمی سطح کے اداروں کے مطابق منصو بہ بندی۔ملک کے وہ تمام فریقین کی ضرورت مطا بق ایک کا لج جیسے اِداروں کی ہندوستان کے لئے شدید ضرورت ہے Barefoot بْلو پرنٹ کی ضرورت ہے تاکہ اساتذہ کی صلاحیتو ں میں اِ ضافہ کیا سکے۔ عصری تدریس کے اس دور میں یہ بے حد ضروری ہو گیا ہے کہ اساتذہ اپنے آپ کو ٹیکنا لوجی سے جوڑ لیں ورنہ ان کا شمار ازکار رفتہ اساتذہ میں ہو گا اور اپنے مضمون میں مہارت پیدا اور یہ مہا رت طلبا میں منتقل کریں- خانگی کالجس میں اکثر یہ دیکھا گیا ہیکہ اساتذہ اپنے آپ کو اِنتظا میہ کو جوابدہ سمجھتے ہیں جبکہ اِن کا بنیا دی فریضہ یہ ہو کہ طلبا کو بہتر انداز میں علم سے بہرور کریں- اِنتظامیہ لکچرر کی وفاداری سے ہٹ کر طلبا ء سے فیڈ بیاک لیں اور اسکی بنیاد پر ہی ان کی خدمات کی ہر سال تجدید کر تے رہیں کیو نکہ اساتذہ پہلے طلباء کو جوابدہ ہیں طلباء کی بہترین رائے ایک اْستا د کے بارے میں اچھی اْسی وقت ہو سکتی ہے جبکہ وہ طلباء کو بہتر انداز میں معیاری تعلیم دیں۔اعلیٰ تعلیم میں ٹکنالوجی کا اِستعمال آج کے دور میں بے حدضروری ہے۔ اِس لیے اساتذہ کا اپنے آپ کو ٹکنالوجی سے لیس کرنا اکیسویں صدی کے تقا ضوں کی تکمیل ہے کیونکہ آج کی نئی نسل کوٹیکنا لو جی سے ذیادہ لگاو ہے اور ملک کی معیشت میں تمام شعبہ جات میں ٹیکنالوجی کا اِستعمال زیادہ ہوگیا ہے لیکن بد قسمتی کی بات ہے کہ یو جی سی کے مسلسل آئی ٹی پر توجہ دینے کے باوجود بھی تقر یبًا سارے اِداروں میں اساتذہ ٹکنا لوجی کواپنانے سے قا صر ہیں معیاری تعلیم و تدریس کے لئے یہ ضروری ہے کہ اساتذہ اپنی روزمّرہ کی تدریس میں ٹیکنا لوجی کو اِستعمال کریں۔ملک کی مختلف یونیورسٹیز اور کالجس میں گذشتہ دس برسوں سے اساتذ ہ کی مخلوعہ جایئدادوں پر بھرتی پر توجہ نہیں دی جا رہی ہے حالانکہ اِس طرف مختلف گوشوں سے نما ئندگی کی جا رہی ہے جس کی وجہ سے کالجس میں تقررکے لئے یو جی سی کے وضع کردہ اہلیت کے اْصولوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے کم تعلیمیافتہ افراد کا تقرر عارضی بنیادوں پر کیا جا رہا ہے اور اِن کا معا و ضہ بھی نہایت کم ہے اِسلئے یہ اساتذہ بہتر انداز میں اپنے فرائض انجام نہیں دے رہے ہیں جس کی وجہ سے تعلیمی معیار دن بدن گھٹتا جا رہا ہے۔ طلبا ء پر مغربی تہذیب کے اثرات کچھ زیادہ نظر آرہے ہیں جسکی وجہ سے بڑوں کی عزت اور سماجی تقاضوں کی تکمیل نہیں ہو رہی ہے اور نوجوان طبقہ میں اقدار ختم ہو رہے ہیں اِس کیفیت کو دور کر نے کے لئے نصاب میں اخلاقیات کو شامل کیا جائے فنیشنگ اِسکول قائم کیے جائیں تاکہ طلباء اخلاق تہذیب خاندانی رکھ رکھاو اور سماجی زندگی کے لیے ضروری آداب سیکھ سکیں اخلاق کو تعلیم کیساتھ جوڑا جا ئے تاکہ یہ زندگی گذارنے کے فن سے واقف ہو سکیں اِس کام کو اساتذہ اچھے انداز میں کر سکتے ہیں اِس طرح طلباء ڈگری کے بعد ہر شعبہ حیا ت میں خودمکتفی ہو سکتے ہیں اور سماج کے تیئں اپنی ذمہ داری سمجھ سکتے ہیں اور اپنے آپ روزگار پیدا کر سکتے ہیں ۔