اعتکاف… خلوت اور جلوت کے فوائد پر مشتمل جامع عبادت

رمضان المبارک ایسا عظمتوں اور برکتوں والا مہینہ ہے، جو امت محمدیہ پر سایہ فگن ہوکر ان کو گناہوں کی حرارت سے بچاتا ہے، معاصی سے محفوظ رکھتا ہے، ان کے دلوں کو پاکیزہ بناتا ہے، ان سے برے صفات دور کرکے اخلاق حسنہ کا پیکر بناتا ہے، ان کے دلوں میں شوق عبادت پیدا کرتا ہے، یہاں تک کہ ان میں تقویٰ کا جوہر پیدا ہو جاتا ہے۔ اور یہی بعثت کا اہم مقصد، اسلام کی روح اور تصوف کی جان ہے۔ جیسا کہ علامہ بیضاوی نے تفسیر بیضاوی میں ’’ھدًی للمتقین‘‘ کی تفسیر میں تقویٰ کے معنی و مفہوم کو بیان کرتے ہوئے اس کے سب سے اعلی و ارفع معنی بیان فرمائے کہ حقیقی تقویٰ یہ ہے کہ بندہ مؤمن اللہ سبحانہ و تعالی کی طرف ہمہ تن متوجہ رہے اور کوئی آن اور کوئی لمحہ یاد الہی سے غافل نہ رہے اور یہی معنی و مفہوم اللہ تعالی کے اس ارشاد سے بھی مطلوب ہے: ’’اے ایمان والو! اللہ تعالی سے ڈرو جیسے اس سے ڈرنے کا حق ہے‘‘۔

تقویٰ اور پرہیزگاری انسان کو اس وقت حاصل ہوتی ہے، جب وہ عبادت کی کثرت کے ساتھ ساتھ ان چار بنیادی چیزوں کا اہتمام کرتا ہے، جو مجاہدہ کے اہم ستون اور اساسی رکن سمجھے جاتے ہیں: (۱) قلت طعام (۲) قلت کلام (۳) قلت نوم (۴) قلت اختلاط۔
اسلام کی تمام مشروع عبادتوں پر غور کیا جائے تو پتہ چلے گا کہ اعتکاف ایک ایسی جامع عبادت ہے، جس میں یہ تمام چیزیں بدرجہ اتم پائی جاتی ہیں۔ اعتکاف کے لغوی معنی قیام کرنا، حبس نفس اور کسی چیز کو لازم کرلینے کے ہیں اور اصطلاح شریعت میں مسجد میں بہ نیت تقریب قیام کرنا ہے۔ حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے اعتکاف کے لئے ایسی مسجد کی شرط لگائی ہے، جس میں نماز باجماعت ادا کی جاتی ہو اور صاحب نورالایضاح نے اس کو قول مختار قرار دیا اور عورت اپنے گھر کی مسجد میں اعتکاف کرے گی، یعنی وہ مقام جس کو اس نے نماز کے لئے متعین کرلیا ہے۔ بعض احادیث شریفہ میں لفظ ’’اعتکاف‘‘ اور ’’مجاورہ‘‘ دونوں ہم معنی اور مترادف ہیں۔

اعتکاف کے رکن اور شرائط
نفس قیام اعتکاف کا رکن ہے اور مسلمان ہونا، عاقل ہونا، جنابت و حیض سے عورت کا پاک ہونا اور مسجد میں نیت کرنا شرائط اعتکاف ہیں۔ اعتکاف کی تین قسمیں ہیں: (۲) واجب (۲) سنت مؤکدہ علی الکفایہ (۳) مستحب۔
اعتکاف کا حکم قرآن کریم اور احادیث شریفہ سے ثابت ہے، چنانچہ اللہ سبحانہ و تعالی کا ارشاد ہے: ’’ولاتباشروھن وانتم عاکفون فی المسٰجد‘‘۔ بخاری شریف میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت ہے، آپ فرماتی ہیں کہ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان المبارک کے اخیر عشرہ میں اعتکاف فرمایا اور آپﷺ کے پردہ فرمانے کے بعد ازواج مطہرات اس پر کاربند رہیں اور اعتکاف کا اہتمام کیں۔

امام زہری لوگوں پر تعجب کا اظہار کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ وہ اعتکاف جیسی عظیم عبادت چھوڑ دیتے ہیں، جب کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ابتدائً کبھی اس کا اہتمام فرماتے اورکبھی ترک فرمادیتے، لیکن آپﷺ نے مدینہ منورہ تشریف لانے کے بعد اپنی وفات تک کبھی ترک نہیں فرمایا۔ (بدائع الصنائع)
بخاری شریف اور دیگر صحاح ستہ کی روایتوں سے واضح ہے کہ اعتکاف امت محمدیہ کے ساتھ مخصوص نہیں، بلکہ زمانہ جاہلیت میں بھی لوگ اس کا اہتمام کرتے تھے۔ چنانچہ بخاری شریف باب الاعتکاف لیلًا میں ہے کہ حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ نے حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ ’’میںنے زمانہ جاہلیت میں مسجد حرام میں ایک رات کے اعتکاف کی نذر کیا تھا‘‘۔ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’تم اپنی نذر پوری کرلو‘‘۔ ایک اور روایت میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو اعتکاف کے ساتھ روزہ رکھنے کا حکم فرمایا۔ (عمدۃ القاری)
مزید برآں حضرت ابراہیم علیہ السلام کو خانہ کعبہ کی تعمیر کے وقت اللہ تعالی کی طرف سے جو احکام ملے تھے، اس میں یہ بھی حکم ہے کہ بیت اللہ شریف کو طواف کرنے والوں اور اعتکاف کرنے والوں کے لئے پاک رکھیں (سورۃ البقرہ) اس سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ اعتکاف کا تصور اور حکم زمانہ قدیم ہی سے چلا آرہا ہے۔

