کراچی ۔25 مئی (سیاست ڈاٹ کام) پاکستانی ٹینس اسٹار اعصام الحق قریشی اور ان کے ہندوستانی ساتھی کھلاڑی روہن بوپنا کی جوڑی دو سال بعد دوبارہ اکٹھی ہوئی ہے اور یہ دونوں جیت کا سلسلہ وہیں سے شروع کرنا چاہتے ہیں جہاں سے انھوں نے چھوڑا تھا۔ان دو برسوں کے دوران روہن بوپنا نے کئی پارٹنرس تبدیل کئے جبکہ اعصام الحق نے ہالینڈ کے جولین راجرس کے ساتھ مقابلوں میں حصہ لیا۔ اس سال اعصام الحق اور روہن بوپنا کے نتائج ملے جلے رہے ہیں۔ دونوں نے دبئی اوپن جیتنے کے ساتھ ساتھ سڈنی کا فائنل کھیلا ہے تو دوسری جانب چند ایونٹس کے پہلے اور دوسرے راؤنڈ میں شکست بھی ان کا مقدر بنی۔اعصام الحق اپنے پرانے دوست کے ساتھ گرانڈ سلام ڈبلز خطاب جیتنے کی خواہش کو حقیقت کا روپ دینے کے آرزو مند ہیں۔ اور ساتھ ہی وہ سال بھر کی عمدہ کارکردگی کا صلہ اے ٹی پی ورلڈ ٹور فائنلس تک رسائی کی صورت میں بھی دیکھنا چاہتے ہیں۔
اعصام الحق نے سے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ رواں سال اب تک انھیں سخت مقابلوں کا سامنا رہا ہے۔اس وقت درجہ بندی میں ہمارا مقام 8 ہے اور صف اول کے کھلاڑیوں کے خلاف ہمارے میچ بہت ہی سخت رہے ہیں۔ اٹالین اوپن میں بدقسمتی سے ہمارا مقابلہ برائن برادرس سے دوسرے ہی راؤنڈ میں ہوگیا۔ لیکن توقع ہے کہ فرنچ اوپن اور ومبلڈن میں ہمیں سیڈنگ مل جائے گی جس کے سبب ہمارا برائن برادرس اور دوسرے صف اول کے کھلاڑیوں سے سامنا ابتدائی مرحلے میں نہیں ہوگا۔اعصام الحق نے مزید کہا ہے کہ جتنا عرصہ بھی وہ روہن بوپنا سے الگ رہ کر کھیلے انھوں نے بہت کچھ سیکھا۔ جب آپ مختلف کھلاڑیوں کے ساتھ کھیلتے ہیں تو کچھ نہ کچھ ضرور سیکھتے ہیں۔ مجھ میں جو خامیاں تھیں میں نے دور کرنے کی کوشش کی ہیں۔ ہم دونوں میں زیادہ پختگی آئی ہے اور تجربہ بھی ملا ہے۔اعصام الحق کے بموجب گرانڈ سلام جیتنے کی لگن انھیں آگے بڑھنے میں مدد دے رہی ہے۔
جب ہم نے 2010 میں یو ایس اوپن کا فائنل کھیلا تو لوگ اسے اتفاق سمجھتے تھے۔ لیکن ہم نے اپنی کارکردگی سے یہ ثابت کیا ہے کہ یہ اتفاق نہیں تھا۔ میرا اب بھی یہی مقصد ہے کہ اپنے کریئر کا پہلا گرانڈ سلام جیتوں۔ مجھے اپنی صلاحیتوں کا اچھی طرح پتہ ہے کہ میں گرانڈ سلام خطاب حاصل کرسکتا ہوں۔اعصام الحق اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ یا تو وہ فائنل میں جا پہنچتے ہیں یا پھر پہلے ہی راؤنڈ سے باہر ہوجاتے ہیں۔اس مسئلے پر قابو کرنے کی ہم دونوں کوشش کر رہے ہیں۔ ابھی اس میں کمی آئی ہے۔ 2010 اور 2011 میں ایسا کئی مرتبہ ہوا تھا لیکن اب صورتحال خاصی مشکل ہے کیونکہ ڈبلز کے قوانین میں بڑی تبدیلی آگئی ہے اور ہم دونوں زیادہ تر میچز سخت مقابلے کے بعد سوپر ٹائی بریکر میں ہارے ہیں۔ لیکن ابھی سال ختم نہیں ہوا ہے کئی مقابلے باقی ہیں اور مجھے یقین ہے کہ ہم اس سال بھی اچھے نتائج دیں گے۔