اعتکاف کی فضیلت اور اس کی قدر و منزلت بے شمار ہیں، کیونکہ بندہ اس دنیا میں دنیا کے تمام تعلقات اور اپنی تمام تر مصروفیات کو خیرباد کرکے اللہ تعالی کی بارگاہ میں حاضر ہوتا ہے، جان کو اس کے درپر ڈال دیتا ہے اور اپنے دل کو اس کے حوالے کردیتا ہے۔ پس اس کے اعضاء اللہ تعالی کی عبادت میں ہوتے ہیں اور اس کی ہر سانس اللہ تعالی کی یاد میں کٹتی ہے، گویا کہ بندہ اپنے آپ کو اللہ تعالی کے درپر سوالی بناکر ڈال دیتا ہے، گویا کہ جب اپنی مراد حاصل نہ ہو، اپنے ماتھے کو دربار الہی کی چوکھٹ سے نہیں اٹھائے گا اور جب تک مغفرت اور رضائے الہی کا پروانہ نہ ملے دامن کو نہیں چھوڑے گا۔ بندے کے ان جذبات، وارفتگی اور دیوانگی پر رحمت الہی جوش میں آتی ہے، اس کو مراحم خسروانہ سے کئی سعادتیں اور سرفرازیاں نصیب ہوتی ہیں۔ چنانچہ حدیث پاک میں حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے، حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ’’معتکف گناہوں سے محفوظ رہتا ہے اور اس کو اسی قدر نیکیاں عطا کی جاتی ہیں، جتنی کہ تمام قسم کی نیکیوں اور بھلائیوں کے کرنے والے کو دی جاتی ہیں‘‘۔ اس حدیث پاک میں معتکف کو دو عظیم بشارتیں دی گئی ہیں، ایک گناہوں سے محفوظ رہنا اور دوسری نیکیوں کا حاصل ہونا۔

یہی اصل شے ہے اور راہ سلوک کی کلید ہے کہ بندہ اپنے آقا و مولیٰ کی نافرمانی اور معصیت سے بچا رہے، اسی کو اصطلاح تصوف میں تخلیہ کہتے ہیں۔ اللہ سبحانہ و تعالی کے فضل سے اس کو ان اعمال و افعال کی بھی نیکیاں ملتی ہیں، جو اعتکاف کی وجہ سے وہ نہیں کرسکتا، مثلاً مریض کی عیادت، نماز جنازہ میں شرکت۔ پس نیکیوں کے کرنے اور اس کے حاصل ہونے سے تصوف کے دوسرے جز کی تکمیل ہوتی ہے، جس کو ’’تخلیہ‘‘ کہتے ہیں۔
اعتکاف ایسی عظیم عبادت ہے، جو جلوت اور خلوت کے تمام منافع اور فوائد کی جامع اور دونوں کے مفاسد سے پاک ہے۔ اعتکاف کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ اس سے انسان کا نفس مغلوب ہوتا ہے اور وقت کی حفاظت ہوتی ہے اور یہی دو چیزیں صوفیۂ کرام کا مقصود و مطلوب ہیں، جیسا کہ حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے اس قول سے واضح ہے: ’’میں صوفیہ کی صحبت اور ان کی معیت میں دس برس رہا اور اتنے طویل عرصہ میں میں نے ان سے صرف دو ہی چیزیں حاصل کیں، نفس پر نگاہ رکھو اور وقت کا خیال رکھو‘‘۔

اعتکاف میں انسان روزہ رکھتا ہے، بھوک و پیاس اور ترک خواہشات کی وجہ سے اس کا نفس کمزور و ناتواں ہو جاتا ہے۔ علاوہ ازیں مسجد کی نورانی فضاء اور عبادات و طاعات کے نورانی ماحول کے سبب نفس اپنی دسیسہ کاریوں اور مکر و فریب سے عاجز آجاتا ہے، نیز قلت اختلاط اور عوام سے کم ربط کی وجہ سے اپنے قیمتی اوقات کی حفاظت اور اس سے صحیح استفادہ ہوتا ہے۔ معتکف کو انتظار الصلٰوۃ بعد الصلٰوۃ کا ثواب ملتا ہے، نماز باجماعت تکبیر تحریمہ کے ساتھ ملتی ہے، نگاہ نامحرم کو دیکھنے سے محفوظ رہتی ہے، کان غیبت اور فحش کلام سننے سے محفوظ رہتے ہیں اور زبان کثرت کلام سے محفوظ رہتی ہے۔ بزرگوں اور نیک لوگوں سے نماز کے اوقات میں ملاقات ہوتی ہے، ان کے اعمال اور ریاضت کو دیکھ کر تواضع اور فروتنی پیدا ہوتی ہے اور اس میں شہرت کے شر سے بچتا ہے، جو گوشہ نشینی سے حاصل ہوتی ہے، بطور خاص شب بیداری کے ذریعہ شب قدر کی تلاش کا اجر و ثواب ملتا ہے۔